1۔ حضرت سعد بن عبادہ، قبیلہ خزرج کے سردار، انصار اور ابتدائی صحابہ میں سے تھے۔ حضورﷺ کا فرمان: انصار کے ہر گھرانے میں خیر ہے، اسلئے حضرت سعد بن عبادہ کا گھرانہ بھی خیرہی خیر ہے (بخاری 6053، 5300،3791، 3790، 3789 ،3807)۔ غزوہ بدر میں بیماری کی وجہ سے شامل نہیں ہوئے البتہ حضورﷺ نے ان کو بدرکے مال غنیمت میں حصہ دیا، غزوہ احد، خندق، بیعت رضوان، غزوہ خیبر،فتح مکہ، غزوہ حنین وغیرہ میں شرکت کی۔
حضور ﷺ کے وصال کے بعد بنو ثیقفہ میں سیدنا سعد بن عبادہ نے انصاریوں سے خلیفہ بننے کے لئے بیعت لینے کا ارادہ کیا جب کہ حضور ﷺ کی قبر انور بن رہی تھی، آپ کو غسل دینے کی تیاری تھی، سیدنا علی اسی کام میں لگے ہوئے تھے اور سیدنا ابوبکر و عمر غمگین بیٹھے ہوئے تھے۔
سوال: اہلتشیع حضرات کہتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر و عمر جنازہ چھوڑ کر، بنو ثقیفہ خلافت کے لئے پہنچے، ان کو جلدی تھی لیکن یہ کیوں نہیں بتاتے کہ کتنے صحابہ نبی اکرم کا جنازہ چھوڑ کر بنو ثقیفہ میں سیدنا سعد بن عبادہ کے ساتھ کیا کر رہے تھے۔ اکابر صحابہ پر کیوں الزام لگاتے ہیں؟
دوسرا اہم سوال کیا سیدنا علی کی "امامت” قرآن و سنت، غدیر خم کے خطبے سے واضح تھی تو سیدنا سعد بن عبادہ اور دیگر بنو ثقیفہ کے صحابہ کو علم نہیں تھا؟
امامت: اہلتشیع قرآن و سنت سے ثابت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ کے وصال کے بعد امامت کا اعلان سیدنا علی کے لئے تھا، اگر قرآن و احادیث میں سیدنا علی کی امامت کا اعلان تھا تو سیدنا علی نے اپنی امامت کی بیعت کیوں نہیں لی؟ کیا قرآن و سنت کے خلاف جلد یا بدیر سیدنا ابوبکر کو خلیفہ مان لیا یا نہیں؟
مشاجرات صحابہ: حضور ﷺ کے وصال کے بعد صحابہ کرام اور اہلبیت کے مسائل میں قانون بن چکا ہے کہ اہلبیت اور صحابہ کرام کی توہین حرام، چاروں خلفاء اور عشرہ مبشرہ کی توہین نہیں کرنی، امامت ابوبکر پہلے نمبر پر ہے اور مشاجرات صحابہ پر خاموشی اختیار کرنی ہے۔
اہلتشیع: اہلتشیع اگرحق پر اپنے آپ کو سمجھتے ہیں اور سیدنا علی کو اپنا پہلا امام مانتے ہیں تو بتا دیں کہ سیدنا علی نے قرآن و سنت کے مطابق اپنی امامت کی بیعت صحابہ کرام سے لی، اگر نہیں لی تو کیا قرآن و سنت کے خلاف کیا؟
سیدنا سعد: قبیلہ خزرج کے سردار، انصاری، ابتدائی ایمان لانے والوں میں سے ایک، جس کے متعلق حضور ﷺ نے فرمایا: انصار کے ہر گھرانے میں خیر ہے، اسلئے حضرت سعد بن عبادہ کا گھرانہ بھی خیرہی خیر ہے (بخاری 6053، 5300 ،3791، 3790، 3789 ،3807)۔
2۔ غزوہ بدر میں بیماری کی وجہ سے شامل نہیں ہوئے البتہ حضورﷺ نے ان کو بدرکے مال غنیمت میں حصہ دیا، غزوہ احد، خندق، بیعت رضوان، غزوہ خیبر،فتح مکہ، غزوہ حنین وغیرہ میں شرکت کی۔
3۔ حضورﷺ کی وفات کے بعدحضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی ملکیت میں سقیفہ بنی ساعدہ (ثقیفہ یعنی سایہ دار جگہ، سائبان اور یہاں حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کا گھر) تھا جس میں انصاریوں کی طرف سے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کا مسئلہ پیداہوا۔ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنھما نے وہاں پہنچ کردلائل سے قائل کر کے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت پر سب کو رضا مند کیا، اسلئے تمام انصاری صحابہ نے بیعت کر لی۔
4۔ البتہ اختلاف یہ ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت کی یا نہیں؟ بخاری حدیث 6830 میں بنو ثقیفہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کا واقعہ لکھا ہوا ہے۔اہلسنت کے نزدیک آپ نے بیعت کر لی تھی لیکن اہلتشیع کے نزدیک نہیں کی۔
5۔ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ شام کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں 15ھ کو ان کی وفات ہو گئی۔ روایت کے مطابق آپ نے ایک سوراخ میں پیشاب کیا، جو جنوں کے رہنے کی جگہ تھی اُس وجہ سے جنوں نے ان کو مار دیا، حضورﷺ نے بھی سوراخ میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (ابن سعد، طبقات الکبری، سعد بن عبادہ، صحابی نمبر 3/570- 353قاہرہ مکتبہ خانجی)
6۔ بلاذری نے انساب الاشراف میں تین روایتیں پیش کی ہیں جن میں سے ایک نامور جھوٹے، رنگ باز، صحابہ کرام کا دشمن ابو مخنف کی روایت ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ شام کی طرف چلے گئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو بھیجا کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ حکومت کی راہ میں رکاوٹ ہیں، اسلئے ان کو کہنا کہ حضرت عمر کی بیعت کر لے اور اگر نہ مانیں توکام تمام کر دینا۔
7۔ تاریخ کے تین بڑے جھوٹے (1) ابو مخنف بن لوط یحیی،(وفات 157ھ) (2) ہشام کلبی (وفات 207ھ) (3) محمد بن عمر الواقدی (وفات 207ھ) ہیں۔ ابو مخنف کٹر متعصب کوفی شیعہ، ، اس نے مقت ل حُس ین“ جھوٹی کتاب شہادت حُسین کے بعد کب لکھی اس کا علم نہیں لیکن محرم کی شہادت کے واقعہ کو فلمی ظالمانہ جھوٹا سین بنا کر پیش کیا کہ آج تک سب رو رہے ہیں۔
طبری: امام طبری (وفات 310ھ) نے تاریخ طبری کے مقدمے میں لکھا کہ یہ سب جھوٹ ہے لیکن ہمارے پاس ابو مخنف کی روایات کےعلاوہ کوئی مواد نہیں۔”میں نے اس کتاب میں جو کچھ ذکر کیا ہے ا س میں میرا اعتماد اپنی اطلاعات اور راویوں کے بیان پر رہا ہے نہ کہ عقل و فکر کے نتائج پر ، کسی پڑھنے والے کو اگر میری جمع کردوں خبروں اور روایتوں میں کوئی چیز اس وجہ سے ناقابل فہم اور ناقابل قبول نظر آئے کہ نہ کوئی اسکی تک بیٹھتی ہے اور نہ کوئی معنی بنتے ہیں تو اسے جاننا چاہیے کہ ہم نے یہ سب اپنی طرف سے نہیں لکھا ہے بلکہ اگلوں سے جو بات ہمیں جس طرح پہنچی ہے ہم اسی طرح آگے نقل کردی ہے”۔ (مقدمہ تاریخ طبری)
ابن کثیر: تاریخ ابن کثیر (وفات 774ھ) نے لکھا کہ ابو مخنف کے واقعات اس لئے لے رہا ہوں کہ امام طبری نے لئے ہیں ورنہ یہ جھوٹے ہیں۔ "ہم نے جو کچھ بیان کیا ہے اس میں بعض باتیں محل نظر ہیں اور اگر ابن جریر طبری وغیرہ حفاظ و ائمہ نے ان کا ذکر نہ کیا ہوتا تو میں بھی وہ روایتیں نہ لیتا کیونکہ ان میں اکثر روایتیں ابو مخنف لوط بن یحیی کی بیان کردہ ہیں جو شیعی ہے اور ائمہ کے نزدیک ضعیف الحدیث ہے۔ لیکن چونکہ وہ اخباری ہے اور حافظ اس کے پاس ایسی روایتیں ہیں جو دوسروں کے پاس نہیں اس لئے اکثر مصنفین اسی کی طرف لپکتے ہیں۔ (البدائیہ و النھائیہ جلد 8 صفحہ 202) اسلئے اہلسنت کے تاریخی مورخین مکھی پر مکھی مارتے گئے اور سب سے زیادہ ظُلم نام نہاد اہلسنت مودودی نے خلافت و ملوکیت میں صحابہ کرام کو بدنام کر کے کیا۔
7۔ البتہ کسی تاریخی روایت میں یہ بات موجود نہیں ہے کہ حضرت ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنھما کے دور حکومت میں آپ نے کوئی رکاوٹ، شور شرابہ، لڑائی وغیرہ سے حکومت کے کام میں رکاوٹ پیدا کی ہو۔ آپ کے وصال کے بعد بھی آپ کے قبیلے یا اولاد نے کوئی مطالبہ اور نہ کوئی کمپلینٹ درج کروائی۔
نتیجہ: اہلتشیع کا تعلق اسلام سے نہیں ہے کیونکہ ان کے پہلے امام سیدنا علی نے امامت کی بیعت نہیں لی بلکہ اہلسنت و اہلتشیع کی خود کتابوں میں لکھا ہے کہ انہوں نے سیدنا ابوبکر کی بیعت کر لی۔ سیدنا سعد بن عبادہ کا اجتہاد غلط تھا اور سیدنا علی نے اپنا امام سیدنا ابوبکر کو جلد یا بدیر مان لیا۔
سچ: دیوبندی اور بریلوی دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کے باوجود ایک عقائد اور تعلیم کے ہیں، جن کو سعودی عرب کے وہابی پلس اہلحدیث حضرات نے بدعتی و مشرک کہا۔ وہابی اور اہلحدیث ایک عقیدے کے ہیں مگر سعودیہ حنبلی اور اہلحدیث غیر مقلد کہلاتے ہیں۔
اتحاد امت: دیوبندی اور بریلوی کے علماء اور جماعتوں پر نہیں بلکہ تعلیم پر ہر مسلمان اکٹھا ہو سکتا ہے۔ البتہ اہلحدیث اور وہابی پہلے تقلید یا غیر مقلدیت یعنی کسی ایک اصول پر اکٹھے ہو جائیں تو پھر علم ہو گا کہ بدعت و شرک کس نے سکھایا یا خود ہی بدعتی و مشرک ہیں۔
غیر مسلم: اہلتشیع حضرات کو مسلمان نہیں کہا جا سکتا کیونکہ صحابہ کرام اور اہلبیت کا دین ایک تھا؟ دونوں نبوت کے فیضان سے منور ہوئے مگر دین میں پنجتن کی اصطلاح ڈال کر، امامت کو نبوت کے مقابل لا کر، رسول اللہ نے جن خلفاء کے فضائل بیان کئے ان کو نعوذ باللہ منافق بنا کر، سیدنا علی کے مخالف ایک دین ایجاد کرنے والے مسلمان نہیں ہو سکتے۔ اسلئے ان سے صرف ایک سوال ہے کہ نبوت نے کونسی تعلیم دے کر کونسے صحابہ کو مسلمان کیا اور امامت نے کونسی تعلیم دے کر کونسے صحابہ کو مسلمان کیا۔۔
البتہ اختلاف یہ ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت کی یا نہیں؟ بخاری حدیث 6830میں بنو ثقیفہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کا واقعہ لکھا ہوا ہے۔اہلسنت کے نزدیک آپ نے بیعت کر لی تھی لیکن اہلتشیع کے نزدیک نہیں کی۔
۔ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ شام کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں 15ھ کو ان کی وفات ہو گئی۔ روایت کے مطابق آپ نے ایک سوراخ میں پیشابکیا، جو جنوں کے رہنے کی جگہ تھی اُس وجہ سے جنوں نے ان کو مار دیا، حضورﷺ نے بھی سوراخ میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (ابن سعد، طبقات الکبری، سعد بن عبادہ، صحابی نمبر 3/570- 353قاہرہ مکتبہ خانجی)
۔ بلاذری نے انساب الاشراف میں تین روایتیں پیش کی ہیں جن میں سے ایک نامور جھوٹے، رنگ باز، صحابہ کرام کا دشمن ابو مخنف کی روایت ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ شام کی طرف چلے گئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو بھیجا کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ حکومت کی راہ میں رکاوٹ ہیں، اسلئے ان کو کہنا کہ حضرت عمر کی بیعت کر لے اور اگر نہ مانیں توکام تمام کر دینا۔
۔ البتہ کسی تاریخی روایت میں یہ بات موجود نہیں ہے کہ حضرت ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنھما کے دور حکومت میں آپ نے کوئی رکاوٹ، شور شرابہ، لڑائی وغیرہ سے حکومت کے کام میں رکاوٹ پیدا کی ہو۔ آپ کے وصال کے بعد بھی آپ کے قبیلے یا اولاد نے کوئی مطالبہ اور نہ کوئی کمپلینٹ درج کروائی۔ البتہ صحابہ کرام کو آپس میں لڑتے دیکھنے والے ابو مخنف کوایسی کہانیاں بنانے میں مزہ آتا ہے۔
۔ صحابہ کرام کے آپس کے مسائل پر ہمیں خاموش رہنے کا حکم ہے مگر ساتھ میں اہلتشیع بے بنیاد مذہب کی چالاکیوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے جس کا تعلق تاریخ سے ایسے واقعات پھیلانا ہے جس میں شر ہی شر ہو اور مسلمانوں میں اختلاف پیدا ہو۔