صحیح بخاری

اہلسنت علماء کرام کے نزدیک صحیح سندوں اور راویوں کے ساتھ حضور ﷺ کے الفاظ، باتیں جو محفوظ کی گئیں وہ مستند کتاب "صحیح بخاری” ہے مگر اس "صحیح” لفظ کو ٹیکنیکل طور پر اہلحدیث اور اہلتشیع حضرات "غلط” طور پر استعمال کرتے ہیں کیونکہ:

کسی عالم کا یہ دعوی نہیں کہ امام بخاری کی صحیح بخاری میں ضعیف احادیث نہیں ہو سکتیں؟ کسی عالم کا یہ دعوی نہیں کہ صحیح بخاری میں سب احادیث صحیح اور باقی سب احادیث کی کتابوں کی احادیث ضعیف ہیں۔ کیا جب صحیح بخاری و مسلم نہیں تھیں تو سب ضعیف احادیث پر عمل کر رہے تھے۔

اہلحدیث جماعت: سے ایک سوال ہے کہ کس نے قانون بنایا کہ ہم صرف صحیح بخاری پر عمل کریں گے کیونکہ اس کی روایات سب صحیح ہیں۔ اُس مجتہد کا نام اہلحدیث حضرات بتا دیں یا احادیث سے مسائل اخذ کرنے کا اصول بتا دیں؟

اہلتشیع جماعت: سے ایک سوال ہے کہ حضور ﷺ یا مولا علی کی کونسی احادیث پر عمل کرتے ہیں؟ اگر اہلسنت بخاری، مسلم، ترمذی، ابن ماجہ، نسائی، ابو داود کو صحیح و ضعیف احادیث مانتے ہیں تو وہ حضور ﷺ کی ہیں مگر اہلتشیع کے پاس تو حضور ﷺ یا مولا علی کی کونسی احادیث صحیح اسناد و راویوں کے ساتھ ہیں؟؟

اعتراضات

صحیح بخاری 3392: سیدہ عائشہ نے کہا ‘ پھر نبی کریم ﷺ (غار حراء سے) سیدہ خدیجہ کے پاس لوٹ آئے تو آپ ﷺ کا دل دھڑک رہا تھا۔ سیدہ خدیجہ، آپ ﷺ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں، وہ نصرانی ہو گئے تھے اور انجیل کو عربی میں پڑھتے تھے۔ ورقہ نے پوچھا کہ آپ کیا دیکھتے ہیں؟ آپ نے انہیں بتایا تو انہوں نے کہا کہ یہی ہیں وہ «ناموس» جنہیں اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے پاس بھیجا تھا اور اگر میں تمہارے زمانے تک زندہ رہا تو میں تمہاری پوری مدد کروں گا۔

سوال: اہلتشیع حضرات مسلمانوں میں یہ کہہ کر شک پیدا کرتے ہیں کہ رسول اللہ کی نبوت کی تصدیق ورقہ بن نوفل نے کی، اسلئے بخاری شریف کی احادیث غلط ہیں حالانکہ جواب یہ ہے کہ اللہ کریم سورہ بقرہ 146 میں فرماتا ہے "اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْكِتٰبَ يَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا يَعْرِفُوْنَ اَبْنَاۤءَهُمْۗ وَاِنَّ فَرِيْقًا مِّنْهُمْ لَيَكْتُمُوْنَ الْحَـقَّ وَهُمْ يَعْلَمُوْنَ” یہ اہلکتاب تمہیں ایسے پہچانتے ہیں جیسے اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں مگر حق چھپاتے ہیں مگر صحیح بخاری 3392 میں ورقہ بن نوفل نے حق نہیں چھپایا بلکہ تصدیق کی۔ اسلئے ش سے شیعہ، ش سے شیطان، ش سے شک ، پیدا کرے گا مگر وہ خود مسلمان نہیں ہیں۔

صحیح بخاری 2788، 2789: رسول اللہ ﷺ سیدہ ام حرام ( حضورﷺ کی خالہ بحوالہ تاریخ دمشق لابن عساکر، حدیث 74127) کے گھر جاتے، وہ ان کو کھانا کھلاتیں اور ان کے سر سے جوئیں نکالتیں۔۔

سوال: اہلتشیع کا گمان ہے کہ نبی کریم کو جوئیں پڑہی نہیں سکتیں۔ جواب یہ ہے کہ کیا حضور ﷺ نے فرمایا کہ مجھے جوئیں نہیں پڑ سکتیں؟ دوسری بات یہ ہے کہ حضور ﷺ بشر ہیں جو آپ کی بشریت کا انکار کرے مسلمان نہیں ہے۔ تیسرا صحیح بخاری 4190: سیدنا کعب بن عجرہ کو عمرہ حدیبیہ کے موقع پرجوئیں پڑ گئیں جو ان کے چہرے سے گر رہی تھیں تو رسول اللہ ﷺ نے ان کو سر منڈوا کر تین دن کے روزے وغیرہ رکھنے کا حُکم دیا۔ البتہ ہماری احادیث کی شرح یہ کہتی ہے کہ کسی حدیث میں نہیں آیا کہ حضورﷺ کو جوئیں پڑ جاتی تھیں بلکہ صحابہ کرام کی جوئیں حضور پر چڑھ جاتیں جو آپ کی خالہ نے اتار دیں یا اتار دی جاتیں، اس میں کوئی گناہ نہیں۔

صحیح بخاری 2691: حضور ﷺ عبداللہ بن ابی (منافق) کے یہاں ایک گدھے پر سوار ہو کر گئے۔۔ جدھر سے آپ ﷺ گزر رہے تھے وہ شور زمین تھی۔ جب نبی کریم ﷺ اس کے یہاں پہنچے تو وہ کہنے لگا ذرا آپ دور ہی رہئیے آپ کے گدھے کی بو نے میرا دماغ پریشان کر دیا ہے۔ اس پر ایک انصاری صحابی بولے کہ اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گدھا تجھ سے زیادہ خوشبودار ہے۔ ۔

سوال: اہلتشیع کا الزام کہ حضور ﷺ کے گدھے کو بدبودار کہا گیا۔ البتہ جواب یہ ہے کہ یہ بکواس تو منافق عبداللہ بن ابی کی تھی اور صحابی نے کیا فرمایا وہ حدیث میں لکھا ہے۔ اب منافق عبداللہ بن ابی کے چمچے اہلتشیع ٹیکنیکل طریقے سے عوام میں شک پیدا کرتے ہیں۔

صحیح بخاری 25، 392: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے ج ن گ کروں اس وقت تک کہ وہ اس بات کا اقرار کر لیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور یہ کہ محمد ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز ادا کرنے لگیں اور زکوٰۃ دیں، جس وقت وہ یہ کرنے لگیں گے تو مجھ سے اپنے جان و مال کو محفوظ کر لیں گے، سوائے اسلام کے حق کے۔

نبی کریم ﷺ نے مر تد کو سزا دی اور جو فرائض ادا نہ کرے اُس پر سزا دینا نبی کریم ﷺ کا کام ہے۔ اسلئے جو ضروریات دین یعنی نماز، روزہ، حج، زکوۃ کا منکر ہے وہ مسلمان نہیں۔ اہلتشیع پہلے یہ بتا دیں کہ ان کے پاس حضور ﷺ یا مولا علی کا اس بارے میں کیا فرمان ہیں جس پر مر تد کی سزا بیان ہو؟؟

صحیح بخاری 3894:سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ سے میرا نکاح جب ہوا تو میری عمر چھ سال کی تھی، پھر ہم مدینہ آئے اور بنی حارث بن خزرج کے یہاں قیام کیا۔۔ پھر جب رخصتی ہوئی تو میری عمر اس وقت نو سال تھی۔

اہلتشیع اور لبرلز کا یہ الزام ہے کہ چھوٹی سی عمر میں نکاح کیسے ہو سکتا ہے حالانکہ سوال یہ ہے کہ کیا قرآن اور احادیث کے مطابق نابالغ کا نکاح اُس کے والدین کر سکتے ہیں یا نہیں؟ دوسرا رخصتی بالغ ہونے کے بعد کب ہونی چاہئے؟ تمام لبرلز اور اہلتشیع سے سوال ہے کہ اُن کے پاس نکاح کے متعلق متفقہ طور پر کونسی کتاب ہے جس میں لکھا ہو کہ اس عمر میں جائز ہے ورنہ نہیں اور کس کی لکھی کتاب ہے؟

بخاری 3012: آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ مشرکین کے جس قبیلے پر شب خون مارا جائے گا کیا ان کی عورتوں اور بچوں کو بھی قتل کرنا درست ہو گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ بھی انہیں میں سے ہیں حالانکہ 3015 نبی کریم ﷺ نے عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرمایا۔ 2326: نبی کریم ﷺ نے بنی نضیر کے کھجوروں کے باغ جلا دیئے اور کاٹ دیئے اور ابو داود 2615: اللہ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی «ما قطعتم من لينة أو تركتموها» ”کھجور کے جو درخت تم نے کاٹ ڈالے، یا اپنی جڑوں پر انہیں قائم رہنے دیا، یہ سب اللہ کے حکم سے تھا“ (سورۃ الحشر: ۵)

اہلتشیع کا سوال ہے کہ صحیح بخاری میں کبھی کچھ لکھا ہے اور کبھی کچھ، اسلئے اس پر اعتبار نہیں حالانکہ اسی طرح قرآن میں کبھی قرآن شرا ب میں فائدے کی بات کرتا ہے ، کبھی نماز کے وقت میں صرف پینے سے منع فرماتا ہے اور پھر فرماتاہے کہ کیا تم خمر سے بچ سکتے ہو اور پھر احادیث سے حکم ہوا کہ یہ منع ہے۔ اسی طرح حضور کے فیصلے وقت کے ساتھ بدلتے رہے، اگر بچے اور عورت بھی حملہ کر دیں تو ان کو بھی ماریں۔ کبھی دشمن کو معاشی نقصان پہنچانے کے لئے زمین جلا دو تاکہ پیسے سے اسلحہ نہ خریدیں حالانکہ دیگر احادیث میں بچوں اور عورتوں کی ممانعت موجود ہے۔ اس پر بخاری کی 2782 احادیث سے لے کر3090 تک پڑھیں۔

صحیح بخاری 300: آپ ﷺ مجھے حکم فرماتے، پس میں ازار باندھ لیتی، پھر آپ ﷺ میرے ساتھ مباشرت کرتے، اس وقت میں حائضہ ہوتی۔
اہلتشیع اس حدیث سے شک پیدا کرتے ہیں کہ نعوذ باللہ حضور ﷺ حائضہ عورت سے صحبت کرتے حالانکہ مباشرت کا مطلب صحبت کرنا بھی ہے اور چھونا، قریب ہونا اور ساتھ لپٹانا بھی ہے۔ اسلئے قانون یہ بنا کہ حائضہ عورت سے صحبت حرام مگر اُس کو چھونا، چومنا اور ساتھ لپٹانا جائز ہے۔ کیا کبھی کسی اہلسنت عالم نے اس قانون کے خلاف احادیث کی شرح کی ہے۔

صحیح بخاری 1020: قریش کا ظلم بڑھتا گیا تو حضور ﷺ نے ان کے لئے بد دعا کی اور اس وقت سیدنا ابو سفیان کے کہنے پر دعا کی تو بارش ہوئی۔ 804 نبی کریم ﷺ نے ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ کے نام لے کر بددعا کی اور یہ دعا کی کہ تمام کمزور مسلمانوں کو (کفار سے) نجات دے۔ 2932: رسول اللہ ﷺ فجر کی نماز میں دعائے قنوت پڑھ کر کافروں پر بد دعا کی۔ 4069 نبی کریم ﷺ نے بد دعا کی کہ ”اے اللہ! فلاں، فلاں اور فلاں (صفوان بن امیہ، سہیل بن عمرو اور حارث بن ہشام) کو اپنی رحمت سے دور کر دے۔“
اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت «ليس لك من الأمر شىء‏» سے «فإنهم ظالمون‏» (آل عمران: 128) تک نازل کی تو رسول اللہ ﷺ نے بد دعا کرنا بند کر دی۔

اہلتشیع حضرات کا اعتراض ہے کہ صحیح بخاری 804، 1020، 2932 کے مطابق رحمت العالمین اپنے مخالفین کے لیے بددعائیں کرتے رہتے تھے۔ جواب یہ ہے کہ اللہ کریم خود رسول اللہ ﷺ کی تربیت فرماتا ہے، اسلئے جب سورہ آل عمران کی آیت 128 نازل ہوئی تو رسول اللہ نے بد دعا دینی بند کر دی۔ اب اہلتشیع حضرات بتا دیں کہ آیت 128 کا شان نزول کیا ہے مگر صحیح بخاری کی حدیث کے علاوہ نہیں بتا سکیں گے۔ اسلئے ہم کہتے ہیں کہ ان کے پاس رسول اللہ ﷺ نہیں ہیں کیونکہ یہ منکر رسول، منکر احادیث اور ختم نبوت کے منکر ہیں۔

اہلتشیع کا اعتراض ہے کہ صحیح بخاری کی حدیث 3022 اور 3016 اور 3032 اور 4037 میں رسول اللہ لوگوں کے قتل کا حکم ڈائریکٹ دے رہے ہیں حالانکہ جواب یہ ہے کہ یہ سب احادیث کعب بن اشرف یہودی کے متعلق ہے جس کو مارنے کا حُکم نبی کریم ﷺ نے دیا جو رسول اللہ ﷺ کے خلاف تھا، مشرکین مکہ کی مدد کرتا، رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کرتا۔ ان سب باتوں کو مد نظر رکھ کر آپ ﷺ نے اس کو مارنے کا حُکم دیا۔ البتہ اہلتشیع حضرات کا دین ابن سبا یہودی کا ہے اسلئے یہودی کو تکلیف تو ہو گی۔

صحیح بخاری 1501 :عرینہ کے کچھ لوگوں کو مدینہ کی آب و ہوا موافق نہیں آئی۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں اس کی اجازت دے دی کہ وہ زکوٰۃ کے اونٹوں میں جا کر ان کا دودھ اور پیشاب استعمال کریں (کیونکہ وہ ایسے مرض میں مبتلا تھے جس کی دوا یہی تھی) لیکن انہوں نے (ان اونٹوں کے) چرواہے کو مار ڈالا اور اونٹوں کو لے کر بھاگ نکلے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے پیچھے آدمی دوڑائے آخر وہ لوگ پکڑ لائے گئے۔ آپ ﷺ نے ان کے ہاتھ اور پاؤں کٹوا دئیے اور ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھروا دیں پھر انہیں دھوپ میں ڈلوا دیا (جس کی شدت کی وجہ سے) وہ پتھر چبانے لگے اور اسی حالت میں مر گئے۔

اہلتشیع کا اعتراض یہ ہے کہ اونٹ کا پیشاب نبی کریم ﷺ نے پلانے کا حُکم دیا، یہ ہو ہی نہیں سکتا ۔ اہلسنت علماء بھی کہتے ہیں کہ یہ حکم صرف ان کے لئے خاص تھا مگر اصل تکلیف اہلتشیع کو پیشاب سے نہیں کیونکہ وہ تو گھوڑے کا پیشاب بھی تبرک سمجھ کر پی لیتے ہیں۔ ان کو تکلیف یہ ہے کہ مرتد کی سزا اس حدیث میں بیان کی گئی ہے اور اگر دین اسلام نافذ ہوا تو ان کے ساتھ بھی یہی سلوک ہو گا کیونکہ اہلکتاب کی معافی ہے مگر مسلمان کے روپ میں منافق کی معافی نہیں ہے۔

صحیح بخاری 1694، 1706: مطابق حضور ﷺ نے حج کی قربانی کی نشانی یہ رکھی کہ جانور کے کان پر ہلکا سا نشان لگاتے جس سے خون کا دھبہ ظاہر ہو جاتا یا اس کے گلے میں چمڑے یا جوتوں کا ہار پہنا دیا جاتا۔ یہ علامت تھی ھدی کی جو حج پر قربانی کے لئے جانور لے جایا جاتا۔کے حساب سے رسول اللہ نے قربانی کے جانوروں کو اشعار بھی کیا اور 1706 کے حساب سے انہیں جوتوں کے ہار بھی پہنائے۔

اہلتشیع حضرات کا دین کیونکہ حضور ﷺ کی احادیث پر مبنی نہیں ہیں اسلئے وہ ان احادیث پر اعتراض کرتے ہیں تو آپ صرف اہلتشیع سے ایک سوال کریں کہ تمہارے پاس حضور ﷺ، مولا علی، سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن و حسین جن پنجتن کا نام کا تم پنجہ لگاتے ہو اس میں سے کسی کی احادیث نماز، روزے یا حج کی ہیں تو آپ حیران ہوں گے کہ ان کے پاس پنجتن کا صرف پنجہ ہے مگر کوئی تعلیم نہیں ہے۔

صحیح بخاری 2230، 2141 سے اس وقت کے مسلمانوں کو رسول اللہ ﷺ کیسے اور کسطرح غلام بیچتے تھے اُس کا طریقہ ملتا ہے اور حدیث 2592 میں ایک غلام کس کو دینے کا زیادہ ثواب ہے یہ بتایا گیا۔

اہلتشیع کے نزدیک رسول اللہ ﷺ غلام نہیں بیچ سکتے یا معلوم نہیں کیوں اعتراض ہے حالانکہ قرآن میں واضح طور پر غلام اور لونڈی کے مسائل موجود ہیں، اُس کی تفسیر کسطرح اور کس احادیث سے کریں گے، معلوم نہیں اسلئے کہہ رہے ہیں کہ ان کا امام ان کے نزدیک رسول اللہ ﷺ سے بڑھکر ہے اور اُس امام کو کونسی رسول اللہ ﷺ کی احادیث سے ثابت کریں گے یہ معلوم نہیں ہے اور قرآن سے ثابت کریں گے تو وہ مولا علی کی نسل سے ہو یہ کہاں لکھا ہے۔ غدیر خم کی احادیث بھی اہلسنت کی ہیں، اہلتیشع کے پاس تو وہ بھی نہیں ہے جس کو بنیاد بنا کر امامت علی کا قصہ چھیڑتے ہیں۔ (جاری ہے)

اہم بات: دیوبندی اور بریلوی کی تعلیم ایک ہے اور اسلئے اب سعودی عرب کے وہابی علماء نے دیوبندی پر بدعتی و مشرک ہونے کا الزام لگا کر پابندی لگائی ہے۔ اب دیوبندی جو اپنے مفاد کے لئے ان کے ساتھ تھے، اہلسنت میں آتے ہیں تو ثابت کریں کہ وہابی المہند کتاب کے مطابق خارجی ہیں یا نہیں؟ دیوبندی علماء کی چار عبارتوں پر کفر کا فتوی لگا یا نہیں۔ اب وہابیت کا دفاع کرنا ہے یا اپنے اکابر کے عقائد اہلسنت کا؟

سوال: اہلحدیث پرسعودیہ اسلئے پابندی نہیں لگاتا کہ یہ وہابی ہیں مگر رافضیوں کی طرح تقیہ بازی ہے کہ پاکستان میں یہ غیر مقلد ہیں اور سعودی عرب میں مقلد حنبلی کے روپ میں حالانکہ وہابی غیر مقلد ہی ہیں اور تھے۔ سعودی اور اہلحدیث کبھی ثابت نہیں کر سکتے کہ بدعت و شرک کسی عالم نے سکھایا ہو۔ اپنا فارمولہ بتائیں کہ تقلید کو بدعت و شرک کس مجتہد نے کہا، کس نے کہا کہ اب صحیح احادیث کے مطابق میری تقلید کر کے اتباع رسول کرو۔

اتحاد امت: مسلمان بریلوی و دیوبندی کی اہلسنت تعلیم پر اکٹھا ہو سکتے ہیں، اُس میں ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ پیری مریدی، دم درود، تعویذ دھاگے، اذان سے پہلے درود، نماز کے بعد کلمہ، جمعہ کے بعد سلام، قل و چہلم، تیجہ، دسواں، ذکر ولادت، میلاد، عرس ، یا رسول اللہ مدد کے نعرے کچھ بھی نہ کریں تو کوئی گناہ نہیں سوائے اس کے کہ جن احادیث کی بنیاد پر یہ سب کچھ جائز قرار دیا ہے۔ اُس کا انکار نہ کریں اور اپنا اصول بتائیں۔

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general