قرآن و سنت (احادیث)
ہر مسلمان حضورﷺ کے مقابلے میں کسی صحابی، اہلبیت یا ولی کو نبی نہیں مانتا،اہلسنت کے نزدیک چاروں خلفاء کرام کا دور قرآن و سنت کے مطابق تھا، اگر قرآن و سنت کے مطابق نہ ہوتا تو سارے صحابہ کرام اور اہلبیت مُجرم ثابت ہوتے ہیں۔ اسلئے ان سوال کے جواب پر غور کریں:
سوال: اہلتشیع کے مطابق حجتہ الوداع کے وقت دین مکمل ہو گیا اور ہزاروں صحابہ کی موجودگی میں حضورﷺ نے غدیر خُم میں خلافت بلا فصل کا اعلان حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں کر دیا۔
جواب: حضورﷺ نے ایسا کوئی اعلان کیا ہی نہیں، اگر کیا ہوتا تو صحابہ کرام نہ مانیں تو وہ کافر اور اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضورﷺ کے فرمان کا اعلان نہیں کیا تو وہ بھی کافر۔اسلئے اجماع صحابہ کے مطابق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت چند ایک کو چھوڑ کر سب صحابہ کرام نے کر لی۔
سوال: اہلتشیع کا کہنا ہے کہ کتابوں میں کہیں نہیں آتا کہ حضرت ابوبکر، عمر، عثمان رضی اللہ عنھم حضورﷺ کے جنازے میں شریک نہیں تھے بلکہ بنو ثقیفہ میں خلافت کے لئے لڑ رہے تھے؟
جواب: حضورﷺ کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے منہ چوما، سب کو تسلی کا خطبہ دیا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے حجرے میں قبر کی حدیث حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بیان فرمائی، حضورﷺ کا جنازہ ہی نہیں ہوا بلکہ سب صحابہ کرام نے ٹولیوں کی صورت میں حُجرہ میں جا کر درود پاک پڑھا۔ آخری بات اہلتشیع سے پوچھیں کہ کسی کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ کسی ایک صحابی نے یہ شکوہ کیا ہو کہ یہ تینوں خلفاء کرام نے جنازہ نہیں پڑھا۔
سوال: اہلتشیع کے مطابق حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھاکا حق باغ فدک نہیں دیا گیا۔
جواب: حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے باغ فدک کا فیصلہ قرآن و سنت کے مطابق کر دیا جس کو سب صحابہ کرام نے مان لیا۔ اگرفیصلہ قرآن وسنت کے خلاف ہوتا توکیاحضرت فاطمہ اور علی رضی اللہ عنھما نے ماننا تھا؟ اگر قرآن و سنت کے خلاف فیصلہ مان جاتے تو پھر مسلمان کیسے؟
سوال: اہلتشیع کے نزدیک حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کا گھر حضرت عمر فاروق نے جلایا۔
جواب: کتابوں میں بہت کچھ لکھا ہو گا صرف ایک سوال کا جواب درکار ہے کہ اُس وقت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کا گھر کس جگہ پر تھا اور جلانے کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کس گھر میں منتقل ہوئیں۔ صحابہ کرام اور اہلبیت میں سے کس کس نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنھا سے گھر جلانے کا پوچھا۔سچ تو یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا گھر جلایا ہی نہیں گیا ورنہ کیا وہ بدلہ نہیں لے سکتے تھے؟
سوال: اہلتشیع حضرات کہتے ہیں کہ مولا علی کے مقابلے میں جو آیا لیکن آگے کیا ہے وہ بتا دیں۔
جواب: حضرت علی رضی اللہ عنہ حضورﷺ کے مقابلے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے امام ہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حضرت علی و فاطمہ رضی اللہ عنھما کی بیٹی ام کلثوم کے داماد ہیں۔ جنگ جمل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں عشرہ مبشرہ میں سے صحابی رسول اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا والدہ ہیں۔ جنگ صفین میں صحابی رسول حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ہیں۔اسلئے قاتل و مقتول جنگ جمل و جنگ صفین کے دونوں جنتی ہوئے۔البتہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں جنگ نہروان کے جو خارجی پیدا ہوئے، ان کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے زندہ جلا دیا۔
نتیجہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ حضورﷺکے مقابلے میں کچھ نہ تھے، اسلئے چاروں خلفاء کرام کے فیصلے قرآن و احادیث کے مطابق تھے۔ اہلتشیع حضرات کا ڈپلیکیٹ علی اور ڈپلیکیٹ اسلام ہے جسطرح ہم نے اس پیج کی دو پوسٹوں (ایرانی ایک کہانی اور شیعہ شیعہ کون شیعہ) میں ثابت کیا ہے جس کا لنک مانگ سکتے ہیں۔ یہ ایرانی تھنک ٹینک نے ہی حضرت عمر فاروق، عثمان، عمار ابن یاسر، علی، حسن و حسین رضی اللہ عنھم کو شہید کروایا ورنہ صحابہ کرام کے درمیان ایک دوسرے کے مارنے کا نہیں بلکہ سینے سے لگانے کا جذبہ تھا۔