اولادِ حسن رضی اللہ عنہ
1۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ، حضورﷺ کے نواسے، حضرت فاطمہ اور حضرت علی رضی اللہ عنھما کے بڑے بیٹے، حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بھائی ہیں۔ حدیث کساء میں، آیت تطہیر میں، اور مباہلے میں شامل ہیں۔ اہلسنت صرف حضورﷺ کومعصوم مانتے ہیں لیکن اہلتشیع بے بنیاد مذہب بارہ امام کو معصوم مانتے ہیں مگر فلاسفی یہ نہیں سمجھ آتی کہ حضور ﷺ کی ازواج معصوم نہیں تو پنجتن کو کیوں معصوم مانا اور اگر پنجتن کو معصوم مانا تو پھر حضرت فاطمہ،علی، حسن و حسین رضی اللہ عنھم کی ساری آل معصوم کیوں نہیں؟
2۔ تاریخ میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ پرجھوٹا الزام ہے کہ آپ نے 99 یا 150یا 300 کے قریب عورتوں سے نکاح کئے۔ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی زوجہ اور اولاد کے نام یہ ملتے ہیں:
۱۔ حضورﷺ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت فضل رضی اللہ عنہ جو حضورﷺ کے بعد از وصال غسل دینے والوں میں شامل تھے، اُن کی بیٹی ”ام کلثوم“رضی اللہ عنھا سے نکاح ہوا۔
۲۔ خولہ بنت منظور سے نکاح ہوا جس سے حسن مثنی پیدا ہوئے۔خولہ پہلے حضرت طلحہ کے بیٹے محمد کے نکاح میں تھیں جو جنگ جمل میں شہید ہو گئے اس کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے نکاح ہوا۔
۳۔ ام بشیر بنت ابی مسعود انصاری سے نکاح ہوا جس سے زید، ام الحسن و ام الحسین پیدا ہوئے۔
۴۔ ام اسحاق بیٹی طلحہ بن عبید اللہ(عشرہ مبشرہ) سے طلحہ، حسین(لقب اَثرَم) و فاطمہ پیدا ہوئے۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے نکاح ہوا۔
۵۔ ام ولد یا رملہ جن سے حضرت ابوبکر بن حسن پیدا ہوئے اور کربلہ میں شہید ہوئے۔
۶۔ ام فروہ سے قاسم پیدا ہوئے یہ بھی کربلہ میں شہید ہو گئے۔
۷۔ عائشہ بنت خلیفہ خثعمیہ، جعدہ بنت اشعث، ہند بنت سہیل بن عمرو، ام عبداللہ بنت سلیل بن عبداللہ سے نکاح ہوا۔ بعض دیگر ازواج سے عبداللہ، عبدالرحمن، ام عبداللہ، ام سلمہ و رقیہ پیدا ہوئے۔
ٹوٹل: ابن جوزی، ابن ہشام اور واقدی کے نزدیک حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی تعداد میں 15 بیٹے اور 8بیٹیاں ہیں۔ البتہ حضرت امام حسن مجتبی رضی اللہ عنہ کے چار بیٹے حضرت حسن مثنی، زید، عمر اور حسین اثرم صاحب اولاد ہوئے مگر نسل صرف حسن مثنی اور زید بن حسن کی باقی رہی۔کربلہ میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے تین بیٹے حضرت قاسم، ابوبکر اور عبداللہ شہید ہوئے۔
وفات: حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو زہر دیا گیا، کس نے دیا، کس کے کہنے پر دیا اس کا علم کسی کو نہیں جیسے اس پیج کی پوسٹ”شہادت حسن رضی اللہ عنہ اور زہر“ کا لنک مانگ سکتے ہیں۔تاریخ پیدائش اور وفات میں اختلاف ہے مگر اہلتشیع حضرات کے نزدیک پیدائش 15رمضان المبارک اوروفات 28صفرالمظفرکو ہوئی۔اسلئے ہر سال حضرت حُسین رضی اللہ عنہ کی شہادت منا کر چالیسویں پر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا غم(رولا) منا کر اہلتشیع کا دین ختم ہو جاتا ہے۔ صفر کے مہینے میں کوئی الائیں بلائیں نہیں ہوتیں بلکہ اہلتشیع ہی اسلام کے لئے الا بلا ہے جو صرف عوام کو صفر میں ڈراتی ہے۔
تاریخ بمقابلہ قرآن و سنت: تاریخ مستند نہیں ہوتی، اسلئے کوئی بھی دوست اصلاح کر سکتا ہے کیونکہ ہم سب سیکھنے اور سکھانے کے لئے پیدا ہوئے ہیں۔ ہر مسلمان کی بنیاد قرآن و سنت ہے، البتہ اہلتشیع جماعت تاریخ کی بات کر کے ٹیکنیکل طور پر اہلسنت کو قرآن و سنت کی طرف آنے نہیں دیتے بلکہ گمراہ کرتے ہیں۔اہلتشیع قرآن کو مان بھی لیں تو فرمان رسولﷺ یعنی احادیث کی کتابوں کے منکر ہیں کیونکہ ان کی احادیث کی کتابیں، فقہ جعفر اور علماء جھوٹے ہیں۔
دوڑ: اس وقت دو ممالک (سعودی عرب اور ایران) کی آپس میں دوڑ ہے۔ قرآن و سنت پر اگر دیکھیں گے تو صرف اور صرف چار مصلے والوں کا دور آتا ہے جس نے تین براعظم کے مسلمانوں کو اکٹھا کیا ہوا تھا۔ خلافت کے احتتام پر مسلمان یتیم ہو گئے۔ کبھی دیکھا ہے کہ ایک سو سالوں میں کبھی سعودی عرب نے علمی مذاکرات کئے ہوں، البتہ اہلسنت کو بدعتی و مشرک کہتے رہتے ہیں۔