Hazrat Ali R.A Par Sab o Sitam (حضرت علی پر سب و شتم گالیاں)

حضرت علی پر سب و شتم (گالیاں)

 

1۔ سیدنا عثمان کے دور میں، آپ کے خلاف پراپیگنڈا کرتے ہوئے، دوسرے شہروں سے باغی گروپ، دارالحکومت مدینہ منورہ میں داخل ہو کر، گھر کا محاصرہ کر کے، آپ کو شہید کر دیتا ہے۔ شہید کرنے والے کون اور ان کے مقاصد کیا تھے؟ ہمارے نزدیک یہ ایک مشترکہ قیصر و کسری و یہودی ممالک کا منظم گروپ تھا جس کا مقصد بغاوت سے دین اسلام کی بڑھتی ہوئی فتوحات کو روکنا اور مسلمانوں کو آپس میں لڑانا تھا جس میں وہ آجتک کامیاب ہیں۔
کیا سیدنا علی اس کیس کی تفشیش کر سکے تو کس کتاب میں لکھا ہے؟ کیا کسی گروپ نے شہید کرنے کی ذمہ داری لی؟ کیا قاتلوں کو پہچان کر کسی نے گواہی دی؟ اگر اُس وقت قاتل نہیں ملے تو اب کونسی کتابیں پڑھنے سے گواہ اور قاتل مل جائیں گے اور کس کو سزا دینا چاہتے ہو؟؟ بے وقوف عوام خود تفشیش کر کے مجرم پکڑ رہی ہے۔
2۔ قاتلین عثمان کے قصاص میں 36ھ میں سیدنا علی اور سیدہ عائشہ میں جمل کی لڑائی ہوتی ہے۔ کیا دونوں لڑنا چاہتے تھے یا لڑائے گئے؟ سیدنا طلحہ و زبیر عشرہ مبشرہ اور سیدہ عائشہ کون تھی؟ کیا اُس دور میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بے کار ہو چُکی تھی؟ المستدرک للحاکم 5578 سیدنا علی کے گروپ سے لڑنے والے نے جب سیدنا زبیر کا سر لا کرانعام چاہا تو سیدنا علی نے فرمایا کہ میرے نبی نے فرمایا کہ سیدنا زبیر کا قاتل جہنمی ہے۔
3۔ پھر دوسری لڑائی بھی قاتلین عثمان کے قصاص میں، 37ھ کوصفین کے مقام پر سیدنا امیر علی اور حضرت معاویہ کے درمیان ہوئی۔ سیدنا علی کے گروپ میں سیدنا عمار شامل تھے جو شہید ہو ہو گئے، صحیح بخاری 447 تمہیں اے عمار ایک باغی گروپ شہید کرے گا۔ اگر کوئی آج سیدنا معاویہ کو باغی کہے تو اُس نے سیدنا علی کی نافرمانی کی کیونکہ کیا سیدنا علی نے حدیث عمار سُنا کر سیدنا معاویہ کو باغی کہا؟؟
ہر گز نہیں بلکہ سیدنا علی سے جنگ صفین کے مقتولین کے بارے میں پوچھا گیا کہ انکا کیا حکم ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ہمارے اور ان کے مقتولین جنت میں جائیں گے، باقی یہ معاملہ میرا یا معاویہ کا ہے۔ (ابن ابی شیبہ ج 7 ص 552) اور جنت جمل کے مقتولین کو بھی سیدنا علی نے اپنا بھائی کہا (ابن ابی شیبہ ج 7، ص 535)
واقعہ تحکیم: صحیج بخاری 4108 کو غلط انداز میں بیان کیا جاتا ہے حالانکہ سیدنا عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں، جب سیدنا علی اور حضرت معاویہ کے درمیان تحکیم (معرکہ صفین میں صُلح کا فیصلہ) ہونا تھا، مجھے بلایا گیا، میں نے اپنی بہن سیدہ حفصہ سے مشورہ کر کے شرکت کی، جب میں وہاں گیا تو حضرت معاویہ نے تقریر کی اور کہا کہ اس معاملے کے ہم ہر شخص سے زیادہ حقدار ہیں اور اس کے باپ سے بھی زیادہ حقدار ہیں. ابن عمر کہتے ہیں کہ میں نے ارادہ کیا کہ میں جواب دوں کہ اس معاملے کا حقدار وہ ہے جس نے تجھ سے اور تیرے باپ سے اسلام کیلئے لڑائی کی (یعنی سیدنا علی)
نوٹ: اب یہاں سمجھنا ہے کہ وہ کونسا معاملہ ہے جس کے حقدار ہونے کا دعوی معاویہ رضی اللہ عنہ کررہے تھے؟ خلافت یا قصاصِ عثمان
علامہ عینی شرح بخاری میں لکھتے ہیں: سیدنا عمرو بن عاص نے کہا کہ میں حضرت معاویہ کو برقرار رکھتا ہوں کیونکہ وہ سیدنا عثمان کا ولی ہے، ان کے خون کا مطالبہ کرنے والا ہے اور اس معاملے (یعنی قصاص) کا زیادہ حقدار ہےتو سیدنا معاویہ نے تقریر کرکے کہا کہ جو اس قصاص کے معاملے میں ہم سے بحث کرنا چاہتے ہیں ہم اس میں ان سے زیادہ حقدار ہیں۔
علامہ جوینی کہتے ہیں: حضرت معاویہ نے اگرچہ سیدنا علی سے لڑائی کی لیکن انہوں نے کبھی بھی نہ ان کی خلافت کا انکار کیا اور نہ ہی کبھی اپنے لئے خلافت کا دعوی کیا، بس وہ تو حضرت عثمان کے قاتلوں کو چاہتے تھے اور یہی ان سے خطا ہوئی۔ (لمع الأدلة في عقائد أهل السنة للجويني، ص:115) ( الصواعق المحرقة، ص: 325)
*حضرت شاہ ولی اللہ نے لکھا: ابن عساکر نے روایت کی عروہ بن رویم سے کہا کہ ایک اعرابی نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور بولا کہ مجھ سے کُشتی لڑ۔ تو اس سے حضرت معاویہ نے کہا کہ میں تجھ سے کُشتی لڑتا ہوں تو نبی کریم ﷺ وسلم نے فرمایا کہ معاویہ کبھی مغلوب نہ ہو گا۔ چنانچہ معاویہ نے اعرابی کو پچھاڑ دیا تو جب یوم صفّین ہو چکا تو سیدنا علی نے (عروہ سے) کہا کہ اگر تو اس حدیث کو مجھ سے ذکر کر دیتا تو میں معاویہ سے جنگ نہ کرتا۔‘‘(ازالۃ الخفاء، جلد چہارم، ص 815)
* صِفِّین کے بعد سیدنا علی نے حضرت معاویہ کے بارے میں فرمایا: معاویہ کی حکومت کو ناپسند نہ کرو کہ اگر وہ تم میں نہ رہے تو تم سَروں کو کندھوں سے ایسے ڈھلکتے ہوئے دیکھو گے جیسےاندرائن پھل یعنی تم اپنے دشمن کے سامنے نہیں ٹھہر سکو گے۔(مصنف ابن ابی شیبہ،ج 8، ص724، رقم: 18)
نتیجہ: اگر کوئی حدیث کی شرح قانون و اصول کے خلاف اور اپنی مرضی کی کرے تو سمجھ لیں باغی گروپ میں سے ہے اور اس سے پوچھ لیں کہ تمہاری کونسی تفسیر اور کونسے محدثین کی شرح مانتے ہو؟
باغی گروپ: سیدنا عمرو بن عاس اور موسی اشعری کے فیصلے کے خلاف ایک باغی و خارجی گروپ اُٹھا اور یہی سیدنا عثمان، سیدنا عمار، سیدنا طلحہ و زبیر اور سارے مسائل کی جڑ یہی لوگ تھَے جن سے 38ھ میں نہروان کے قریب سیدنا علی کی لڑائی ہوئی اور سیدنا علی نے ان کو زندہ جلا دیا کیونکہ سیدنا علی زیادہ حق پر تھے۔
صحیح مسلم 2458 اور صحیح ابن حبان 6744 ”جب مسلمانوں کے درمیان اختلاف ہو جائے گا تو ان (مسلمانوں کی دونوں اختلاف کرنے والی جماعتوں) کے بیچ میں سے ایک گروہ نکلے گا اور اس گروہ کے ساتھ جو مسلمانوں کی جماعت لڑائی کرے گی وہ حق کے زیادہ قریب ہو گی“۔
صحیح ابن حبان 6749 نبی کریم ﷺ نے کچھ لوگوں کا تذکرہ کیا جو اس وقت پیدا ہوں گے جب لوگوں میں اختلاف ہو جائے گا، آپ ﷺ نے فرمایا ان کی نشاندہی ٹنڈ ہو گی وہ سب سے برے انسان ہیں یا وہ سب سے بری مخلوق ہیں (مسلمانوں کی) دو جماعتوں میں سے انہیں جو قتل کرے گا وہ حق کے زیادہ قریب ہو گا۔
شرح احادیث: امام نووی نے فرمایا: بیچ میں ہونے والے اختلاف سے مراد سیدنا علی اور معاویہ کا آپس کا اختلاف ہے اور جو گروہ ان کے بیچ سے نکلا وہ خارجی باغی گروہ ہے اور خوارج سے لڑائی سیدنا علی نے کی اسلئے سیدنا معاویہ سے زیادہ سیدنا علی حق پر ہیں۔ صحیح بخاری 3610 ”ابو سعید خدری فرماتے ہیں: میں گواہی دیتا ہوں کہ سیدنا علی نے (مسلمانوں کے بیچ سے نکلنے والے تیسرے گروہ خارجیوں) اس گروہ سے لڑائی کی اور میں ان کے ساتھ تھا“۔
صحیح بخاری 6875 ”دو مسلمان جب آپس میں تلواروں کے ساتھ لڑتے ہیں تو قاتل و مقتول دونوں جہنمی ہیں“ لیکن امام نووی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وہ خون جو صحابہ کے بیچ میں اختلافات کی وجہ سے بہے تھے، نبی کریم ﷺ کے اس وعید کے اندر داخل نہیں۔ اہلسنت اور اھل حق کا مذہب یہی ہے کہ ان کے بارے میں اچھا گمان رکھا جائے، اور جو ان کے بیچ میں اختلافات ہوئے اس حوالے سے خاموش رہا جائے، ان کے بیچ میں جو لڑائیاں ہوئیں تھیں اس حوالے سے (صحیح) توجیہ بیان کی جائے۔
بے شک وہ سارے کے سارے صحابہ مجتہد اور توجیہ کرنے والے تھے اور ان کا نافرمانی کا کوئی ارادہ نہیں تھا اور نہ ہی دنیا کی لالچ تھی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے ہر جماعت کا یہی خیال تھا کہ وہ حق پر ہیں اور اس کا مخالف باغی ہے اسلئے ان سے قتال کرنا واجب ہے تاکہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ کچھ ان میں سے درست تھے اور کچھ ان میں سے اجتہادی خطا کی وجہ سے معذور ہیں کیونکہ یہ غلطیاں اجتہاد کی وجہ سے صادر ہوئیں اور مجتہد جب اجتہاد کرتا ہے اس سے خطا صادر ہو جائے تو (پھر بھی اسے ثواب ملتا ہے) اور اسکی غلطی پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔ (شرح مسلم)
سب و شتم: مسلم 6220 کی سب و شتم والی روایت کو قانون و اصول سے ہٹ کر بیان کرتے ہیں حالانکہ حضرت معاویہ نے سیدنا سعد کو کہا: آپ کو اس سے کیا چیز روکتی ہے کہ آپ ابوتراب (سیدنا علی) کو (أَنْ تَسُبَّ أَبَا التُّرَابِ) برا کہیں۔ اُس پر انہوں نے بڑا پیارا جواب دیا۔ البتہ اگر عربی لفظ سب کا معنی گالی ہے تو پہلے چند صحیح احادیث میں جہاں عربی لفظ ”سب“ لکھا ہے اس کو پڑھ کر فیصلہ کرتے ہیں:
بخاری4033: سیدنا علی اور سیدنا عباس یعنی چچا اور بھتیجا دونوں سیدنا عمر کے پاس باغ فدک کا مسئلہ حل کروانے کے لئے تشریف لائے اور حدیث کے الفاظ ہیں (فاستب علی و عباس) یعنی سیدنا علی اور عباس ایک دوسرے پر ”سب“ کر رہے تھے۔
مسلم 5947: تبوک کے چشمے پر دو بندے پہلے پہنچے تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ تم نے اس کے پانی میں ہاتھ لگایا؟ انہوں نے کہا کہ ہاں، تو آپ ﷺ نے ان کو (فسبهما النبي ﷺ) ”سب“ کیا اور اللہ کریم کو جو منظور تھا وہ ان کو سنایا۔
تشریح: اگر سب کا معنی گالی نکالنا ہے تو پھر یہ الزام سیدنا علی و عباس اور حضور ﷺ پر بھی لگے گا اور جو لگائے گا وہ بے ایمان ہے۔ اسی طرح یہ لوگ بھی بے ایمان ہیں جو بغیر علم کے ”سب“ کا معنی گالی کر کے مسلمانوں کو صحابہ کرام کے خلاف کر کے گمراہ کر رہے ہیں۔ اب عربی لفظ”سب“ کا استعمال حدیث سے دیکھتے ہیں:
صحیح بخاری 2411: مسلمانوں میں سے ایک شخص اور یہودیوں میں سے ایک شخص نے ایک دوسرے کو (استب رجلان) ”سب“ کیا، اب وہ ”سب“ والے جملے کیا تھے؟ مسلمان نے کہاکہ مجھے اس ذات کی قسم ہے جس نے محمد ﷺ کو تمام جہانوں پر فضیلت دی ہے اور یہودی نے کہا کہ مجھے اس ذات کی قسم ہے جس نے موسی علیہ السلام کو تمام جہانوں پر فضیلت دی ہے۔ کیا ان جملوں کو کوئی مسلمان گالی کہہ سکتا ہے؟
حقیقت: اسلئے ان سب احادیث میں ”سب“ کا معنی تنقید کرنا اور دلائل کے ساتھ ایک دوسرے کا رد کرنا بنتا ہے۔ اسلئے مسلم 6220 کی شرح میں امام نووی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا: حضرت معاویہ نے سیدنا سعد سے کہا کہ کیا مسئلہ ہے کہ آپ سیدنا علی کی رائے اور اجتہاد کو خطاء قرار نہیں دیتے؟ اور لوگوں کے سامنے ہماری رائے اور اجتہاد کی اچھائی ظاہر نہیں کرتے؟ کیوں بیان نہیں کرتے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خطاء پر ہیں؟ اسلئے جب سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے جب انکار کر دیا تو حضرت معاویہ نے سیدنا سعد نہ کوئی سختی کی، نہ مجبور کیا بلکہ خاموش ہو گئے۔
سورہ حجرات 18: اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑپڑیں تو تم ان میں صلح کرادوپھر اگران میں سے ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو اس زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے پھر اگر وہ پلٹ آئے تو انصاف کے ساتھ ان میں صلح کروادو اور عدل کرو، بیشک اللہ عدل کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔
تاریخ: مسلمانوں کی تاریخ میں صحابہ کرام اور اہلبیت کی آپس میں دو لڑائیاں ہوئیں اور دونوں غلط فہمیوں کی وجہ سے ہوئی مگر اس سے غیر ملکی ایجنسیاں اور نام نہاد جاہل اہلسنت مسلمانوں نے اپنی بے وقوفی سے قانون و اصول کے خلاف باتیں کر کے امت کو نقصان پہنچایا۔ البتہ اہلسنت ہر حدیث کی شرح صحابہ کرام کے درجے دیکھ کر کرتی ہے لیکن تاریخ دیکھ کر نہیں۔

بے بنیاد مذہب اہلتشیع اور نام نہاد سنی علماء کہتے ہیں کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے گورنر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مسجدوں کے منبروں پر نعوذ باللہ”سب“ یعنی گالیاں نکالتے تھے جیسے :

مسلم 6220: حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کہا: آپ کو اس سے کیا چیز روکتی ہے کہ آپ ابوتراب(حضرت علی) کو (أَنْ تَسُبَّ أَبَا التُّرَابِ) برا کہیں۔ انھوں نے جواب دیا: جب تک مجھے وہ تین باتیں یاد ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے ان (حضر ت علی) سے کہی تھیں، میں ہرگز انھیں برا نہیں کہوں گا۔ ان میں سے کوئی ایک بات بھی میرے لئے ہوتو وہ مجھے سرخ اونٹوں سے زیادہ پسند ہوگی،

میں نے رسول اللہ ﷺ سے سناتھا،آپ ان سے (اس وقت) کہہ رہے تھے جب آپ ایک جنگ میں ان کو پیچھے چھوڑ کر جارہے تھے اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے کہا تھا: اللہ کےرسول ﷺ! آپ مجھے عورتوں اوربچوں میں پیچھے چھوڑ کرجارہے ہیں؟ تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: "تمھیں یہ پسند نہیں کہ تمھارا میرے ساتھ وہی مقام ہو جوحضرت ہارون علیہ السلام کاموسیٰ علیہ السلام کےساتھ تھا مگر یہ کہ میرے بعد نبوت نہیں ہے۔

"اسی طرح خیبر کے دن میں نے آپ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سناتھا: "اب میں جھنڈ ا اس شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ! سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول ﷺ اس سے محبت کرتے ہیں۔” کہا: پھر ہم نے اس بات (مصداق جاننے) کے لئے اپنی گردنیں اٹھا اٹھا کر(ہر طرف) دیکھا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: "علی کو میرے پاس بلاؤ۔” انھیں شدید آشوب چشم کی حالت میں لایا گیا۔ آپ نےان کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن لگایا اور جھنڈا انھیں عطافرمادیا۔ اللہ نے ان کے ہاتھ پر خیبر فتح کردیا اورجب یہ آیت اتری: "(تو آپ کہہ دیں: آؤ) ہم اپنے بیٹوں اور تمھارے بیٹوں کو بلالیں۔ "تورسول اللہﷺ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا اور فرمایا: "اے اللہ! یہ میرے گھر والے ہیں۔”

اگر عربی لفظ سب کا معنی گالی ہے تو پہلے چند صحیح احادیث میں جہاں عربی لفظ ”سب“ لکھا ہے اس کو پڑھ کر فیصلہ کرتے ہیں البتہ پوری حدیث کمنٹ سیکشن میں ہے:

بخاری4033: حضرت علی اور حضرت عباس رضی اللہ عنھما یعنی چچا اور بھتیجا دونوں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس باغ فدک کا مسئلہ حل کروانے کے لئے تشریف لائے اور حدیث کے الفاظ ہیں (فاستب علی و عباس) یعنی حضرت علی اور عباس رضی اللہ عنھما نے ایک دوسرے پر ”سب“ کیا۔

مسلم 5947: حضور ﷺ نے فرمایا کہ کل تم لوگ اگر اللہ تعالی نے چاہا تو تبوک کے چشمے پر پہنچو گے۔۔ اور جو کوئی تم میں سے اس چشمے کے پاس جائے تو اس کے پانی کو ہاتھ نہ لگائے جب تک میں نہ آؤں۔سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر ہم اس چشمے پر پہنچے تو اس سے پہلے دو آدمی پہنچ گئے تھے۔۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ تم نے اس کے پانی میں ہاتھ لگایا؟ انہوں نے کہا کہ ہاں، تو آپ ﷺ نے ان کو (فسبهما النبي ﷺ) ”سب“ کیا اور اللہ کریم کو جو منظور تھا وہ ان کو سنایا۔

بخاری 6361: نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ میں نے جس مومن کو بھی (اللهم فايما مؤمن سببته) ”سب“ کیا ہو، اس کے لئے کل قیامت والے دن اپنی قربت کا ذریعہ بنا دے“۔

تشریح: اگر سب کا معنی گالی نکالنا ہے تو پھر یہ الزام حضرت علی، عباس اور حضور ﷺ پر بھی لگے گا اور جو لگائے گا وہ بے ایمان ہے۔ اسی طرح یہ لوگ بھی بے ایمان ہیں جو بغیر علم کے ”سب“ کا معنی گالی کر کے مسلمانوں کو صحابہ کرام کے خلاف کر کے گمراہ کر رہے ہیں۔ اب عربی لفظ”سب“ کا استعمال حدیث سے دیکھتے ہیں:

بخاری 2411: میں ہے کہ مسلمانوں میں سے ایک شخص اور یہودیوں میں سے ایک شخص نے ایک دوسرے کو (استب رجلان) ”سب“ کیا، اب وہ ”سب“ والے جملے کیا تھے؟ مسلمان نے کہاکہ مجھے اس ذات کی قسم ہے جس نے محمد ﷺ کو تمام جہانوں پر فضیلت دی ہے اور یہودی نے کہا کہ مجھے اس ذات کی قسم ہے جس نے موسی علیہ السلام کو تمام جہانوں پر فضیلت دی ہے۔ کیا ان جملوں کو کوئی مسلمان گالی کہہ سکتا ہے؟

نتیجہ: اسلئے ان سب احادیث میں ”سب“ کا معنی تنقید کرنا اور دلائل کے ساتھ ایک دوسرے کا رد کرنا بنتا ہے۔ اسلئے مسلم 6220 کی شرح اسطرح اہلسنت علماء کرتے ہیں:

1۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ، سعد رضی اللہ عنہ سے کہنا چاہتے تھے کہ آپ بھی یہ موقف بیان کریں کہ قصاص حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سلسلہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اجتہاد ٹھیک نہیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا رد یعنی سب کریں۔

2۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے جو فضائل بتائے ان میں یہ بھی تھا کہ حضور ﷺ نے انہیں ہارون علیہ اسلام کی جگہ دی، جس کا مطلب ہے کہ وہ بلند پائے کے عالم ہیں ان کا اجتہاد غلط نہیں ہو سکتا جیسا کہ امام نووی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا: معاویہ نے سعد رضی اللہ عنھما سے کہا کہ کیا مسئلہ ہے کہ آپ علی رضی اللہ عنہ کی رائے اور اجتہاد کو خطاء قرار نہیں دیتے؟ اور لوگوں کے سامنے ہماری رائے اور اجتہاد کی اچھائی ظاہر نہیں کرتے؟ کیوں بیان نہیں کرتے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خطاء پر ہیں؟

3۔ امام نووی فرماتے ہیں: معاویہ رضی اللہ عنہ کے اس فرمان میں کوئی وضاحت نہیں کہ انہوں نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنے کا حکم دیا تھا بلکہ پوچھا تھا کہ آپ تنقید کیوں نہیں کرتے؟ کیا آپ خوف اور ڈر کی وجہ سے تنقید نہیں کرتے یا توریہ کے طور پر نہیں کرتے؟ یا کوئی دوسرا مسئلہ ہے۔ اگر آپ علی رضی اللہ عنہ کی عزت کی وجہ سے اور احتیاطاً تنقید نہیں کرتے تو آپ درست اور اچھا کرنے والے ہیں، اگر یہ نہیں تو جواب دوسرا ہو گا۔

4۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ پر تنقید یعنی علمی رد کا حکم دیا لیکن حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے جب انکار کر دیا تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ پر کوئی سختی نہیں کی اور نہ ہی مجبور کیا بلکہ خاموش ہو گئے۔

5۔ اس روایت سے یہ بھی علم ہوا کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ ان لوگوں کے بیچ میں موجود تھے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ پر تنقید کر رہے تھے جبکہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ تنقید نہیں کر رہے تھے اور ان پر رد کرنے سے عاجز تھے جس پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے پوچھ لیا آپ کیوں نہیں تنقید کر رہے؟ تو اس پر حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ان تنقید کرنے والوں پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل بیان کرنے شروع کر دئے۔

6۔ بالفرض ”سب“ کا معنی گالیاں لیں تو کیا ہم جنتی شہزادوں حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنھما اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دوسرے بیٹوں سے یہ امیدکر سکتے ہیں کہ وہ خاموشی سے سنتے تھے اور کوئی رد نہیں کیا اور بعد میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنھما کے ہاتھ پر بیعت بھی کر لی۔

نتیجہ: اہلسنت کا یہ عقیدہ ہے کہ صحابہ کرام اور اہلبیت جنتی ہیں، اسلئے صحابہ کرام کے صحابہ کرام کے ساتھ معاملات، صحابہ کرام کے اہلبیت کے ساتھ مسائل اور اہلبیت کے اہلبیت کے ساتھ اختلافات پر خاموشی اختیار کرنی ہے۔عام عوام کو یہ احادیث نہیں سنانی چاہئیں اور اگر کوئی سنارہے ہیں تو پھر عوام کواصل حققیت سمجھا کر بتانا چاہئے کہ اصل حقائق یہ ہیں:

اہلسنت: اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) نسل در نسل خلافت عثمانیہ، چار مصلے والے ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا۔ اب سعودی عرب کے وہابی علماء کے ساتھ جو ہے وہ وہابی اور خارجی ہے کیونکہ اہلسنت کو بدعتی و مشرک کہتا ہے۔ دیوبندی اور بریلوی خلافت عثمانیہ والے ہیں جن کا آپس میں اختلاف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کا ہے۔

رافضیت: اہلتشیع بے بنیاد مذہب اسلئے ہے کہ قرآن و سنت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ اہلتشیع کا تعلق نہ تو صحابہ کرام سے ہے جنہوں نے قرآن اکٹھا کیا اور نہ ہی اہلبیت (حضرات علی، فاطمہ، حسن و حسین و دیگرامام) کا تعلق ان کتابوں (الکافی، من لا یحضرہ الفقیہ، تہذیب الاحکام، استبصار) اور اہلتشیع علماء (زرارہ، ابوبصیر، محمد بن مسلم، جابر بن یزید، ابوبریدہ) سے ہے، اسلئے اہلتشیع ختم نبوت کے منکراور ڈپلیکیٹ علی کے حوالے سے اپنے دین کی عمارت بے بنیاد بنا کر بیٹھے ہیں۔

نقصان: سعودی عرب کی وجہ سے اہلسنت کا نقصان ہوا اور اب بہت سے علماء رافضی بن رہے ہیں اور ہم خوش ہو رہے ہیں اور بہت سے علماء وہابی علماء کے ساتھ ملکر اہلسنت کو بدعتی و مشرک کہہ رہے ہیں۔ کوئی خوف خدا نہیں اور کوئی شرم نہیں۔ اہلسنت چار مصلے، اجماع امت، اہلسنت اہلسنت ہیں۔

آخری بات: ترمذی 3842 نبی اکرم ﷺ نے سیدنا معاویہ کو یہ دُعا دی: ”اے اللہ! تو ان کو ہدایت دے اور ہدایت یافتہ بنا دے، اور ان کے ذریعہ لوگوں کو ہدایت دے“۔ کیا ایسا غلام اہلبیت کو گالیاں دے گا نعوذ باللہ۔ صحیح بخاری 447، حدیث عمارکو گھما کر سیدنا معاویہ کے خلاف سُنانے والے کبھی صحیح بخاری 2924، 2799، 2800، 6282، 6283 میں اللہ کی راہ میں بحری بیڑے میں سیدنا معاویہ کو بھی شامل کر لیا کریں۔
خلاصہ کلام: مشاجراتِ صحابہ (یعنی صحابہ کرام کے اختلافات اور لڑائیاں) ایک بہت ہی نازک معاملہ ہے، اس معاملے میں جس قدر احتیاط کی جائے وہی بہتر ہے کہ اس نازک موضوع کو چھیڑ کر کسی ایک صحابی کو مجرم قرار ہر گز نہ دیا جائے۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ پھر یہ سب کچھ احادیث میں کیوں آیا تو جناب محدثین کا کام احادیث اکٹھا کرنا تھا اور مجتہدین کا کام سمجھانا تھا نہ کہ عوام کو آپس میں لڑانا۔
حل: باغی گروپ کو ختم کرنا ہو تو صرف ڈاکٹر طاہرالقادری، حنیف قریشی، مرزا انجینئر، پیر حضرات سے سوال پوچھ لیں کہ کیا صحابہ کرام کو چھوڑ کر پنجتن کو ماننے والوں کا اسلام سے کوئی تعلق ہے؟ کیا اہلتشیع حضرات کا چودہ معصوم اور بارہ امام کا عقیدہ جھوٹا نہیں؟ کیا ان کے پاس پنجتن کی کوئی احادیث ہیں؟ کیا انہوں نے اہلسنت کی کتابوں سے احادیث چوری کر کے ، راوی و سند و متن بدل کر ، امام جعفر سے تین لاکھ روایات منسوب کر کے اسلام کے خلاف ایک نیا دین نہیں بنایا۔
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general