اولادِ ابوبکر رضی اللہ عنہ
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قتیلہ بنت عبد العزی، حضرت ام رومان بنت عامر، حضرت اسماء بنت عمیس اور حضرت حبیبہ بنت خارجہ سے نکاح کئے اور آپ کی اولاد میں تین بیٹے عبداللہ، عبدالرحمن اور محمد ہیں اور تین بیٹیاں اسماء، عائشہ اور ام کلثوم شامل ہیں۔
پہلی بیوی: قتیلہ بنت عبدالعزی سے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ اور حضرت اسماء رضی اللہ عنھا پیدا ہوئیں۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جب مسلمان ہوئے تو قتیلہ بنت عبدالعزی نے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا جس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کو طلاق دے دی۔ان سے دوبچے یہ تھے:
1۔ حضرت عبداللہ بن ابی بکر: حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بڑے بیٹے ہیں اور حضرت اسماء رضی اللہ عنھا آپ کی حقیقی بہن ہیں۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ ہمارے والد صاحب جس روز ایمان لائے، گھر آئے اور ہمیں ایمان کی دعوت دی، جب تک ہم سب دائرہ اسلام میں داخل نہیں ہوئے اس وقت تک نہیں اُٹھے۔ اسلئے سابقون الاولون میں حضرت عبداللہ کا بھی شمار ہوتا ہے۔
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ ہجرت مدینہ کے وقت کافروں کی جاسوسی کرتے اور شام کو حضرت اسماء کھانا تیار کرتیں تو یہ حضور ﷺ کو کھانا بھی دے کر آتے، اگر کافروں کو ان پر شک ہو جاتا تو ان کا قتل یقینی تھا۔ ”غارِ ثور میں حضرت سیدنا عبداللہ بن ابوبکر، سیدہ اسماء اور حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنھم خبریں پہنچانے، کھانا کھلانے اور دودھ پلانے کی خدمت انجام دیتے رہے“۔(سیرت ابن ہشام ص 194)
حضور ﷺ نے مدینہ منورہ پہنچ کر اپنے غلام حضرت زید بن حارثہ اور ابو رافع رضی اللہ عنھما کو دو اونٹ اور چار سو درہم خرچ دے کر مکہ روانہ کیا تاکہ وہ حضور ﷺ کی دونوں بیٹیوں حضرت ام کلثوم اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھما، حضرت سودہ بنت زمعہ، زید کی بیوی ام ایمن اور اس کے بیٹے اسامہ بن زید کو مدینہ لے آئیں تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی ایک خط حضرت عبداللہ بن اریقط کو اپنے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے نام دے کر بھیجا کہ آپ بھی اپنی (سوتیلی) والدہ ام رومان اور اپنی بہنوں حضرت اسماء اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنھما کو لے کر مدینہ آ جائیں۔ (معارج النبوۃ فی مدارج الفتوۃ مصنف ملا معین واعظ الہروی)
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کا نکاح حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ (عشرہ مبشرہ) کی بہن حضرت عاتکہ رضی اللہ عنھا سے ہوا اور ان سے ایک بچہ اسماعیل پیدا ہوا مگر چھوٹی عمر میں وفات پا گیا جس کی وجہ سے حضرت عبداللہ بن ابی بکر کی نسل آگے نہ چل سکی۔ حضرت عبداللہ ایک دفعہ اپنی بیوی کی محبت میں اور اُس کے کہنے پر جہاد پر نہ گئے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ عاتکہ کو طلاق دے دو، حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ایک طلاق دے دی لیکن ان کی محبت اسقدر شدید تھی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رجوع کر لو۔اُس کے بعد ہر غزوے میں شریک ہوئے۔ (سیرت خلیفہ رسول سیدنا حضرت ابوبکر از طالب ہاشمی صفحہ 592اور 593)، الصحابہ فی المیز الصحابہ تالیف علامہ ابن حجر عسقلانی اردو مترجم محمد احمد شہزاد علوی جلد سوم صفحہ 212)
حضرت عاتکہ رضی اللہ عنھا کا پہلا نکاح حضرت زید بن خطاب رضی اللہ عنہ، دوسرا نکاح حضرت عبداللہ بن ابی بکر، تیسرا نکاح حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ہوا، چوتھا نکاح حضرت زبیر بن العوام اور پانچواں نکاح حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ سے ہوا۔ جن سے انکا نکاح ہوا سب شہید ہوئے، یہاں تک کہ مشہور ہو گیا تھا کہ جس نے شہید ہونا ہے وہ عاتکہ سے نکاح کر لے۔
حضرت عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے فتح مکہ، غزوہ حنین اور غزوہ طائف میں شرکت کی اور طائف کے محاصرے کے دوران آپ ایک زہریلاتیر لگنے سے زخمی ہو گئے اور وہ زہر اندر ہی اندر کام کرتا رہا اور حضور ﷺ کے وصال کے بعد 11ھ میں آپ وفات پا گئے۔ آپ کی نماز جنازہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پڑھائی اور قبر میں حضرت عبدالرحمن بن ابوبکر، حضرت عمر فاروق اور حضرت طلحہ بن عبیداللہ اُترے۔ (زرقانی جلد 3 ص 30)
(جاری ہے)
فارمولہ: اس پیج پر اتحاد امت کے لئے ایک فارمولہ سمجھنے میں ہر مسلمان کی مدد چاہئے تاکہ ادھر ادھر کی بحث میں وقت ضائع نہ ہو کیونکہ قرآن و احادیث تبدیل نہین ہو سکتا اسلئے دیوبندی علماءیہ بتائیں کہ اگر بریلوی عوام کو دیوبندی بنانا ہے تو بریلوی کن کن غیر شرعی اعمال یا کُفریہ عقائد سے توبہ کرے اور وہ عقائد ان کی کس عالم کی کتابوں میں لکھے ہیں، کسی بھی مزار یا میلاد کرنے والی عوام کا حوالہ نہیں دینا۔ اگر دیوبندی کو بنانا ہے تو بریلوی علماءیہ بتائیں کہ دیوبندی کن کن غیر شرعی اعمال یا کُفریہ عقائد سے توبہ کرے اور وہ عقائد ان کی کس عالم کی کتابوں میں لکھے ہیں۔اہلحدیث جماعت بھی یہ بتائےکہ بریلوی اور دیوبندی خود بخود قرآن و احادیث پڑھ کر اہلحدیث بنے جائیں گے یا کسی امام کی پیروی کریں کرنا لازمی ہے۔ اگر کسی کی پیروی کی ضرورت نہیں تو سارے لبرل (liberal) عوام اپنے مطلب کی احادیث پڑھ رہی ہے تو کیا وہ بھی اہلحدیث ہے؟