Surah Fatiha (سورہ فاتحہ)

سورہ فاتحہ


سوال: چار رکعت والے فرض کی تیسری اور چوتھی رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے یا نہیں؟ کیا خاموش بھی رہ سکتے ہیں؟

1۔ ہرفرض، واجب، سنت اور نفل ”نماز“ کی ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد سورۃ ملانی ضروری ہے اور اگر بھول کرنہ ملائی تو ”سجدہ سہو“ کرنا پڑے گا۔ البتہ فرض نمازیں (ظہر، عصر، عشاء) کی آخری دو رکعتوں میں اور مغرب کی آخری ایک رکعت میں سورۃ نہیں ملاتے بلکہ ان خالی رکعتوں میں الحمدشریف پڑھنا افضل ہے، اگر تسبیح کوئی کر لیں تب بھی جائز، اگر خاموش رہے تب بھی جائز ہے اور فرض کی ان رکعتوں میں اگر الحمد شریف کے ساتھ سورۃ مل بھی جائے تو ”سجدہ سہو“ نہیں کرتے۔

2۔ یہ بھی یاد رہے کہ کہ فرض نماز جو امام پڑھاتا ہے اور عوام امام کے پیچھے ادا کرتی ہے اُس میں عوام تو الحمد شریف اور سورت نہیں پڑھتی، البتہ امام جب فرض نماز پڑھاتا ہے یا عوام اپنی علیحدہ پڑھے تو اُس کے لئے یہ مسئلہ ہے کہ فرض نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھنا افضل ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے:”ان النبیﷺ کان یقرأ فی الظھر فی الأولیین بأم الکتاب، وسورتین، وفی الرکعتین الأخریین بأم الکتاب“بے شک نبیﷺ ظہر کی پہلی دورکعتوں میں سورہ فاتحہ اور دوسورتیں تلاوت فرماتے تھے اور آخری دورکعتوں میں صرف سورہ فاتحہ تلاوت فرماتے تھے۔ (صحیح بخاری، کتاب الاذان ،باب یقرأ فی الاخریین، ج1، ص107، مطبوعہ کراچی )

3۔ امام اگر فرض کی آخری دو رکعتوں میں کچھ بھی نہ پڑھے، خاموش رہے، تب بھی نماز ہو جائے گی:أن عبد اللہ بن مسعود کان لا یقرأ خلف الامام فیما جھر فیہ، وفیما یخافت فیہ فی الأولیین، ولا فی الأخریین، واذا صلی وحدہ قرأ فی الأولیین بفاتحة الکتاب وسورة، ولم یقرأ فی الأخریین شیئا“ ترجمہ: بے شک عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ امام کے پیچھے جہری اور خفی دونوں نمازوں میں پہلی دو رکعتوں اورآخری دو رکعتوں میں قراءت نہیں کرتے تھے اور جب تنہا نماز پڑھتے تو پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ اورساتھ میں سورت کی قراءت کرتے تھے اور آخری دو رکعتوں میں کچھ نہیں پڑھتے تھے۔ (مؤطا امام مالک، باب افتتاح الصلاة، ص 62، مطبوعہ المکتبة العلمیہ)

مصنف عبد الزراق میں ہے:”عن عبید اللہ بن أبی رافع قال کان یعنی علیا یقرأ فی الأولیین من الظھر والعصر بأم القرآن وسورة، ولا یقرأ فی الأخریین “ترجمہ: عبید اللہ بن ابی رافع رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ظہر اور عصر کی پہلی دو رکعت میں سورہ فاتحہ اور ساتھ میں سورت کی قراءت کرتے تھے اور آخری رکعتوں میں کچھ نہیں پڑھتے تھے۔ (مصنف عبد الرزاق، کتاب الصلاہ، باب کیف القراء ة فی الصلاة، ج 2، ص100، مطبوعہ المکتب الاسلامی ،بیروت)

حضرت ابراہیم نخعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ”ما قرأ علقمة فی الرکعتین الأخریین حرفاقط“ ترجمہ: حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ(فرض کی) آخری دو رکعتوں میں ایک حرف بھی نہ پڑھتے تھے۔ (مصنف عبد الرزاق، کتاب الصلاہ، باب کیف القراءة فی الصلاة، ج 2، ص 100، مطبوعہ المکتب الاسلامی، بیروت)

4۔ امام اگر فرض کی تیسری اور چوتھی رکعت میں تسبیح پڑھے تو تب بھی جائز ہے جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یقرأ فی الأولیین، ویسبح فی الأخریین “ترجمہ : کہ (نمازی) پہلی دورکعتوں میں قراءت کرے اورآخری دو رکعتوں میں تسبیح کرے۔ (مصنف ابن ابی شیبة، کتاب الصلاہ، من کان یقول یسبح فی الاخریین، ج1، ص 327، مطبوعہ ریاض)

درمختار میں ہے:”واکتفی المفترض فیما بعد الأولیین بالفاتحة فانھاسنۃ علی الظاھر ولو زاد لابأس بہ (وھو مخیر بین قراءة) الفاتحة (وتسبیح ثلاثا) وسکوت قدرھا “ترجمہ:چار رکعت فرض پڑھنے والے کے لیے پہلی دو رکعت کے بعدسورہ فاتحہ پڑھنا کافی ہے اور یہ بظاہرسنت بھی ہے اور اگر سورہ فاتحہ کے ساتھ سورت بھی ملا لی توکوئی حرج نہیں اورنمازی کوسورہ فاتحہ پڑھنے اور تین مرتبہ تسبیح کہنے اوراس مقدار چپ رہنے میں اختیار ہے۔ (درمختار،کتاب الصلاۃ،ج02،ص270،مطبوعہ کوئٹہ)

فرقہ واریت: اس پیج پر الزام لگایا جاتا ہے کہ فرقہ واریت پھیلائی جاتی ہے حالانکہ سیدھا سادا سوال تین جماعتوں (بریلوی، دیوبندی اور اہلحدیث) سے کیا ہے:

بریلوی علماء سے سوال: دیوبندی کو بریلوی بنانا ہوتو کن کفریہ عبارتوں سے توبہ کرے اور کون سرٹیفیکیٹ دے گا کہ اب اہلسنت ہے؟

دیوبندی علماء سے سوال: بریلوی کو دیوبندی بنانا ہو تو کن کفریہ عبارتوں سے توبہ کرے اور کون سرٹیفیکیٹ دے گا کہ اب اہلسنت ہے؟

اہلحدیث حضرات: دیوبندی اور بریلوی کو اہلحدیث جماعت میں شامل کرنا ہو تو کس عالم کی تقلید میں حضورﷺ کی اتباع کی جائے اُس کا نام بتا دیں یا ہر کوئی خود قرآن و سنت پر عمل کرے؟

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general