ایمانی باتیں
1۔ لوح محفوظ اور مقدر کو اس حد تک ماننا چاہئے کہ اللہ تعالی نے اس پر ایمان لانے کا حُکم دیا ہے، البتہ مقدر رلکھنے والے (اللہ) کو تقدیر سے بڑھکر ماننا چاہئے، اسلئے تقدیر کو کبھی یاد نہ کر یں بلکہ ہمیشہ قادر مطلق (اللہ کریم) کا ذکر اور اُس کے حکم پر عمل کرتے رہیں۔
2۔ دین دنیاداری سکھاتا ہے اور شریعت کے مطابق دنیاداری کرنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔البتہ دنیا دین داری نہیں سکھاتی بلکہ ایمانداری کو آزماتی ہے۔
3۔ ہر کوئی اپنی زندگی گذار کر اپنا تجربہ بیان کرتا ہے حالانکہ زندگی گذارنے کے لئے انبیاء کرام، صحابہ کرام اور اولیاء کرام کے تجربے سے فائدہ لینا چاہئے کیونکہ پھر کوئی بھی مسلمان یہ نہیں کہے گا کہ مجھے کچھ ملا نہیں اور دُکھی شعر و شاعری نہیں کرے گا۔
4۔ اللہ تعالی کے ذکر سے نور، سکون اور اطمینان کے ساتھ ہمیشہ آخرت کا خیال رہتا ہے، البتہ دنیا کی باتوں سے یہ سب کچھ کھو جاتا ہے۔
5۔ دنیا کی رنگینی، مستی اور دنیا کی مجبوریاں مسلمان کو اللہ تعالی کی محبت سے غافل کر دیتی ہیں، البتہ اللہ تعالی کی محبت تمام مسائل کا خاتمہ، تمام مجبوریوں کا حل، تمام ضرورتوں کو پورا اور اگر کچھ نہ بھی ملے تو صبر و شُکر عطاکرتی ہے۔
6۔ دنیا والوں کے پاس دنیا کمانے کے دلائل ہوتے ہیں اور اللہ والوں کے پاس اللہ تعالی کی محبت پانے کے دلائل ہوتے ہیں۔
7۔ کامل مومن اپنی ہر بات اور اپنا ہر عمل ہر وقت قرآن و سنت پر تولتا رہتا ہے۔
8۔ حالات اللہ کریم پر اعتماد اور اللہ کریم سے محبت کرنے سے بدلتے ہیں۔
9۔ ہم اللہ جل شانہ کو ایک تو مانتے ہیں مگر اللہ کریم کی اس طرح نہیں مانتے جسطرح ماننے کا حق ہے۔
نیکی: نیکی اللہ تعالی کی رضا، محبت اور اجر و ثواب کے حصول کے لئے ہوتی ہے۔ نیکی کرنے کے لئے وقت اور پیسہ لگانا پڑتا ہے جس سے بعض اوقات انسان کو تکلیف بھی محسوس ہوتی ہے۔ نیکی جس سے کی جائے اس سے تعریف اور ساتھ کی امید لگانا حماقت ہے اور اس کا گلہ شکوہ کرنا بے وقوفی اور جہالت ہے۔ نیکی کے لئے بھی حکمت، شوق، جذبہ اور نبی محترم ﷺ کے طریقے کا علم ہونا چاہئے۔ نیکی کر کے خوش ہونا ایمان کی علامت ہے اور نیکی کر کے اِترانا جہنم میں جانے کی شناخت ہے۔ نیکی انسان کا پیچھا کرتی ہے اور قبر وحشر میں کام آتی ہے۔ نیکی کو اللہ کریم کی طرف منسوب کرنا عبادت اور اپنی طرف منسوب کرنا نفس کی شرارت ہے۔
نیکی: اس وقت سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد ہو، اسلئے ہر جماعت اپنی جماعت کی طرف سے ان سوالوں کے جواب دے سکتا ہے کیونکہ ایک دوسرے پر الزامی سوالات کی بجائے اپنے اپنے حصے کا جواب دیا جائے:
سوال: کیا دیوبندی اور بریلوی جماعتیں خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) کے عقائد پرمتفق نہیں ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا؟ دونوں جماعتوں کا اختلاف صرف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کا نہیں ہے؟ اگر یہ بات درست نہیں تو دونوں طرف کے علماء اکٹھے ہو کر بتا دیں کہ اختلاف کیا ہے اورکس کتاب میں لکھا ہے تاکہ اتحاد امت ہو۔
سوال: اہلحدیث جماعت بالکل “صحیح احادیث“ کے مطابق نماز ادا کرتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کس “ایک“ نے کس دور میں ”صحیح احادیث“ کے مطابق اہلحدیث جماعت کو نماز ادا کرنا سکھایا کیونکہ چار ائمہ کرام جو صحابہ یا تابعین کے دور میں تھے اُن کو بھی ”صحیح احادیث“ کا علم نہ ہو سکا؟
سوال: اہلتشیع قرآن و سنت سے اپنا تعلق ثابت کریں کہ کونسی احادیث کی کتابیں کن راویوں کے ذریعے حضورﷺ تک اسناد سے لکھی گئیں کیونکہ اہلتشیع کی احادیث اور فقہ جعفر کا دور دور تک حضور ﷺ اورحضرت جعفر صادق رحمتہ اللہ علیہ سے تعلق ثابت نہیں۔ اسلئے عیسائی حضرات کی طرح اہلتشیع بھی قرآن و سنت میں تحریف کر کے ایک نیا دین بنا چُکے ہیں۔