متنازعہ صحابہ یا تابعین؟
اہلتشیع حضرات کایزیدی مذہب ہے کیونکہ حضورﷺ، صحابہ کرام اور تابعین کے دور میں اہلتشیع جماعت کے عقائد (امامت، بدا، تقیہ، معصوم امام،متعہ، تحریفِ قرآن) والا کوئی صحابی یا تابعی نہیں ملتا۔ البتہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت کرنے والے صحابی اور تابعی ضرور ملیں گے مگر وہ ان عقائد کے مالک ہر گز نہیں تھا۔ان صحابہ و تابعین کا تعلق تاریخ اسلام سے ہے اور اہلتشیع ان کے بارے میں پوچھتے رہیں گے مگر کیا بتا سکتے ہیں کہ کیوں پوچھتے ہیں اور ان سب کے ساتھ ان کا کیا تعلق ہے؟
1۔ مالک بن نویرہ
عرب کا سردار، شاعر، شہسوار، مالک بن نویرہ کب مسلمان ہوا کوئی علم نہیں ہے۔ البتہ حضورﷺ کی وفات کے بعد مالک بن نویرہ ”مرتد“ہو گیا؟ اُس نے نبی کریمﷺ کی وفات کی خبر سُن کر اپنے قبیلے میں خوشیاں منائیں، زکوۃ دینے سے انکار کیا اورنبوت کی دعویدار سجاح بنت حارث کی حمایت بھی کی؟
صحابی: اصطلاحی معنوں میں حضورﷺ پر ایمان لا کر ایمان کی حالت میں وفات پانے والے کو ”صحابی“ کہا جاتا ہے مگر لغوی طورپرصحابی کا لفظ”منافق“ کے لئے بھی بولا گیا ہے۔اس بات کو اس پیج کی ایک پوسٹ پر ”مومن اور منافق صحابی“ میں سمجھایا گیا ہے، کوئی بھی اس کا لنک مانگ سکتا ہے۔
بیعت: حضورﷺ کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی امامت و خلافت پر اجماع صحابہ ہو گیا یعنی اکا دُکا کے نام آئیں گے جنہوں نے بیعت نہیں کی باقی سب نے بیعت کر لی۔ اسلئے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا حُکم ماننا لازم تھا ورنہ بیعت نہ کرنے والا باغی ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے منکرین زکوۃ سے جنگ کا اعلان کیا تو مالک بن نویرہ کو بھی زکوۃ نے دینے کی وجہ سے قتل کر دیا گیا۔ اُس نے ضروریات دین میں سے نماز کا نہیں البتہ زکوۃ کا انکار کیا تھا۔
اختلاف: تاریخ میں روایات مختلف ہیں اسلئے صحابہ کرام کا اختلاف بھی نظر آئے گا کہ مالک بن نویرہ اور اُس کا قبیلہ مرتد ہوا یا نہیں کیونکہ بنو تمیم قبیلے نے اذان بھی دی اور نماز بھی پڑھی تھی۔ البتہ یہ بھی ہے کہ مالک بن نویرہ اور اُس کے قبیلے کو فوراً قتل نہیں کیا گیا بلکہ تفشیش کر کے کیا گیا۔
قتل کے بعد: مالک بن نویرہ کے قتل کے بعد حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اس کی بیوی سے نکاح کر لیا۔اہلتشیع حضرات کہیں گے کہ بیوی کی عدت بھی پوری نہیں ہونے دی گئی حالانکہ مالک بن نویرہ کی بیوہ سے قبل از عدت نکاح کے متعلق کوئی روایت ثابت نہیں لہذا اس پر بحث فضول ہے۔
اجتہاد: صحابی رسول کو شریعت کا زیادہ علم تھا۔ مالک بن نویرہ نبی کریمﷺ کی وفات کا سُن کر مرتد ہو چُکا تھا، بیوی مطلقہ ہوئی، اسلئے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اُس سے نکاح کیا۔مُرتد ہونے کا حوالہ شاہ عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ نے تحفہ اثنا عشریہ اور شیعہ عالم شیخ مفید نے ”الافصاح للمفید ص41“ میں دیاہے۔البتہ اہلتشیع اپنی کتابوں سے مُکر جائیں گے، تاویلیں کریں گے، علماء سے پھر جائیں گے، حضورﷺ کی احادیث سے ان کا کوئی تعلق نہیں، بارہ امام کی روایات سب منگھڑت اور جھوٹ ہیں۔
شُبہ: صحابہ کرام کے اختلاف اور شُبہ کی وجہ سے حضرت ابوبکر رضی اللہ نے دیت ادا کی، البتہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کوان کو عہدے سے نہیں ہٹایا گیا، بیوہ سے نکاح پر شرعی باز پُرس نہیں کی گئی بلکہ دنیاوی طور پر اختلاف کی وجہ سے ناراضگی کا اظہار کیا گیا۔
اختلاف: اگر کوئی کہے کہ مالک بن نویرہ کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت سے اختلاف تھا تو پھر بھی خلیفہ وقت کو اس کو باغی قرار دے کر لڑائی کا اختیار ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اسلئے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے لڑائی کی تو ادھر غلط فہمی قصاص عثمان پر تھی مگر ادھر نہیں۔
2۔ حضرت محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ
1۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قتیلہ بنت عبد العزی اور حضرت ام رومان بنت عامر، اسماء بنت عمیس، حبیبہ بنت خارجہ رضی اللہ عنھم سے نکاح کئے اور آپ کی اولاد میں تین بیٹے حضرت عبدالرحمن، عبداللہ اور محمد اور تین بیٹیاں اسماء، عائشہ، ام کلثوم رضی اللہ عنھم شامل ہیں۔
قتیلہ بنت عبدالعزی: ان سے حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنھا پیدا ہوئی، البتہ قتیلہ بنت عبدالعزی نے اسلام قبول نہیں کیا، اسلئے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کو طلاق دے دی تھی۔
ام رومان بنت عامر: حضرت ام رومان بنت عامر رضی اللہ عنھا صحابیہ ہیں،آپ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا اور حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ ہیں۔حضورﷺ کی حیات میں وفات پا گئیں اور حضورﷺ خود ان کی قبر میں اترے اور ان کے لئے مغفرت کی دعا کی۔(سیر الصحابیات)
اسماء بنت عمیس:آپ کا پہلا نکاح چچا ابو طالب کے بیٹے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ سے ہوا جن سے حضرت محمد، عون اور عبداللہ رضی اللہ عنھم پیدا ہوئے۔ ان کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ہوا جن سے حضرت محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے وصال کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نکاح ہوا جن سے حضرت یحیی اور محمد اصغر پیدا ہوئے۔آپ کا انتقال 40 ھ میں ہوا۔
حضرت حبیبہ بنت خارجہ: ان سے حضرت ام کلثوم رحمتہ اللہ علیھا پیدا ہوئیں۔
پیدائش: حضرت محمد بن ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ولادت 25ذی قعد10ھ کو ذوالحلیفہ میں حضورﷺ کے حج کے سفر کے دوران ہوئی، ان کی پیدائش کے چند ماہ بعد حضور ﷺکا وصال ہو گیا، اسلئے کچھ کہتے ہیں صحابی ہیں اور کچھ کہتے ہیں تابعی ہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنھا نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نکاح کیا تو حضرت محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پالا اور ان سے محبت کرتے تھے۔
نکاح: حضرت محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے نکاح کے حوالے سے اتنا ملتا ہے کہ ”یزدگرد“ ایرانی بادشاہ کی تین بیٹیاں جب گرفتار ہو کر آئیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کو خرید کر ان میں سے ایک کا نکاح حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ سے کیا، جن سے حضرت علی المعروف زین العابدین رحمتہ اللہ علیہ پیدا ہوئے۔ دوسری کا نکاح حضرت محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ سے ہوا جن سے حضرت قاسم رحمتہ اللہ علیہ پیدا ہوئے اور تیسری کا نکاح حضرت عبداللہ بن عمر سے ہوا جن سے سالم رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔
مخالفین عثمان: تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی گورنمنٹ کی مخالفت میں حضرت محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔ قاتلین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے متعلق آراء یہ ہیں (1) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے میں ان کا بھی ہاتھ ہے (2) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی داڑھی پکڑے ہوئے تھے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے شرم دلائی توشرمندہ ہو کر واپس آ گئے اور توبہ کر لی۔
بد دُعا: ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتیں کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو ظلما شہید کیا گیا ہے اور فرماتیں کہ ”اللہ تعالی محمد بن ابی بکر سے ان کا بدلہ لے، اللہ تعالی بنو تمیم کو ذلیل و رسوا کرے، اللہ تعالی بنو ہذیل کا خون بہائے، اللہ تعالی اشتر کو اپنے تیر سے ہلاک کرے اور ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا جس کو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کی بد دعا نہ پہنچی ہو (المجم الکبیر للطبرانی ج 1، حدیث 133، التاریخ الاوسط للبخاری ج 1 ح384، تثبیت الامامتہ و ترتیب الخلافتہ لابی نعیم الاصبھانی ج 1ح 140، مجمع الزوائد 9ح 14567)
جنگیں: حضرت محمد بن ابوبکررضی اللہ عنہ جنگ جمل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے اور جنگ صفین میں کچھ کہتے ہیں موجود تھے اور کہتے ہیں کہ جنگ صفین میں اسلئے شامل نہیں تھے کہ اُس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کو مصر کا گورنر بنایا ہوا تھا۔ جنگ صفین کے بعد جب حضرت علی اور امیر معاویہ رضی اللہ عنھما میں صُلح ہوئی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ واپس کوفہ تشریف لے آئے۔
وفات: ایک روایت ہے کہ قاتلین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ میں حضرت محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ بھی تھے تو اُن سے بدلہ لینے کے لئے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو بھیجا گیا۔ ایک روایت ہے کہ مصراور کوفہ باغیوں کا گڑھ تھا اور حضرت محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ ان سے متاثر تھے، اسلئے فاتح مصر، حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو بھیجا کہ اس کو سمجھاؤ، جس سے دو گروپ کے درمیان مقابلہ ہوا اور حضرت محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ شہید ہوئے یا قتل کر دئے گئے۔ باقی ابو مخنف کی جھوٹی روایات ہیں کہ گدھے کی کھال میں ڈال کر جلایا گیا، بڑی بے دردی سے مارا گیا۔
3۔ حضرت محمد بن ابی حذیفہ
1۔ حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کا اصلی نام ہشیم، ہشام بتایا جاتا ہے، بنو امیہ سے ہیں، والد کا نام عتبہ، بھائی کا نام ولید، بہن کا نام حضرت ہند رضی اللہ عنھا (زوجہ حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ) ہے اور جنگ بدر میں باپ کفار کی طرف سے اور بیٹا حضورﷺ کی طرف سے جنگ میں اترے۔ آپ ۴۴ویں مسلمان تھے، بیوی کا نام سہلہ بنت سہیل، حضورﷺ کے حکم پر 5ھ میں حبشہ کی طرف ہجرت کی، وہاں بیٹا پیدا ہوا جس کا نام حضرت محمد بن ابی حذیفہ ہے۔
2۔ 11ھ میں جنگ یمامہ ہوئی جس میں حضرت ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے۔اُنکی شہادت کے بعد حضرت سہلہ رضی اللہ عنھا نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے نکاح کر لیا۔ حضرت محمد بن ابی حذیفہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر میں پرورش پائی۔
3۔ تاریخ بتاتی ہے کہ شراب پینے پر حضرت محمد بن ابی حذیفہ کو درے لگائے گئے، ان کو گورنری کا شوق تھا لیکن حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ جن پر یہ تہمت لگائی جاتی ہے کہ انہوں نے اپنے رشتے داروں کو نوازا لیکن حضرت محمد بن ابی حذیفہ کو تو انہوں نے کوئی حکومت نہیں دی۔ اسلئے وہ بہانہ بنا کر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے علیحدہ ہو کر مصر چلے گئے۔
4۔ حضرت محمد بن ابی بکر اور حضرت محمد بن ابی حذیفہ دونوں باغی اور سبائی تحریک سے متاثر ہو گئے تھے، غلط فہمیوں کا شکار بھی تھے، حضرت محمد بن ابی بکر قاتلین عثمان کے گروہ میں شامل ہو کر مدینہ پہنچا مگر حضرت محمد بن ابی حذیفہ مصر میں ہی رہا۔ حضرت ابن ابی سرح بھی باغیوں کے روانہ ہونے کے بعد مصر سے مدینہ پاک آئے تو حضرت محمد بن ابی حذیفہ نے مصر پر قبضہ کر لیا۔
5۔ ایک سال تک مصر پر حکومت کی اور تاریخ میں قتل کئے جانے کے مختلف واقعات ہیں مگر اہلتشیع کبھی یہ نہیں بتائیں گے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ میں شامل اپنوں کو بھی نہیں چھوڑا۔
4۔ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ
1۔ حضرت سعد بن عبادہ، قبیلہ خزرج کے سردار، انصار اور ابتدائی صحابہ میں سے تھے۔ حضورﷺ کا فرمان: انصار کے ہر گھرانے میں خیر ہے، اسلئے حضرت سعد بن عبادہ کا گھرانہ بھی خیرہی خیر ہے (بخاری 6053، 5300،3791، 3790، 3789 ،3807)۔ غزوہ بدر میں بیماری کی وجہ سے شامل نہیں ہوئے البتہ حضورﷺ نے ان کو بدرکے مال غنیمت میں حصہ دیا، غزوہ احد، خندق، بیعت رضوان، غزوہ خیبر،فتح مکہ، غزوہ حنین وغیرہ میں شرکت کی۔
2۔ حضورﷺ کی وفات کے بعدحضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی ملکیت میں سقیفہ بنی ساعدہ (ثقیفہ یعنی سایہ دار جگہ، سائبان اور یہاں حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کا گھر) تھا جس میں انصاریوں کی طرف سے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کا مسئلہ پیداہوا۔ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنھما نے وہاں پہنچ کردلائل سے قائل کر کے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت پر سب کو رضا مند کیا، اسلئے تمام انصاری صحابہ نے بیعت کر لی۔
3۔ البتہ اختلاف یہ ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت کی یا نہیں؟ بخاری حدیث 6830میں بنو ثقیفہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کا واقعہ لکھا ہوا ہے۔اہلسنت کے نزدیک آپ نے بیعت کر لی تھی لیکن اہلتشیع کے نزدیک نہیں کی۔
4۔ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ شام کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں 15ھ کو ان کی وفات ہو گئی۔ روایت کے مطابق آپ نے ایک سوراخ میں پیشابکیا، جو جنوں کے رہنے کی جگہ تھی اُس وجہ سے جنوں نے ان کو مار دیا، حضورﷺ نے بھی سوراخ میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (ابن سعد، طبقات الکبری، سعد بن عبادہ، صحابی نمبر 3/570- 353قاہرہ مکتبہ خانجی)
5۔ بلاذری نے انساب الاشراف میں تین روایتیں پیش کی ہیں جن میں سے ایک نامور جھوٹے، رنگ باز، صحابہ کرام کا دشمن ابو مخنف کی روایت ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ شام کی طرف چلے گئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو بھیجا کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ حکومت کی راہ میں رکاوٹ ہیں، اسلئے ان کو کہنا کہ حضرت عمر کی بیعت کر لے اور اگر نہ مانیں توکام تمام کر دینا۔
6۔ البتہ کسی تاریخی روایت میں یہ بات موجود نہیں ہے کہ حضرت ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنھما کے دور حکومت میں آپ نے کوئی رکاوٹ، شور شرابہ، لڑائی وغیرہ سے حکومت کے کام میں رکاوٹ پیدا کی ہو۔ آپ کے وصال کے بعد بھی آپ کے قبیلے یا اولاد نے کوئی مطالبہ اور نہ کوئی کمپلینٹ درج کروائی۔ البتہ صحابہ کرام کو آپس میں لڑتے دیکھنے والے ابو مخنف کوایسی کہانیاں بنانے میں مزہ آتا ہے۔
5۔ حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ
حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ، قبیلہ کندہ کا سردار جن کو حجر الخیر اور حجر بن الادبر بھی کہا جاتا ہے۔بعض حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ کو صحابی اور بعض تابعی کہتے ہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں جنگ قادسیہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جنگ جمل و صفین میں شامل تھے۔ حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ کوفہ سے تھے جو کہ سازشوں کا گڑھ تھا اور اسلئے بنیادی طور پر حضرت عثمان اور امیر معاویہ رضی اللہ عنھما کے خلاف تھے۔ ان پر الزام ہیں:
1۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ کے دور میں کوفہ کے امیر مغیرہ ابن شعبہ رضی اللہ عنہ، صحابی رسول، خطبہ دیتے توحضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ شور، تشدد اور نازیبا الفاظ استعمال کرتے۔
2۔ اگر گورنمنٹ کی طرف سے عوام کو وظائف کی ادائیگی میں تاخیر ہوتی تو حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے خلاف احتجاج کر کے پریشان کرتے مگر آپ صبر کرتے۔
3۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ بیت المال سے کچھ مال دارالخلافہ بھیج دیا جائے تو وہاں پر بھی سواریوں کی لگام پکڑ کر برا بھلا کہنے والے حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ تھے۔
4۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ 50ھ میں وفات پا گئے تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے زیاد بن ابیہ (حضرت علی رضی اللہ عنہ نے زیاد بن ابی سفیان کو کرمان اور فارس کا گورنر بنایا، پھر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہے، پھرمشرقی علاقوں کے آزاد حکمران بن گئے، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں نہیں تھے، حضرت مغیرہ ابن شعبہ رضی اللہ عنہ نے حضرت زیاد بن ابی سفیان اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان مصالحت کروا دی)کو کوفہ اور بصرہ کا گورنر بنایا۔
5۔ حضرت زیاد بن ابیہ کے خطبہ کے دوران حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ ہتھیار لگا کر آئے اور کنکریاں بھی گورنر کو ماریں۔ حکومت کے خلاف زبان درازی بھی کی، اس ساری کاروائی کو گورنر نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو لکھ بھیجا کیونکہ حضرت زیاد ابن سفیان بہت اچھے ایڈمنسٹریٹر بھی تھے۔
6۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے لکھا کہ حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ کو اُس کے ساتھیوں سمیت گرفتار کر کے گواہوں سمیت دمشق بھیج دو۔انہوں نے مندرجہ ذیل چارج شیٹ کے ساتھ حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ، اُس کے ساتھی اور گواہوں (صحابی اور تابعی) کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا:
۱) حجر بن عدی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو گالیاں نکالتے ہیں اور باغی ہیں۔
۲) امیر وقت کے ساتھ محاربہ (جنگ) کرتا ہے بلکہ سخت مخالفت کرتے ہیں۔
۳) خلیفہ وقت کو نہیں مانتے بلکہ آل ابی طالب کے علاوہ کسی کی خلافت نہیں مانتے۔
فیصلہ: حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ کو 51 ھ ”عذرا“ کے مقام پر چارج شیٹ کے مطابق گواہوں سے باز پُرس کر کے قتل کی سزا دی۔ بالکل اسی طرح حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ کے دو بیٹے عبداللہ اور عبدالرحمن جو حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے خلاف بولتے تھے ان کو حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے بھائی مصعب بن زبیر نے قتل کروایا۔
7۔ اہلتشیع کی کتابوں میں بھی مذکور ہے کہ حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی سمجھایا، اُس کے بعد حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی تو اُن کو بھی برا بھلا کہنے والے حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ تھے، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر بھی ان کو بیعت توڑنے کا مشورہ دینے والے اور گورنمنٹ کے خلاف چال چلنے کے لئے کہنے والے حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ تھے، اس پر حضرت امام حسن و حسین رضی اللہ عنھما کے الفاظ تاریخ میں حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ کے خلاف ملتے ہیں۔
8۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ کو معاف کروانے کے لئے قاصد بھیجا مگر قاصد کے پہنچنے سے پہلے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کو قتل کر وا دیا ہوا تھا۔
ایک دفعہ مدینہ پاک میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے ملاقات کے دوران حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ کے متعلق بات ہوئی تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے انہیں قتل نہیں کیا بلکہ جن لوگوں نے ان کے خلاف گواہی دی انہوں نے قتل کیا ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے ان کے شر و فساد سے خوف کھایا، اسلئے قتل کیا۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا کہ اے معاویہ تمہاری بردباری حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ کے وقت کہاں گئی تھی تو آپ نے فرمایا کہ قوم میں آپ جیسی خیر خواہ شخصیت میرے پاس موجود نہیں تھی اسلئے واقعہ پیش آیا۔
9۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان اس کے بعد بھی خوشگوار دینی تعلقات استوار رہے۔ اگر کوئی کہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سُنا کہ عنقریب عذرا کے مقام پر بعض لوگ قتل کئے جائیں گے تو اللہ تعالی اور آسمان والے ان کی وجہ سے غضبناک ہوں گے تو یاد رکھیں کہ یہ روایات اسی طرح بے سند، منقطع اور ضعیف روایت ہے جیسے جنگ جمل کے دوران کتے بھونکنے والی روایت ہے۔
10۔ حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کی روایت کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ کو قتل کیا تو یاد رکھیں کہ یہ ابو مخنف تاریخی ڈرامہ ساز کی بات ہے جس کا کوئی یقین نہیں کیا جا سکتا۔
تجزیاتی رپورٹ
1۔ صحابہ کرام اور اہلبیت کے حضورﷺ کے وصال کے بعد امامت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر اجماع صحابہ کرام ہیں جس کا مُنکر کافر ہے۔ باغ فدک کا فیصلہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قرآن و سنت کے مطابق کیا۔ جنگ جمل و جنگ صفین کے سب شہید کہلائے اور ان کے جنازے بھی پڑھائے گئے البتہ جنگ نہروان کے خارجی و قاتلین عثمان کو قتل کیا، جلایا گیا اور جنازے بھی نہیں پڑھائے گئے۔
2۔صحابہ کرام و اہلبیت کے بارے میں قرآن و احادیث کی گواہی ہے، اسلئے ان میں سے کسی کو ایک دوسرے کے مقابلے میں لا کر لڑنا گناہ گاری ہے اور ممانعت ہے لیکن ہر صحابی کی شان بلند کرنا جائز ہے حتی کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان خوب بلند کریں مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں نہیں بلکہ حضورﷺ کے فرمان کے مطابق کرنی ہے۔
3۔ اہلتشیع حضرات کا قرآن و سنت سے اسلئے تعلق نہیں کہ اہلبیت یا بارہ امام سے کوئی حدیث کی کتابیں یا فقہ جعفر کا ثبوت نہیں ملتا۔ نہج البلاغہ بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جھوٹ منسوب ہے۔ اہلتشیع کو اہلسنت ہونے کے لئے اپنی ساری کتابیں جلا کر توبہ کر کے اہلسنت علماء کرام کے عقائد پر ایمان لانا ہو گا پھر مسلمان کہلائیں گے۔
4۔ اہلسنت میں دیوبندی، بریلوی اور اہلحدیث شامل ہیں مگر ہم نے مسلمان بننا ہے جو قرآن و سنت کے مطابق ہو، اسلئے ایک دوسرے کو کافر، بدعتی و مشرک نہیں کہنا۔ اسلئے اس کا حل سوال کر کے مذہبی جماعتوں سے سیکھنا ہے:
۱) دیوبندی اور بریلوی جماعتیں بتا دیں کہ کیا دونوں جماعتیں خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت، اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) کے متفقہ عقائد پر نہیں ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا؟ دیوبندی اور بریلوی کا اصولی اختلاف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتیں ہیں؟ اگر ایسا نہیں تو دونوں جماعتیں بتا دیں کہ اصل اہلسنت اور اصل اختلاف کیا ہے؟
۲) اہلحدیث جماعت بالکل صحیح احادیث کے مطابق ہیں لیکن صرف ایک سوال کا جواب دیں کہ کس دور میں کس ایک نے صحیح احادیث کے مطابق ان سب کو نماز ادا کرنا سکھائی کیونکہ چار ائمہ کرام کو بھی صحیح احادیث کا علم نہیں ہو سکا جن کا دور صحابہ کرام کے دور کے ساتھ ہے، نام بتائیں اجر پائیں؟