خیال اور حقیقت
صحیح مسلم 2814 : کوئی بھی ایسا انسان نہیں ہے جس کے ساتھ (اچھا یا بُرا خیال پیدا کرنے کے لئے ایک جن (شیطان، ہمزاد، موکل)اور ایک فرشتہ مقرر نہ ہو۔ لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ، کیا آپ کے ساتھ بھی یہی معا ملہ ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں، میرے ساتھ بھی، لیکن اللہ نے میری مدد کی، چنانچہ وہ مسلمان ہو گیا۔ لہٰذا وہ مجھے خیر ہی کی باتیں کہتا ہے۔
خیال اور اللہ کریم
1۔ اس حدیث کے مطابق ہرانسان کو24گھنٹے اچھا یا بُرا خیال آتا ہے۔ اچھا خیال فرشتہ پیدا کرتا ہے اور بُرا خیال جن شیطان پیدا کرتا ہے۔ لیکن سمجھنا یہ ہے کہ ان دونوں کو خیال پیدا کرنے کی قوت کون دیتا ہے؟
2۔ اگر اللہ کریم ہی اچھا اور بُرا خیال ان دونوں (فرشتہ اور جن شیطان) کے ذریعے دیتا ہے تو پھر اچھا خیال آنے پر شُکر کرنا چاہئے اور بُرا خیال آنے پر صبر کرنا چاہئے۔
3۔ اچھے خیال اگر نیک صحبت میں پیدا ہوتے ہیں تو نیک صحبت اختیار کرنی چاہئے اور بُرے خیال بُری صحبت کے ذریعے پیدا ہوتے ہیں تو بُری صحبت اور دوستوں سے کنارہ کشی کرنی چاہئے۔
4۔ خیال کو وہم، شک، وسوسہ، غلط فہمی اورخوش فہمی کی بیماریاں بھی لگ جاتی ہیں، البتہ ترمذی 3127:’’ مومن کی فراست سے ڈرو وہ اللہ کریم کے نور سے دیکھتا ہے‘‘ اور صحیح مسلم 7498 ’’ مومن ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاتا‘‘، اسلئے مومن کو یہ بیماریاں نہیں لگتیں اور نہ ہی وہ بار بار دھوکہ کھاتا ہے بلکہ اپنی ذات کے اندر کے شیطان کو بھی دھوکہ دینے نہیں دیتا۔
5۔ ہر تجربہ کار انسان کو چاہئے کہ دوسروں کو اچھے خیال دے کر اُن کی دماغی صلاحیت بڑھائے ، اس کا اتنا ثواب ہے جیسے کسی بھوکے کو روٹی کھلانا یا کسی کی پیسوں سے مدد کرنا۔
خواب اور اللہ کریم
6۔ خیال کی ایک قسم خواب بھی ہے لیکن خیال خواب سے بڑی طاقت ہے۔اگرنہیں تو سوال یہ ہے کہ جو خیال مجھے روزانہ نبی کریم ﷺ کی یاد دلاتا ہے، کیا اس خواب سے بہتر نہیں ہے جو زندگی میں کبھی کبھارنبی کریم ﷺ کا دیدار کرا دے اور کیا وہ خواب بھی میرے اچھے خیالات کا نتیجہ نہیں ہے؟
7۔ خیال بھی ایک اشارہ ہے اور خواب بھی ایک اشارہ ہوتا ہے لیکن دونوں اشارے سمجھنے کے لئے مکمل طور پر ہر پہلو سے دین کو سمجھنا لازمی ہے۔ اسلئے جو مسلمان 24 گھنٹے الہامی خیال اور شیطانی خیال میں فرق نہیں کر سکتا، وہ مسلمان اچھے اور بُرے خواب میں بھی فرق نہیں کر سکتا۔
8۔ حضورﷺ کا ہر خواب سچا مگرسورہ فتح آیت 29 حضورﷺ کو عُمرہ کرنے کا خواب آیا، بہت سے صحابہ کرام کے ساتھ عُمرے کے لئے تشریف لے گئے مگرخواب ایک "امتحان” بن گیا، حُدیبیہ کے مقام پر ’’صُلح نامہ‘‘ لکھا گیا اور آپﷺ کو بغیر عُمرہ کئے واپس آنا پڑا اور اگلے سال اُس عُمرے کی قضا کی گئی۔ اسلئے خواب میں نبی کریمﷺ کا دیدار ہو اور کوئی بات کریں تو اُس بات کو بھی شریعت پر تولنا پڑتا ہے کیونکہ خواب امتحان ہے۔
9۔ خواب میں اگر کوئی پریشانی نظر آئے تو بندہ پریشان ہو جاتا ہے تو کیا پریشانی خواب دیکھے بغیر نہیں آ سکتی؟
استخارہ اور اللہ کریم
10۔ صحیح بخاری 6382: نبی کریم ﷺ ہمیں استخارہ کی تعلیم ایسے دیتے جیسے قرآن مجید کی سورت مبارکہ سکھلایا کرتے تھے۔” البتہ استخارہ کرنا ایک مستحب عمل ہے، اگر کوئی استخارہ کرنے کی احادیث پر ایمان لاتا ہے مگر ساری زندگی استخارہ نہیں کرتا تو کوئی گناہ نہیں ہے۔ استخارے کا عام مطلب یہ ہے کہ کسی بھی مسئلے میں حضورﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق دو نفل پڑھ کراللہ کریم سے غیبی اشارہ (خیال) مانگنا۔
11۔ استخارہ کرنے کی کوئی مدت نہیں ہے بلکہ جب تک کسی مسلمان کے دل کو اطمینان نہیں آ جاتا یا مسئلے کا حل اُس کے خلاف یا موافق نہیں نکلتا تب تک استخارہ کر سکتا ہے۔ استخارہ بھی ایک دُعا کی طرح ہے اللہ کریم کی مرضی ہے قبول کرے یا نہ کرے۔
12۔ یہ بات غلط ہے کہ استخارہ رات کو سونے سے پہلے کیا جاتا ہے، اسلئے نفل پڑھ کر باوضو قبلہ رُو ہو کر سونا لازمی ہے، کوئی نہ کوئی بزرگ آ کر تیرے مسئلے کا حل بتائیں گے یا فلاں رنگ کا نور نظر آئے گا۔
13۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ ایک بندہ خود نفل پڑھ کر اللہ کریم سے دُعا کر سکتا ہے چاہے گناہ گار ہی کیوں نہ ہو لیکن کوئی دوسرا نیک آدمی اُسے مشورہ تو دے سکتا ہے مگر اُس کے لئے استخارہ کیسے کرے گا کیونکہ فال نکلوانا جائز نہیں اور استخارہ کوئی فال نہیں۔
14۔ استخارہ سکھانے والے خود رسول اللہ ﷺ اور سیکھنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہیں، ساری زندگی مسائل، مصیبتیں، پریشانیاں آتی رہتی ہیں، اسلئے استخارہ کرنے کے باوجود ایمان کا امتحان دینا ہی پڑے گا۔
15۔ گناہ کے کام چھوڑنے میں استخارہ نہیں بلکہ توبہ کی جاتی ہے۔ رشتہ کرنے سے پہلے استخارہ نہیں بلکہ لڑکا لڑکی کا رہن سہن، کردار، خاندان، کمائی، اخلاق وغیرہ کی تحقیق کرنا لازمی ہے۔
تقدیر اور اللہ کریم
16۔ تقدیر دو باتوں سے سمجھ میں آ جائے گی کہ ایک ہے ’’علم الہی‘‘ یعنی عالم ارواح، عالم دُنیا، عالم برزخ، عالم حشر اور عالم جنت میں جو کچھ ہونا تھا اور جو کچھ ہو گا وہ اللہ کریم کے علم میں ہے اسے علم الہی کہتے ہیں۔ دوسرا ہے ’’حُکم الہی‘‘ یعنی اللہ کریم نے فرائض (نماز، روزہ، زکوۃ، حج) ادا کرنے کا حُکم دیااور اپنے دوستوں ، رشتے داروں، جاننے والوں اور نہ جاننے والوں سے ’’حُسن سلوک‘‘ کرنے کا حُکم دیا۔
17۔ تمام دوست فیصلہ کرلیں کہ آپ علم الہی میں جو کچھ ہے وہ جاننے کی کوشش کریں گے یا آپ حُکم الہی پر زور لگائیں گے ؟ اگر علم الہی، تقدیر، لوحِ محفوظ وغیرہ پر ایمان لانے کے بعد بھول جائیں، صرف اور صرف حُکم الہی پر اپنی بساط کے مطابق کوشش کرتے رہیں اور نتیجہ آپ کے حق میں نکلے یا نہ نکلے تو کیسا محسوس کریں گے؟
دُعا اور اللہ کریم
18۔ ترمذی 3381: اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی چیز دُعا سے بزرگ تَر نہیں۔ مستدرک 1856، 1855، 3121: دُعا مصیبت و بلا کو اُترنے نہیں دیتی۔ دُعا مسلمانوں کا ہتھیار، دین کا ستون اور آسمان و زمین کا نور ہے۔ دعا قضا کو ٹال دیتی ہے۔ ترمذی 3551، 3382 دعا کرنے سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ دعا عبادت کا مغز ہے۔ صحیح مسلم 2675 اللہ تعالیٰ دعا کرنے والے کے ساتھ ہوتا ہے۔ ترمذی 3559، 3471: جو بلا اتر چکی اور جو نہیں اتری، دعا ان سے نفع دیتی ہے۔ جسے دعا کرنے کی توفیق دی گئی اس کےلئے رحمت کے دروزے کھول دئیے گئے۔
19۔ ہر مسلمان کی ہر دُعا قبول ہے، البتہ اللہ کریم اُسی وقت عطا فرما دے، بعد میں عطا فرما دے، اُس کی جگہ کچھ اور عطا فرما دے یا جنت میں دُعا نہ قبول کرنے پر درجہ عطا فرما دے۔ یہ سب اللہ کریم کے اختیار میں ہے۔
20۔ ہر مسلمان دُنیا میں ولی اللہ بننے کے لئے آیا ہے اسلئے ہر بات پر خوب غوروفکر کرے تاکہ خیال، خواب، استخارہ، دُعا اور تقدیر کو اللہ کریم کی طرف سے امتحان سمجھے لیکن کبھی بھی مایوس ہو کر بندگی کا سفر کرنا تَرک نہ کرے۔
ہماری دُعا: ہر دیکھنے والا، سُننے والا، چاہنے وال جنت میں جائے اور اللہ کریم مسلمانوں کو قرآن و سنت پر ایک کرے کیونکہ ہم دیوبندی، وہابی، اہلتشیع، اہلحدیث بننے نہیں آئے بلکہ مسلمان بننے آئے ہیں:
اہلسنت : دیوبندی اور بریلوی ایک مکتبہ فکر کے ہیں کیونکہ دیوبندی و بریلوی دونوں خلافت عثمانیہ والے اہلسنت ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مُشرک کہا، البتہ دیوبندی اور بریلوی کا اصولی اختلاف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کا ہے۔
البتہ سعودیہ کے وہابی علماء کے ساتھ دیوبندی علماء اور اہلحدیث علماء اس وقت تقیہ بازی کر رہے ہیں حالانکہ اگر دونوں جماعتیں وہابی علماء کے ساتھ متفق ہیں تو پاکستان میں ان کے عقائد و اعمال پر ایک ہو جائیں مگر ایک سوال کا جواب دے دیں کہ بدعت و شرک کس کتاب میں کس اہلسنت عالم نے سکھایا؟
تحقیق: ہم خلافت عثمانیہ والے عقائد پر ہیں جن کو وہابی علماء نے بدعتی و مُشرک بغیر ریفرنس کے کہا، اسلئے ہم نے دیوبندی، بریلوی، وہابی یا اہلتشیع نہیں بلکہ قرآن و سنت پر چلنے والا مسلمان بننا ہے۔ چار مصلے اجماع امت اہلسنت اہلسنت
مکار: اہلتشیع حضرات کے پاس پنجتن (حضور، مولا علی، سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن و حسین) کی احادیث کی کوئی کتاب نہیں ہے۔ امام جعفر کا قول ان کے لئے حدیث ہے البتہ وہ بھی اہلسنت کی کتابوں کا چربہ ہے یعنی چوری کیا ہے۔
موازنہ: اہلسنت کی صحاح ستہ سے پہلے 81 چھوٹی بڑی احادیث کی کتابیں ملتی ہیں اور صحاح ستہ کے محدثین نے تبع تابعین علماء سے روایات لیں جنہوں نے تابعین علماء سے سُنا تھا اور تابعین نے صحابہ کرام سے سُنا تھا اور صحابہ کرام نے حضور ﷺ سے سُنا تھا : امام محمد بن اسماعیل (194 ۔ 256 بخاری)، امام مسلم بن حجاج (204 ۔ 261)، امام ابو داؤد (202 ۔ 275)، امام محمد بن عیسی (229 ۔ 279 ترمذی)، امام محمد بن یزید (209 ۔ 273 ابن ماجہ)، امام احمد بن شعیب (215 ۔ 303 نسائی)
اہلتشیع کے پاس بارہ امام کی زندگی تک کوئی ریکارڈ نہیں ہے بلکہ امام جعفر صادق کی ”احادیث“ کی کتابیں (1) الکافی ابو جعفر کلینی 330ھ نے یعنی امام جعفر صادق سے 180 برس بعد (2) من لا یحضرہ الفقیہ جو محمد بن علی ابن یایویہ قمی 380ھ تقریباً 230سال بعد (3) تہذیب الاحکام اور (4) استبصار جو محمد بن طوسی 460ھ تقریباً 310 برس بعد لکھی گئی ہیں۔
بے بنیاد: صحابہ کرام، اہلبیت، بارہ امام سب کا دین ایک ہے مگر اہلتشیع کی بنیاد پنجتن نہیں ہیں، بارہ امام نہیں ہیں، صحابہ کرام نہیں ہیں۔ کون ہیں یہ اہلتشیع؟؟ اہلتشیع بے بنیاد دین ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔