نسب رسول اللہ ﷺ
خاندانی سلسلے کو نسب کہتے ہیں اور حضور ﷺ کا خاندانی سلسلہ کتابوں میں اسطرح ہے:
محمد ﷺ بن عبدﷲ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قُصی بن کِلاب بن مُرَّہ بن کعب بن لُوی بن غالب بن فِہر بن مالک بن نَضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان۔ (طبقات الکبریٰ، جلد 1، صفحہ 64، کتاب المعارف، صفحہ 52)
عبد مناف بن قصی کی اولاد
عبد مناف بن قصی کی اولاد میں چھے بیٹے (1) مطلب (2) ہاشم (3) عبد شمس (4) نوفل (5) ابو عمرو (6) ابو عبیدہ اور چھے بیٹیاں (1) تماضر (2) حَنَّہ (3) قلابہ (4) برّہ (5) ہالہ (6) زیطہ تھیں۔ ان چھے بیٹوں میں دو (1) ہاشم (2) عبد شمس زیادہ مشہور ہوئے۔
1) ہاشم بن عبد مناف کی اولاد
ہاشم حضور ﷺ کے پردادا ہیں جن کے چار بیٹے (1) عبدالمطلب (2) ابی صیفی (3) اسد (4) نفلہ اور پانچ بیٹیاں (1) شقاء (2) رقیہ (3) ضعیفہ (4) خالدہ (5) حَنّہ تھیں۔ ہاشم کی نسل صرف عبدالمطلب سے چلی۔ (فتح الملہم، جلد 3 صفحہ 99۔ ابن سعد جلد 1 صفحہ 94)
2) عبد شمس بن عبد مناف کی اولاد
عبد شمس بن عبد مناف کی اولاد میں سات بیٹے (1) حبیب (2) اُمیہ الاکبر (3) اُمیہ الاصغر (4) عبد اُمیہ (5) نوفل (6) عبدالعزیٰ (7) عبدﷲ الاعرج تھے۔
ایک لڑی: بنو ہاشم اور بنو اُمیہ قریش ہی کے دو اہم اور معزز برادر قبیلے تھے۔ جن کی اسلام سے پہلے اور بعد میں آپس میں کئی رشتہ داریاں تھیں۔ ہاشم کی اولاد میں عبدالمطلب، عبدﷲ، حمزہ، عباس، زبیر، ابو طالب، ابو لہب، حارث شامل ہیں۔ اولاد عبد شمس میں، اولادِ بنو اُمیہ ابو سفیان، معاویہ، دامادِ رسول ﷺ ابو العاص بن ربیع، دامادِ رسول ﷺ عثمانِ غنی، مروان بن حکم، عبدﷲ بن عامر بن کریز، عبدالرحمن بن سمرہ، عبدﷲ بن عثمان غنی (نواسۂ رسولﷺ)، علی بن ابو العاص، (نواسۂ رسول ﷺ، شہیدِ یرموک، ردیفِ رسول فتح مکہ) (الاصابہ، ابن حجر عسقلانی جلد 2، صفحہ 510، تحت علی ابن ابو العاص) شامل ہیں۔
اولادِ عبدالمطلب:
دس بیٹے (1) حارث (2) زبیر (3) ابو طالب عبد مناف (4) عبدﷲ (5) ابو لہب (6) حجل (مغیرہ) (7) حمزہ (8) ضرار (9) عباس (10)غیداق اور چھ بیٹیاں (1) بَرّہ زوجہ عبدالاسد بن ہلال بن عبدﷲ بن عمرو بن مخزوم (2) اُم حکیم البیضاء زوجہ کریز بن ربیعہ بن حبیب بن عبد شمس عثمان ذوالنورین دامادِ رسول کی نانی اماں (3) اُمیمہ زوجہ جحش بن رئاب بن یعمراز بنی اسد بن خزیمہ (4) عاتکہ بنت عبدالمطلب ابی اُمیہ بن مغیرہ بن عبدﷲ بن عمرو بن مخزوم کی زوجہ (5) ارویٰ کا نکاح عمیر بن وہب بن عبد بن قصی سے ہوئی، جس سے طُلَیب پیدا ہوئے، اوّلین مہاجرین اور اجنادین میں شہید ہوئے (6) صفیہ بنت عبدالمطلب کی شادی عوام بن خویلد بن اسد بن عبدالعزیٰ سے ہوئی جس سے حواری رسول ﷺ زبیر پیدا ہوئے۔ ابن سعد کی روایت کے مطابق عبدالمطلب کی تین بیٹیوں نے اسلام قبول کیا ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیےطبقات ابن سعد جلد 1، نسب قریش صفحہ 17۔ المعارف ابن قتیبہ صفحہ 52) عبد المطلب کی نسل پانچ بیٹوں (1) عبدﷲ (2) حارث (3) زبیر (4) ابو طالب (5) عباس سے چلی۔
اولادِ حارث بن عبدالمطلب
چار بیٹے (1) نوفل (2) عبدﷲ (3) ربیعہ (4)ابو سفیان مغیرہ
اولادِ زبیر بن عبدالمطلب
ایک بیٹے عبدﷲ صحابی اور دو بیٹیاں ضباعہ اور اُم حکیم صحابیات میں شامل ہیں۔
اولادِ سید الشہداء حمزہ بن عبدالمطلب
دو بیٹے (1) عمارہ (2) یعلی اور دو بیٹیاں (1) امُ الفضل (2) اُمامہ
عمارہ بن حمزہ کا ایک لڑکا حمزہ اور یعلیٰ بن حمزہ کے پانچ بیٹے ہوئے مگر ان کی نسل آگے نہ چلی۔
اولادِ عباس بن عبدالمطلب
یہ عمر میں نبی ﷺ سے دو سال بڑے تھے۔ 32ھ میں وفات پائی، سیدنا عثمان غنی نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئے۔ اولاد میں دس بیٹے (1) فضل متوفی 18ھ، شام (2) عبدﷲ، متوفی67ھ (3) عبیدﷲ (4)معید (5) قثم (6) عبدالرحمن (7) عون (8) تمام (9) کثیر (10) حارث کی نسل موجود ہے۔ تین بیٹیاں تھیں: (1) اُم حبیب (2) صفیہ (3) آمنہ۔
اُمّ کلثوم بنت فضل پہلا نکاح سیدنا حسن بن علی سے ہوا، اس کے بعد ابو موسیٰ اشعری رضی ﷲ عنہ سے ہوا۔ (کتاب المعارف صفحہ 53۔ نسب قریش صفحہ 25، 38۔ جمہرۃ الانساب صفحہ 18)
اولادِ ابو طالب
چار بیٹے (1) طالب (2) عقیل (3) جعفر (4) سیدنا علی اور دو بیٹیاں (1) اُمّ ہانی (2) جمانہ۔ تین بیٹوں (1) عقیل (2) جعفر اور علی رضی اللہ عنھم سے ابوطالب کی نسل جاری ہوئی۔
اولادِ عقیل رضی ﷲ عنہ
یہ طالب سے چھوٹے تھے، ان کی کنیت ابو یزید تھی۔ یہ غزوۂ بدر میں گرفتار ہوئے، حضرت عباس رضی ﷲ عنہ نے ان کا فدیہ دیا، فتح مکہ کے وقت ایمان لائے۔ تاریخ البخاری الاصغر میں ہے کہ عقیل رضی ﷲ عنہ کی وفات یزید کی حکومت کے زمانہ میں بعمر 94 برس ہوئی۔ اولاد میں 13 بیٹے (1) مسلم (2) عبدﷲ (3) محمد (4) عبیدﷲ (5) عبدالرحمن (6) حمزہ (7) علی (8) جعفر (9) عثمان (10) یزید (11) سعد (12) جعفر اکبر (13) ابو سعید اور چار بیٹیاں (1) رملہ (2) زینب (3) اسماء (4) اُم ہانی تھیں۔ (کتاب المعارف صفحہ 87، 88۔ نسب قریش صفحہ 84۔ تنبیہ والاشراف صفحہ 162)
اولادِ جعفر رضی ﷲ عنہ
سات بیٹے (1) عبدﷲ (2) عون (3) محمد اکبر، ان کی ماں اسماء بنت عمیس رضی ﷲ عنہا تھیں۔ (4) محمد اصغر (5) حمید (6) حسین (7) عبدﷲ اصغر(نبی کا گھرانہ صفحہ 123) لیکن نسل صرف عبدﷲ اکبر سے چلی۔ عون تستر میں اور محمد اکبر صفین میں شہید ہوئے۔ (انساب الاشراف، تنبیہ والاشراف، مسعودی 162)
اولادِ عبدﷲ بن جعفر
عبدﷲ بن جعفر، سیدنا علی کے داماد تھے۔ سیدہ زینب بنت علی آپ کی زوجہ محترمہ تھیں۔ ان سے (1) جعفر اکبر (2) علی (3) عون اکبر (4) عباس (1) اُم کلثوم یہ لا ولد تھی۔ اس اُمّ کلثوم کی شادی ابان بن عثمان بن عفان سے ہوئی۔ (کتاب المعارف ابن قتیبہ صفحہ 90)
عبدﷲ بن جعفر کے اٹھارہ بیٹے اور تین بٹیاں تھیں، دیگر اولاد میں (5) محمد (6) عبید ﷲ (7) ابوبکر (8)صالح (9) موسیٰ (10) ہارون (11) یحییٰ (12) معاویہ (13) اسحاق (14) اسماعیل (15) قاسم (16) حسن (17) عون الاصغر (18) عدی۔ بیٹیاں (2) اُمّ محمد، (3) اُمِ ابیہا۔ ان کی ماں لیلیٰ بنت مسعود بن خالد نہشلی تھیں۔ اُمّ محمد بنت عبدﷲ جعفر کا نکاح یزید بن معاویہ سے ہوا۔ (نسب قریش صفحہ 83) اور اُمّ ابیہا عبدالملک بن مروان کی بیوی تھی۔ (نسب قریش صفحہ 113)
عبدﷲ بن جعفر کے ایک بیٹے علی جو سیدہ زینب بنت علی کے بطن سے تھے، اس کے بیٹے محمد کی بیٹی (یعنی عبدﷲ بن جعفر کی پوتی ربیحہ بنت محمد بن علی کی دو مرتبہ شادی بنو مروان میں ہوئی، پہلی مرتبہ یزید بن ولید بن یزید بن عبدالملک بن مروان سے، اس کے بعد بکار بن عبدالملک بن مروان سے۔ (کتاب المحبر صفحہ 440) عبدﷲ بن جعفر 80ھ میں عبدالملک بن مروان کی خلافت کے زمانے میں 90 برس کی عمر میں فوت ہوئے، والی مدینہ ابان بن عثمان بن عفان نے نمازِ جنازہ پڑھائی۔ (نسب قریش صفحہ 82)
اولادِ علی رضی ﷲ عنہ
9 ازواج اور مختلف لونڈیوں سے آپ کے 18 بیٹے اور 18 بیٹیاں تھیں۔ 18 بیٹوں میں سے 7 والد کے سامنے فوت ہو گئے، باقی گیارہ میں سے 6 کربلا میں شہید ہوئے، اس وقت 6 بیٹوں (1) حسن (2) حسین (3) محمد ابن حنفیہ (4) عباس (5) عمر اطرف رضی ﷲ عنہا کی نسل موجود ہے۔ آپ کی ازواج و اولاد کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
ازواج میں: (1) سیدہ فاطمہ بنت محمد ﷺ سے (1) حسن (2) حسین (3) محسن بچپن میں فوت ہوئے۔ بیٹیوں میں (1) زینب الکبریٰ زوجہ عبدﷲ بن جعفر (2) اُمّ کلثوم زوجہ عمر بن خطاب دیکھیے۔ نکاح اُم کلثوم کے لیے (کتاب المعارف۔ تاریخ طراز مذہب 47، 67) باب تزوج ام کلثوم ہمراہ عمر الخطاب (3) انوار النعمانیہ ج1، ص 125 (4) ناسخ التواریخ ج 2، وقائع عمر بن خطاب ص 329 (5) شرائع الاسلام، باب الکفو (6) مجالس المؤمنین از شوستری طبع ایران، ص 89 (7) تہذیب الاحکام ج 2، ص 385، کتاب الجنائز (8) الاستبصار، کتاب الطلاق، باب العدۃ، ص 185۔ 184 (9) فروع کافی ج 2 ص 141 (10) الشافی شریف مرتضیٰ، مطبوعہ: ایران، ص 431۔ 354 (11) تحفۃ العوام، ص 345 (12) منتہی الآمال، ج 1 ص 170 (13) مصائب النواصب، شوستری (14) کتاب الشہادت از موسوی، ص 398 (15) رسائل شیعہ فی تحصیل احکام الشرعیہ، ج 1 ص 154 (16) من لا یحضرہ الفقہ ص 378 (۱۷) تہذیب احکام، ج 2، ص 242۔238۔ باب العدۃ المتوفی عنہا زوجہا (18) منتخب التواریخ ص 20 (19) نسب قریش، ص 41 (20) جمہرۃ الانساب، ص 38 (21) کتاب المعارف، ص 79۔ 80 (22) کتاب المحبر، ص 537 (23) البدایہ والنہایہ، ج 8، ص 381، تحت ازواج و اولاد عمر (24) سنن نسائی مجتبیٰ، ج 1، ص 201 (25) سنن ابو داؤد، ج 2، ص 40 (26) مصنف ابن ابی شیبہ، ج 4، ص 142 (27) سنن کبریٰ بیہقی، ج 4، ص 380 (28) سنن دار قطنی ص 194 (29) علامہ نووی، المجموعہ، ج 5، ص 234 (30) تاریخ مسعودی
حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی دیگر ازواج میں خولہ بنت جعفر بن قیس حنفیہ سے (2) محمد حنفیہ پیدا ہوئے۔ (3) الصہباء اُم حبیب بنت ربیعہ سے عمر اور رقیہ پیدا ہوئے۔ (4) اُمّ البنین بنت حزام بن خالد بن ربیعہ سے عمر، عباس، جعفر، عبیدﷲ، عثمان پیدا ہوئے۔ (اہل بیت رسول کون، ص 118) (5) اسماء بنت عمیس سے یحییٰ ، عون، محمد پیدا ہوئے۔ (الاسماء والمصاھرات بین اھل البیت والصحابہ، ص 178) (6) لیلیٰ بنت مسعود سے عبدﷲ، محمد الاصغر، ابوبکر پیدا ہوئے۔ (7) زامامہ بنت ابی العاص اُموی سے محمد اوسط پیدا ہوئے، یہ اُمامہ سیدہ زینب بنت محمد ﷺ کی بیٹی تھیں۔ (8) اُمِ سعید بنت عروہ بن مسعود ثقفیہ سے دو بیٹیاں ام الحسن اور رملہ پیدا ہوئیں (9) محیاۃ بنت امراء القیس سے ایک لڑکی حارثہ پیدا ہوئی جو بچپن ہی میں فوت ہو گئی۔ آپ کا ایک بیٹا محمد اُمّ ولد سے تھا۔ اس تفصیل سے جو کہ مختلف مراجع و مصادر سے لی گئی ہے، 9 ازواج سے 18 بیٹے اور6 بیٹیاں ہیں، جبکہ باندیوں سے آپ کی 12 بیٹیاں تھیں، تاریخ طبری جزء السادس، ص 89 پر ان باندیوں سے پیدا شدہ بنات کی مندرجہ ذیل تفصیل ہے۔
(1) اُم ہانی (2) میمونہ (3) زینب الصغریٰ (4) رملہ صغریٰ (5) فاطمہ (6) امامہ (7) خدیجہ اُم الکرام (8) اُم سلمہ (9) جمانہ (10) نفیسہ اس کی کنیت اُم کلثوم صغریٰ تھیں(منتہی الآمال) (11) اُمّ جعفر (12) اُمّ کلثوم۔ اولادِ علی کی اس تفصیل کے بعد آپ کے 18 بیٹے اور18 ہی بیٹیاں واضح ہو گئیں۔ سب سے اہم ایک بات جو مراجع اور مصادر میں موجود ہے، وہ ہے اُمّ کلثوم بنت علی کی واقعہ کربلا میں موجودگی۔ یاد رہے کہ سیدنا علی کی تین بیٹیوں کے نام اُمّ کلثوم ہے۔ (1) ایک اُمّ کلثوم جو سیدہ فاطمہ کے بطن سے تھیں، جن کا نکاح خلیفہ دوم عمر بن الخطاب سے ہوا، زید اور رقیہ دو اولادیں ہوئیں، زید اور ان کی ماں بنت فاطمہ، اُمّ کلثومؓ ایک ہی دن میں فوت ہوئے اور یہ کربلا سے پہلے فوت ہو گئیں تھیں۔ کربلا میں زندہ اور موجود اُمّ کلثوم یقینا آپ کی دوسری کوئی بیٹی تھی۔ وہ زوجہ عمر بن خطاب نہ تھیں، تین اُمّ کلثوم نام کی حضرت علی کی بیٹیاں تھیں۔ پانچ بیٹوں سے نسل چلی، (1) حسن (2) حسین (3) محمد حنفیہ (4) عباس (5) عمر اطرف
حسن بن علی
مشہور قول کے مطابق آپ کی ولادت 15 رمضان 3ھ مدینہ ہوئی، وفات 5؍ ربیع الاوّل 49ھ ہے۔ (احسن المقال، ج:1، ص317، المعارف، ص: 92)، حاکم مدینہ سعید بن عاص نے نمازِ جنازہ پڑھائی (المعارف، صفحہ 92)
اولاد میں بارہ بیٹے : (1) زید (2) حسن مثنیٰ (3) حسین الاثرم (4) طلحہ (5) اسماعیل (6) عبدﷲ (7) حمزہ (8) یعقوب (9) عبدالرحمن (10) ابوبکر (11) القاسم (12) عمر۔
ان میں تین عبدﷲ، ابوبکر، قاسم کربلا میں شہید ہوئے اور بیٹیوں میں پانچ ہیں: (1) اُمّ الحسن جو عبدﷲ بن زبیر کی زوجہ تھیں (2) اُمّ سلمہ زوجہ عمرو بن منذر بن زبیر ہے (3) اُمّ عبدﷲ کا نکاح علی بن حسین بن علی سے ہوئ۔ (کتاب المحبر، ص52) (4) اُمّ کلثوم کا نکاح علی بن عبدﷲ بن عباس سے ہوا۔ (5) فاطمہ (نسب قریش، ص 51۔50۔ عمدۃ المطالب فی انساب آل ابی طالب، ص 61) چار فرزندوں کی نسل چلی۔ (1) زید (2) حسن مثنیٰ (3) حسین اثرم (4) عمر۔ حسین اثرم اور عمر کی اولاد کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے، اب دنیا میں صرف دو فرزندوں (1) زید (2) حسن مثنیٰ کی نسل جاری ہے۔
حسین بن علی
آپ کی ولادت باسعادت پیر 5 شعبان 4ھ، شہادت 10 محرم 61ھ بروز بدھ (حوالہ جوہر تقویم از ضیاء الدین لاہوری، ص 63)
عام مؤرخین نے آپ کے پانچ بیٹے ذکر کیے ہیں (1) علی الاکبر یہ کربلا میں شہید ہوئے، جوان تھے، 21، 22 برس عمر تھی۔ آپ کی والدہ آمنہ (لیلیٰ) بنت ابی مُرّۃ بن عروہ بن مسعود ثقفیہ ہیں، لیلیٰ کی ماں میمونہ ابو سفیان بن حرب بن اُمیہ کی بیٹی تھی۔ علی اکبر سیدنا معاویہ کی بھانجی لیلیٰ کے بیٹے تھے۔ (نسب قریش، ص 57۔ منتہی الآمال، الارشاد)
2۔ علی اوسط (زین العابدین) ان کی ماں غزالہ، سلافہ تھیں، بعض نے کہا کہ یہ سندھیہ تھیں اور بعض نے اسے ایرانی بادشاہ شاہ یزدگرد کی بیٹی لکھا ہے۔
(3) علی الاصغر ان کی ماں باندی تھیں، یہ بھی کربلا میں شہید ہوئے۔
(4) جعفر کی ماں قبیلہ قضاعہ سے تھیں، یہ والد کی زندگی میں ہی فوت ہو گئے تھے۔ (احسن المقال، ج 1، ص 589)
(5) عبدﷲ یہ بھی کربلا میں شہید ہوئے، ان کی ماں رباب بنت امرؤ القیس تھیں، آپ کی دو بیٹیوں کا ذکر ملتا ہے۔ (۱) سکینہ یہ عبدﷲ کی سگی بہن تھیں، ان کی ماں رباب بنت امرؤ القیس تھیں۔ یہ کربلا میں موجود تھیں اور ان کی شادی سیدنا حسن کے بیٹے عبدﷲ سے واقعہ کربلا سے پہلے ہو چکی تھی۔ یہ حادثہ کربلا میں بچی نہ تھیں، بلکہ شادی شدہ تھیں ۔ حوالہ دیکھیے: تاریخ الائمہ، ص: 280۔ اعلان الوریٰ، ص 127)۔ سکینہ کا نام آمنہ یا امیمہ تھا، سکینہ لقب تھا۔ آپ کی وفات 117ھ میں ہوئی، آپ کا مزار شام میں ہے۔ (احسن المقال، ج 1، ص 590۔589)
عبدﷲ بن حسن کربلا میں شہید ہو گئے تو ان کے بعد سیدہ سکینہ نے مصعب بن زبیر سے نکاح کیا اور ایک بیٹی فاطمہ پیدا ہوئی۔ پھر عبدﷲ بن عثمان بن عبدﷲ بن حکیم بن حزام سے شادی ہوئی اس سے (1) حکیم (2) عثمان (قرین) (3) ربیحہ پیدا ہوئے۔
یہ ربیحہ حضرت حسین کی نواسی ہیں، اس کا نکاح عباس بن ولید بن عبدالملک بن مروان سے ہوا، سکینہ کی پھر شادی زید بن عمرو بن عثمان بن عفان سے ہوئی۔ زید کے بعد سکینہ نے ابراہیم بن عبدالرحمن بن عوف سے نکاح کیا اور ابراہیم کے بعد الاصبع بن عبدالعزیز بن مروان سے شادی کی۔ گویا کہ سکینہ نے چھے نکاح مختلف اوقات میں کیے۔(نسب قریش، ص 59۔ کتاب المعارف، ص 94۔ کتاب المحبر، ص 438)
فاطمہ بنت حسین، دوسری بیٹی ہیں، اُن کی ماں اُمّ اسحاق بنت طلحہ بن عبیدﷲ تھیں، فاطمہ بنت حسین کی پہلی شادی حسن مثنیٰ بن حسن مجتبیٰ سے ہوئی، جس سے (1) عبدﷲ (2) حسن (3) ابراہیم (4) زینب (5) اُمّ کلثوم پیدا ہوئیں۔ (نسب قریش، ص: 51) حسن مثنیٰ کی موت کے بعد ان کا نکاح عبدﷲ بن عمرو بن عثمان سے ہوا، (نسب قریش، 59) ۔ سلسلۂ نسل حضرت علی اوسط (زین العابدین) کے چھے فرزندوں سے جاری ہے۔
آنحضرت ﷺ کی ازدواجی زندگی
سیدہ خدیجہ بنت خویلد رضیﷲ عنہا سے آپ کا نکاح مبارک 15 قبل از نبوت، جب آپ کی عمر مبارک 25 برس اور سیدہ خدیجہ کی عمر مبارک 30 برس تھی۔ شادی کے تین سال بعد ۵۹۸ء میں جب آپ ﷺ کی عمر 28 برس تھی قاسم پیدا ہوئے۔ عبدﷲ نبوت کے سال مکہ میں پیدا ہوئے اور تیسرے بیٹے ابراہیم جو کہ جو ماریہ قبطیہ کے بطن سے ذی الحجہ 8ھ میں ہجرت کے بعد مدینہ میں پیدا ہوئے۔
بناتِ رسول ﷺ
آپ ﷺ کی اولاد میں تین بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں۔ صرف ایک بیٹا ابراہیم سیدہ ماریہ قبطیہ سے تھا، باقی چار بیٹیاں اور دو بیٹے سیدہ خدیجہ رضی ﷲ عنہاسے پیدا ہوئے۔
سیدہ زینب رضی اﷲ عنہا
سیدہ زینب کی ولادت نکاح کے پانچ برس کے 23 قبل از ہجرت میں ہوئی، اس وقت آپ ﷺ کی عمر مبارک ۳۵ برس تھی۔ ظہور اسلام کے وقت سیدہ زینب کی عمر ۱۰ سال تھی۔ چودہ برس کی عمر میں ان کی شادی ان کے خالہ زاد بھائی ابوالعاص بن ربیع سے ہوئی، ابوالعاص کی ماں ہالہ بنت خویلد سیدہ خدیجہ کی سگی بہن تھیں۔ ابوالعاص سے آپ کی اولاد میں (1) علی اور (2) اُمامہ تھے۔ آپﷺ کے بڑے نواسہ علی بن ابو العاص اور بڑی نواسی اُمامہ بنت ابوالعاص تھیں۔ امامہ زوجہ علی بن ابی طالب تھیں۔
علی بن ابو العاص
یہ ہجرت مدینہ سے 8 سال قبل 615ء میں پیدا ہوئے، فتحِ مکہ 8ھ کے دن یہی علی سبطِ رسول حضور ﷺ کے ناقہ پر ان کے ردیف تھے۔ (رحمۃ للعالمین، ج 2، ص 104)
شیخ الاسلام ابن حجر عسقلانی نے (الاصابہ فی تمیز الصحابہ، ج: 2، ص: تحت علی بن ابی العاص) یہی لکھا ہے۔ فتح مکہ کے وقت ان کی عمر 5 برس تھی۔ ابن حجر عسقلانی نے ابن عساکر کے حوالہ سے یہ تحریر کیا ہے کہ (انہ قتل یوم الیرموک) یہ یرموک کے معرکہ میں جو 13ھ مطابق 635ء، 20 برس کی عمر شہید ہوئے، ان سے قبل ان کے والد محترم شہید ختمِ نبوت، شیر حجاز، سیدنا ابوالعاص بن ربیع یمامہ میں شہید ہو چکے تھے۔ سیدہ زینب کے بارے میں اہلِ سِیَر کہتے ہیں کہ سفرِ ہجرت کے دوران میں لگا ہوا زخم دوبارہ تازہ ہو گیا، یہی زخم آپ کی شہادت کا سبب بنا اور آپ 8ھ مطابق 631ء میں 31 برس کی عمر میں شہید ہوئیں۔ سیدہ زینب کا پورا گھرانہ شہداء کا ہے۔ خود شہید، خاوند شہید یمامہ، بیٹا علی شہید یرموک، داماد سیدنا علی المرتضیٰ (خاوند امامہ) شہید۔
سیدہ رقیہ بنت رسول ﷺ
آپ ﷺ کی دوسری صاحبزادی ہیں، بعثت سے نو سال پہلے پیدا ہویں، تیرہ، چودہ برس کی عمر میں سیدنا عثمان غنی سے شادی ہوئی۔ نبوت کے پانچویں سال عثمان اور رقیہ نے حبشہ کی طرف ہجرت کی، حبشہ کے زمانۂ قیام میں عبدﷲ بن عثمان پیدا ہوا۔ مؤرخین نے اس عبدﷲ کو 4ھ میں چھوٹی عمر میں مرغ کی ٹھونگ آنکھ میں مار کر فوت شدہ لکھ دیا ہے۔ جن روایات میں عبدﷲ کی وفات کا بچپن میں ہونا مذکور ہے، وہ تمام واقدی کی سند سے ہیں، واقدی سے غالباًست و سبعین میں سے ایک عدد سبعین چھوٹ گیا اور صرف ست رہ گیا جسے بعد میں آنے والے نقل کرتے رہے۔ برصغیر پاک و ہند میں نواسۂ رسول عبدﷲ بن عثمان کی نسل زیادہ آباد ہے، جن کا انتقال مشہور، مؤرخ مسعودی کی تحقیق کے مطابق چھہتر سال کی عمر میں ہوا۔ (حوالہ مروج الذہب، مطبوعہ: 1974، ج: 2، ص 341 ۲ھ مطابق 624 رمضان میں بعمر 24 برس سیدہ رقیہ رضی ﷲ عنہا کا انتقال ہوا۔
سیدہ اُمّ کلثوم
سیدہ اُمّ کلثوم کی ولادت 604ء، ظہورِ اسلام سے چھے برس قبل ہوئی۔ ۲۲ برس کی عمر میں 625ء /۳ھ، آپ کا عثمان سے نکاح ہوا، اولاد کوئی نہ ہوئی اور شعبان 630ء /9ھ برس کی عمر میں وفات پائی۔
سیدہ فاطمہ
نبوت سے پانچ برس پہلے 605ء میں پیدا ہوئیں۔ 623ء /۳ھ 18 برس کی عمر میں سیدنا علی رضی ﷲ عنہ سے نکاح ہوا۔ حسن، حسین، زینب، اُم کلثوم اولاد تھی۔ 29۔30 برس کی عمر میں 3؍ رمضان 1ھ انتقال ہوا۔ نمازِ جنازہ ابوبکر رضی ﷲ عنہ نے پڑھائی۔
حوالے: نسب قریش (مصعب زبیری، 156ھ)، جمہرۃ النساب (حزم اندلسی، 384ھ)، کتاب المعارف (قتیبہ الدینوری، 213ھ)، کتاب المحبر (ابن حبیب بغدادی متوفی 245ھ)، طبقات الکبری و غیرھم۔ ان کے علاوہ باقی مراجع میں اہم مراجع یہ ہیں۔ انساب الاشراف (بلاذری)، الاستیعاب (ابن عبدالبر)، الاصابہ (ابن حجر عسقلانی)، سیر اعلام النبلاء (علامہ ذہبی)، تذکرۃ المعصومین، اصول کافی، نہج البلاغہ، ناسخ التواریخ، خصائل صدوق، جلاء العیون از باقر مجلسی، منتہی الآمال، عباسی قُمی، حیات القلوب از مجلسی، مفاتح الجنان از عباس قمی، تحفۃ العوام، تہذیب الاحکام، الاستبصار، زاد المعاد، مجالس المؤمنین از شوستری، مروج الذہب از مسعودی، مرأۃ العقول، ذبح عظیم،انوار النعمانیہ، تنقیح المقال از عبد ﷲ الماقانی، بحار الانوار، تلخیص الشافی از ابو جعفر طوسی، منتخب التواریخ، مناقب آل ابی طالب از ابن شہر آشوب، قرب الاسناد، تنبیہ والاشراف از مسعودی، یعقوبی، البدایہ والنہایہ از ابن کثیر، تاریخ طبری، الکامل از ابن اثیر وغیرھم۔
بیان: حضور ﷺ اور آپ ﷺ کی آل کا یہ باحوالہ مختصر بیان ہے اور غلطی معاف اور حوالے کے ساتھ اصلاح کی درخواست ہے۔
لڑائی: بنو امیہ اور بنو عباس کی لڑائیوں سے مسلمانوں کو کچھ لینا دینا نہیں بلکہ مسلمان کی اصل قرآن و سنت ہے جس پر عمل کرنے کا حُکم ہے۔
قرآن و سنت: 124000صحابہ کرام و اہلبیت نے قرآن و سنت کو اکٹھا کیا، البتہ اہلتشیع بے بنیاد مذہب کے نزدیک یہ کام صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کیا ہے اور کیا اہلتشیع بتا سکتے ہیں کہ حضور ﷺ کے سارے فرمان حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کسطرح اور کن راویوں کے ذریعے پھیلائے ورنہ ختم نبوت پر بھی حرف آتا ہے اور حضور ﷺ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سارے فرمان جو اہلتشیع کی کتابوں میں لکھے ہیں وہ منگھڑت ہوں گے جس پر جہنم مقدر ہے۔
اہلسنت: دیوبندی، بریلوی اور اہلحدیث جماعتیں ان سوالوں کے جواب دے کر پاکستان میں اتحاد امت قائم کر سکتی ہیں:
1) سعودی عرب کے وہابی علماء نے 600 سالہ خلافت عثمانیہ کے دور کے ساری دُنیا کے اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) کو بدعتی و مُشرک کیوں کہا اور بدعت و شرک کس نے سکھایا تھا؟
2) کیا سعودی عرب کے وہابی علماء کی وجہ سے پاکستان میں ایران کے بے بنیاد مذہب اہلتشیع کا اثر و رسوخ نہیں بڑھا جس سے اہلسنت علماء کرام ایک مرکز پر 100سالوں میں اکٹھے نہیں ہو سکے؟
3) کیا یہ بہتر ہے کہ قادیانی، رافضی، سعودی، ایرانی، آغا خانی پیسہ لگائیں اور عوام کو جماعتوں میں تقسیم کر دیں یا یہ بہتر ہے کہ علماء کرام اور عوام کو ”اہلسنت“ کی پہچان کروا کر اکٹھا کر دیں؟
رزق جائے گا، بے عزتی بھی ہو گی، پریشانی بھی آئے گی، عوام بھی نہیں مانے گی، یہ بھی کہا جائے گا کہ تفرقہ پھیلایا جا رہا ہے، فتنہ پھیلا رہے ہو مگر حق اُس کی زبان سے نکلتا ہے جو حق کے ساتھ ہو، اُسے کیا پرواہ کہ کیا ہو گا، وہ تو اللہ کریم کے دیدار کی خوشی میں مست ہو کر اس دنیا سے جانا چاہتا ہے۔