Imamat Abu Bakr R.A (امامت ابوبکر رضی اللہ عنہ)

امامت ابوبکر رضی اللہ عنہ

ساری دُنیا کے مسلمانوں کو علم ہے کہ ”امامت ابوبکر“ رضی اللہ عنہ قرآن و سنت سے ثابت ہے کیونکہ تمام صحابہ کرام اور اہلبیت کے متفقہ امام حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔ اگر یہ خلافت قرآن و سنت کے خلاف ہوتی توحضرت علی رضی اللہ عنھم سمیت کوئی بھی صحابی اس کے خلاف خروج کرتا مگر ایسا نہیں ہوا۔اس کا جواب بھی نہیں دیتے کہ اپنی کتابوں میں اہلتشیع نے یہ کیوں لکھا ہے:

۱)حضرت علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کو سب لوگوں سے زیادہ خلافت کا حقدار سمجھتے ہیں کیونکہ حضرت ابوبکر، آپ ﷺ کے ساتھی، ثانی اثنین اور حضور ﷺ نے اپنی حیات ظاہری میں ان کو نماز پڑھانے کا حکم فرمایا (شرح نہج البلاغہ ابن حدید شیعی جلد اول، ص 332)

پوری نہج البلاغہ میں حضرت علی اور امام حسن و حسین رضی اللہ عنھماکا کہیں بھی قول نہیں ملتا کہ ہم اللہ تعالی کی طرف سے منصوص امام ہیں اسلئے ”امامت“ اصول دین سے ہے، جو ہمیں امام نہ مانے وہ کافر ہو گیااور ہم اس کے خلاف جہاد کریں گے۔البتہ اپنے اپنے دور میں سب نے خلافت کے لئے کوشش ضرور کی۔ اس خلافت و امامت کے اختلاف کی وجہ سے اہلتشیع کے ثانیہ، زیدیہ، امامیہ، غالی، اسماعیلیہ، کسانیہ فرقے وجود میں آئے۔

۲) حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: ان خیر ہذہ الامۃ بعد نبیہا ابوبکر و عمر یعنی اس امت میں حضور ﷺ کے بعد سب سے بہتر حضرت ابوبکر و عمر (رضی اللہ عنھم) ہیں (کتاب الشافی، جلد دوم، ص 428) حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اُن (یعنی ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما) کی خلافت کو تسلیم کر لیا تھا اور اس پر راضی ہو گئے تھے۔۔اسلئے ابوبکر کی ولایت راشدہ اور ھادیہ بن گئی (کتاب فرق الشیعہ ص 31 & 32محمد بن حسن نو بختی)

۳) حضرت علی علیہ السلام نے ابوبکر و عمر کے بارے میں فرمایا: انہما امام الہدی و شیخا الاسلام والمقتدی بہما بعد رسول اللہ و من اقتدی بہما عصم یعنی یہ حضرت ابوبکر و عمر دونوں ہدایت کے امام اور شیخ الاسلام اور حضور ﷺ کے بعد مقتدٰی ہیں اور جس نے ان کی پیروی کی، وہ برائی سے بچ گیا (تلخیص الشافی للطوسی جلد 2، ص 428)

۴) حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ان ابابکر منی بمنزلہ السمع و ان عمر منی بمنزلہ البصر یعنی بے شک ابوبکر مجھ سے ایسے ہیں جیسے میرے کان اور عمر مجھ سے ایسے ہیں جیسے میری آنکھ (عیون اخبار الرضا قمی، ص 110، تفسیر حسن عسکری)

۵)حضرت علی علیہ السلام نے کوفہ کے منبر پر ارشاد فرمایا: لئن اوتیت برجل یفضلنی علی ابی بکر و عمر الا جلدتہ حد المفتری یعنی اگر ایسا شخص میرے پاس لایا گیا جو مجھے حضرت ابوبکر و عمرپر فضیلت دیتا ہو گا تو میں اس پر مفتری کی حد جاری کروں گا (رجال کشی ترجمہ رقم (257) معجم الخونی جلد ص 153)

۶) سفیان ثوری الرحمہ حضرت محمد بن سکندر سے روایت کرتے ہیں کہ انہ رای علیا (علیہ السلام) علی منبر بالکوفہ وہو یقول لئن اوتیت برجل یفضلنی علی ابی بکر و عمر لا جلدنہ حد المفتری ترجمہ: انہوں نے حضرت علی کو کوفہ کے منبر پر بیٹھے ہوئے دیکھا اور وہ فرما رہے تھے اگر میرے پاس کوئی ایسا آدمی آئے جو مجھے ابوبکر اور عمر پر فضیلت دیتا ہو تو میں اس کو ضرور درے لگاؤں گا جو کہ مفتری کی حد ہے (رجال کشی، ص 338، سطر 4 تا 6، مطبوعہ کربلا)

۷)شیعہ عالم تفسیر مجمع البیان، جلد 8، ص498، سطر18 – 19مطبوعہ بیروت میں فرماتے ہیں کہ الذی جاء بالصدق رسول اللہ ﷺ و صدق بہ ابوبکر ترجمہ: جو صدق لے کر آئے، وہ رسول اللہ ﷺ ہیں اور جس نے ان کی تصدیق کی وہ ابوبکر (رضی اللہ عنہ) ہیں۔

۸) مستند مفسر اہلتشیع شیخ ابو علی الفضل بن الحسن الطبرسی لکھتے ہیں کہ سورہ نور کی یہ آیت”اور قسم نہ کھائیں وہ جو تم میں فضیلت والے اور گنجائش والے ہیں، قرابت والوں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو دینے کی“ حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) اور مسطح بن اثاثہ (رضی اللہ عنہ) کی شان میں نازل ہوئی ہے، عبارت یہ ہے ان قولہ لا یاتل اولوا الفضل منکم الایہ نزلت فی ابی بکر و مسطح بن اثاثہ (تفسیر مجمع البیان جلد 7، ص 133، مطبوعہ بیروت)

۹) سورہ توبہ آیت 100 کی تشریح میں شیعہ مفسر شیخ ابو علی الفضل بن الحسن الطبرسی لکھتے ہیں کہ ”ان اول من اسلم بعد خدیجتہ ابوبکر“ تحقیق حضرت خدیجہ (رضی اللہ عنھا) کے بعد سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے حضرت ابوبکر ہیں (تفسیر مجمع البیان، جلد 5، ص 65، سطر 21، مطبوعہ بیروت)۔

۱۰) قال امیر المومنین و من لم یقل انی رابع الخلفاء فعلیہ لعنتہ اللہ (مناقب علامہ ابن شہر آشوب سوم، 63) ترجمہ: حضرت امیر المومنین رضی اللہ عنہ نے فرمایا جو مجھے ”رابع الخلفاء“ یعنی چوتھا خلیفہ نہ کہے اس پر اللہ تعالی کی لعنت ہے(کیونکہ آپ خود کو چوتھا خلیفہ قرار دیتے تھے)۔

۱۱) اہلتشیع کی تفسیر صافی اور تفسیر قمی میں اس آیت: و اذا اسری النبی الی بعض زواجہ حدیثا جب نبی ﷺ نے اپنی کسی بیوی سے ایک روز راز کی بات کی“ کے شان نزول میں لکھا ہے کہ جس دن سیدہ حفصہ (رضی اللہ عنھا) کی باری تھی، ان کے گھر اس وقت وہاں ”ماریہ قبطیہ“ بھی موجود تھیں۔ اتفاقاً سیدہ حفصہ کسی کام سے باہر گئیں تو حضورﷺ نے ماریہ قبطیہ سے صحبت فرمائی۔ حضرت حفصہ کو اس بات کا علم ہوا تو وہ ناراضگی سے آپ کے پاس حاضر ہوئیں اور عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ نے میرے گھر میں اور پھر میری باری میں ماریہ قبطیہ سے صحبت کیوں فرمائی۔
اس کے جواب میں حضور ﷺ نے سیدہ حفصہ کو راضی کرنے کے لئے یہ فرمایا: ایک تو میں نے ماریہ قبطیہ کو اپنے نفس پر حرام کیا اور آئندہ اس سے کبھی صحبت نہیں کروں گا اور دوسرا میں تجھے ایک راز کی بات بتاتا ہوں۔ اگر تو نے اس راز کو ظاہر کرنے کی کوشش کی تو تیرے لئے اچھا نہیں ہو گا۔ سیدہ حفصہ نے عرض کی ٹھیک ہے:
آپ ﷺ نے فرمایا: میرے بعد بے شک ابوبکر خلیفہ ہوں گے، پھر ان کے بعد تیرے والد بزرگوار اس منصب پر فائز ہوں گے۔ اس پر سیدہ حفصہ نے عرض کی کہ آپ کو یہ خبر کس نے دی؟ آپ ﷺ نے فرمایا یہ خبر مجھے اللہ علیم و خبیر نے دی (تفسیر صافی ص 714، تفسیر قمی ص 457، سورہ تحریم)

۱۲) مسجد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضور ﷺ کے وصال کے بعد آیت کریمہ الذین کفروا صدوا عن سبیل اللہ اضل اعمالھم کی تلاوت کی تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما نے تلاوت کی وجہ دریافت فرمائی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ جو تمہیں رسول دیں وہ لے لو جس سے منع کریں اس سے رک جاؤ، تم گواہ ہو جاؤ کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنا خلیفہ بنایا ہے (تفسیر صافی جلد 2صفحہ 561، تفسیر قمی جلد 2ص301) یہ دیکھ کر کے کہیں فتنہ نہ پیدا ہو جائے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر ان کی بیعت کر لی۔۔ (شیخ علی البحرانی ”منار الہدی ص 685)اور جب ان سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کی بیعت کرنے کا سبب معلوم کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ اگر ہم ابوبکر کو خلافت کا اہل نہ سمجھتے تو ہم اسے خلیفہ نہ بننے دیتے (شرح نہج البلاغہ 2/45)

نتیجہ: اگر اہلتشیع یہ حوالے درست مان لیتے ہیں تو امامت کے مسئلے میں جتنی کتابیں ہیں جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بلا فصل ماننا، امام کا معصوم ہونا، خلافت کا منصوص من اللہ ہونا، تینوں خلفاء کرام کو نعوذ باللہ ظالم کہنا سب باطل ہے۔اس کے علاوہ کوئی ایک صحابی شیعہ دکھا دیں جس کا عقیدہ تقیہ، بدا، بارہ امام کو معصوم ماننا، صحابہ کرام کو گالیاں دینے کا تھا۔

مسلمان قرآن و سنت پر ایمان رکھنے سے بنتا ہے اور اہلتشیع کے علماء (زرارہ، ابوبصیر، محمد بن مسلم، جابر بن یزید، ابوبریدہ) اور بنیادی صحیح کتب (الکافی، من لا یحضر الفقیہ، تہذیب الاحکام، استبصار) کا سماع حضور ﷺ، حضرت علی، حسن و حسین وجعفر صادق و دیگر امام کے ساتھ ثابت نہیں ہے، اسلئے ان کی کتابیں سب منگھڑت ہیں اور اہلسنت کی کتابوں کو یہ مانتے نہیں تو پھر کون ہیں اہلتشیع؟

دیوبندی، اہلحدیث، سلفی، توحیدی، محمدی، وہابی ایک فیصلہ کر کے بتا دیں کہ سعودی عرب کے وہابی علماء کے عقائد پر اکٹھا ہونا ہے تو ایک عقائد کی کتاب اور صحیح احادیث پر اکٹھے ہو جائیں۔بریلوی دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کا اصولی اختلاف ضرور بتائیں مگر سارے کے سارے بریلوی چار مصلے اجماع امت اہلسنت کا نعرہ لگا کر بتائیں کہ اتحاد امت خلافت عثمانیہ کے متفقہ عقائد پر ہو گا ورنہ رافضیت پھیلانے میں دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث سب شامل ہیں۔

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general