مقدس راتیں اور دیدار الہی
1۔ قرآن و سنت کی وجہ سے مقدس راتوں (شب معراج، 15شعبان، 27رجب، لیلتہ القدر، عید کی چاند راتیں) میں عبادت کی جاتی ہے۔ سمجھدار مسلمان اپنے فرائض، واجبات، سنت موکدہ پورے کرکے ان راتوں میں عبادت اور دن کو روزہ رکھ کر فیض پاتے ہیں۔۔
2۔فرائض (نماز، روزہ، زکوۃ، حج) ادا نہ کرنے والی عام عوام کو بھی ان راتوں میں عبادت کرنے سے نہیں روکنا کیونکہ اللہ کریم چاہے تو کسی بھی لمحے ایسی عوام کو فرائض ادا کرنے کی توفیق دے سکتا ہے۔ یہ عام عوام اُس جاہل عوام اُس سے بہتر ہے جنہو ں نے اپنا مذہب نئے کپڑے، پھلجھڑیاں، پٹاخے، بیٹی کو معراج، شب برات یا عیدی دینی اور رسم و رواج کو عبادت بنا رکھا ہے۔
2۔ یہ بھی یاد رہے کہ بخشش یا دُعا کی قبولیت کا کوئی وقت نہیں ہوتا، اللہ کریم کسی بھی وقت بخشش اور دُعا قبول کر لیتا ہے، اسلئے اپنے فرائض، واجبات، سنت اور نفل کو ہر دن اسطرح ادا کریں جیسے ابھی بخشش ہونے لگی ہے اور یہ عقیدہ رکھیں کہ جو اللہ کریم لیلتہ القدر کی رات کو 84 سال کی عبادت کا ثواب دے سکتا ہے وہ میرے ہر عمل پر اتنا ثواب دیتا ہے۔
3۔ 27 رجب عبادت کی رات ہے مگر شب معراج عبادت کی رات نہیں ہے، یہ فرق اسلئے ہے کہ حضور ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ میری معراج کی رات عبادت کی رات ہے بلکہ حضور ﷺ کے فرمان جیسے 15 شعبان کی طرح27 رجب کوبھی عبادت کے ملتے ہیں جیسے 15 شعبان کے ملتے ہیں۔
4۔ حضورﷺ، صحابی اور تابعی کے قول و فعل و تقریر کو حدیث کہتے ہیں۔ اسلئے قرآن و سنت (مرفوع، موقوف، مقطوع احادیث) کی وجہ سے اجماع (کثیر علماء کا اتفاق) ہے کہ حضور ﷺ کو اللہ کریم کا دیدار ہوا جس پر جناب احمد رضا خاں صاحب نے یہ دلائل دئے ہیں:
مرفوع حدیثیں
1۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں میں نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا۔ (مسند احمد بن حنبل عن عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۲۸۵)
** امام جلال الدین سیوطی خصائص کبرٰی اورعلامہ عبدالرؤف مناوی تیسیر شرح جامع صغیر میں فرماتے ہیں: یہ حدیث بسند صحیح ہے(التیسیر شرح الجامع الصغیر تحت حدیث رأیت ربی مکتبۃ الامام الشافعی ریاض ۲ /۲۵) (الخصائص الکبرٰی حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات ہند ۱ /۱۶۱)
2۔ ابن عساکر حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی ، حضور سید المرسلین ﷺ فرماتے ہیں: بیشک اللہ تعالٰی نے موسٰی کو دولت کلام بخشی اورمجھے اپنا دیدار عطافرمایا مجھ کو شفاعت کبرٰی وحوض کوثر سے فضیلت بخشی(کنز العمال بحوالہ ابن عساکر عن جابر حدیث ۳۹۲۰۶ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۱۴ /۴۴۷ )
3۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں مجھے میرے رب عزوجل نے فرمایا میں نے ابراہیم کو اپنی دوستی دی اورموسٰی سے کلام فرمایا اورتمہیں اے محمد ﷺ! مواجہ بخشا کہ بے پردہ و حجاب تم نے میرا جمال پاک دیکھا۔ (تاریخ دمشق الکبیر باب ذکر عروجہ الی السماء و اجتماعہ بجماعۃ من الانبیاء داراحیاء التراث العربی بیروت ۳ /۲۹۶)
** مجمع البحار میں ہے کہ کفاح کا معنٰی بالمشافہ دیدار ہے جبکہ درمیان میں کوئی پردہ اورقاصد نہ ہو۔ (مجمع بحار الانوار باب کف ع تحت اللفظ کفح مکتبہ دارالایمان مدینہ منورہ ۴ /۴۲۴)
4۔ ابن مردویہ حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی: میں نے سنا رسول اللہ ﷺ سدرالمنتہٰی کا وصف بیان فرماتے تھے میں نے عرض کی یا رسول اللہ! حضو ر نے اس کے پاس کیا دیکھا ؟فرمایا: مجھے اس کے پاس دیدار ہوا یعنی رب کا۔ (درالمنثور فی التفسیر بالماثور بحوالہ ابن مردویہ تحت آیۃ ۱۷/۱ داراحیاء التراث العربی بیروت ۵ /۱۹۴)
اٰثار الصحابہ
1۔ ترمذی شریف میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے مروی: ہم بنی ہاشم اہلبیت رسول اللہ ﷺ تو فرماتے ہیں کہ بیشک محمد ﷺ نے اپنے رب کو دوبار دیکھا۔ (جامع الترمذی ابواب التفسیر سورئہ نجم امین کمپنی اردو بازا ر دہلی ۲ /۱۶۱) ) الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی فصل وامارؤیۃ لربہ المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ فی البلاد العثمانیہ ۱/ ۱۵۹)
2۔ ابن اسحٰق عبداللہ بن ابی سلمہ سے راوی : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے دریافت کیا : کیا محمد ﷺ نے اپنے رب کودیکھا ؟ا نہوں نے جواب دیا: ہاں۔(درالمنثور بحوالہ ابن اسحٰق تحت آیۃ ۵۳ /۱ ۸ داراحیاء التراث العربی بیروت ۷ /۵۷۰)
3۔ طبرانی کے الفاظ ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا : محمد صلیﷺ نے اپنے رب کو دیکھا۔ عکرمہ ان کے شاگردکہتے ہیں : میں نے عرض کی : کیا محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا؟فرمایا : ہاں اللہ تعالٰی نے موسٰی کے لئے کلام رکھا اور ابراہیم کے لئے دوستی اورمحمد ﷺ کے لئے دیدار۔ (اورامام ترمذی نے یہ زیادہ کیا کہ ) بیشک محمد ﷺ نے اللہ تعالٰی کو دوبار دیکھا۔ (معجم الاوسط حدیث ۹۳۹۲ مکتبۃ المعارف ریاض ۱۰ /۱۸۱) (جامع الترمذی ابواب التفسیر سورۃ نجم امین کمپنی اردو بازار دہلی ۲/ ۱۶۰)
*** امام ترمذی فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔ امام نسائی اورامام خزینہ و حاکم و بیہقی کی روایت میں ہے: کیا ابراہیم کے لئے دوستی اورموسٰی کے لئے کلام اور محمد ﷺ کے لئے دیدار ہونے میں تمہیں کچھ اچنبا ہے۔ یہ الفاظ بیہقی کے ہیں۔ حاکمنےکہا: یہ حدیث صحیح ہے۔ امام قسطلانی و زرقانی نے فرمایا: اس کی سند جید ہے (مواہب اللدنیۃ بحوالہ النسائی والحاکم المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۴) (الدرالمنثور بحوالہ النسائی والحاکم تحت الآیۃ ۵۳ /۱۸ دار احیاء التراث العربی بیروت ۷ /۵۶۹) (المستدرک علی الصحیحین کتاب الایمان راٰی محمد ﷺ ربہ دارالفکر بیروت ۱ /۶۵)
(السنن الکبری للنسائی حدیث ۱۱۵۳۹دارالکتب العلمیۃ بیروت ۶ /۴۷۲) (شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ المقصد الخامس دارالمعرفۃ بیروت ۶ /۱۱۷)
4۔ طبرانی معجم اوسط میں راوی: حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما فرمایا: بیشک محمدﷺ نے دو بار اپنے رب کو دیکھا ایک بار اس آنکھ سے اور ایک بار دل کی آنکھ سے۔ (مواہب اللدنیۃ بحوالہ الطبرانی فی الاوسط المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۵) (المعجم الاوسط حدیث ۵۷۵۷ مکتبۃ المعارف ریاض ۶ /۳۵۶)
** امام سیوطی وامام قسطلانی وعلامہ شامی علامہ زرقانی فرماتے ہیں: اس حدیث کی سند صحیح ہے (المواہب اللدنیۃ المقصد الخامسالمکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۵) (شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ المقصد الخامسدارالمعرفہ بیروت ۶ /۱۱۷)
5۔ امام الائمہ ابن خزیمہ وامام بزار حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی: بیشک محمد ﷺ نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا۔(المواہب اللدنیۃ بحوالہ ابن خزیمہ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۵)
** امام احمد قسطلانی وعبدالباقی زرقانی فرماتے ہیں : اس کی سند قوی ہے(مواہب اللدنیۃ بحوالہ ابن خزیمہ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۵) (شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ المقصد الخامسدارالمعرفہ بیروت ۶ /۱۱۸)
6۔ محمد بن اسحٰق کی حدیث میں ہے : مروان نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے پوچھا : کیا محمدﷺ نے اپنے ر ب کو دیکھا؟ فرمایا : ہاں (شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ بحوالہ ابن اسحٰق دارالمعرفہ بیروت ۶ /۱۱۶) (الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی بحوالہ ابن اسحٰق فصل وما رؤیۃ لربہ المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ فی البلاد العثمانیہ ۱ /۱۵۹)
اخبار التابعین
1۔ مصنف عبدالرزاق میں ہے :امام حسن بصری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ قسم کھا کر فرمایا کرتے بیشک محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا۔ (شفاء بتعریف حقوق المصطفٰی بحوالہ عبدالرزاق عن معمر عن الحسن البصری فصل واما رویۃ لربہ المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ فی البلاد العثمانیہ ۱ /۱۵۹)
2۔ اسی طرح امام ابن خزیمہ حضرت عروہ بن زیبر سے کہ حضور اقدس ﷺکے پھوپھی زاد بھائی کے بیٹے اور صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نواسے ہیں راوی کہ وہ نبی ﷺ کو شب معراج دیدار الہٰی ہونا مانتے اوران پر اس کا انکار سخت گراں گزرتا۔(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ بحوالہ ابن خزیمہ المقصد الخامس دارالمعرفۃ بیروت ۱/۱۱۶)
3۔ یوں ہی کعب احبار عالم کتب سابقہ وامام ابن شہاب زہری قرشی وامام مجاہد مخزومی مکی وامام عکرمہ بن عبداللہ مدنہ ہاشمی وامام عطا بن رباح قرشی مکی۔ استاد امام ابو حنیفہ وامام مسلم بن صبیح ابوالضحی کو فی وغیرہم جمیع تلامذہ عالم قرآن حبر الامہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہم کا بھی یہی مذہب ہے۔
4۔ امام قسطلانی مواہب لدنیہ میں فرماتے ہیں :ابن خزیمہ نے عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہا سے اس کا اثبات روایت کیاہے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کے تمام شاگردوں کا یہی قول ہے۔ کعب احبار اورزہری نے اس پر جزم فرمایا ہے ۔ الخ۔ (المواہب اللدنیۃ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۴)
اقوال من بعدھم من ائمّۃ الدین
1۔ امام خلّال کتاب السن میں اسحٰق بن مروزی سے راوی، حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالٰی رؤیت کو ثابت مانتے اوراس کی دلیل فرماتے: نبی ﷺ کا ارشاد ہے میں نے اپنے رب کو دیکھا۔ (مواہب اللدنیۃ بحوالہ الخلال فی کتاب السن المقصد الخامس المتکب الاسلامی بیرو ت۳ /۱۰۷)
2۔ نقاش اپنی تفسیر میں اس امام سند الانام رحمہ اللہ تعالٰی سےراوی: انہوں نے فرمایا: میں حدیث ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کا معتقد ہوں نبیﷺ نے اپنے رب کو اسی آنکھ سے دیکھا دیکھا دیکھا، یہاں تک فرماتے رہے کہ سانس ٹوٹ گئی۔ (لشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی بحوالہ النقاش عن احمد وامام رؤیۃ لربہ المکتبۃ الشرکۃ الصحافیۃ ۱ /۱۵۹)
3۔ امام ابن الخطیب مصری مواہب شریف میں فرماتے ہیں: امام معمر بن راشد بصری اور ان کے سوا اور علماء نے اس پر جزم کیا، اور یہی مذہب ہے امام اہلسنت امام ابوالحسن اشعری اور ان کے غالب پَیروؤں کا۔ (مواہب اللدنیہ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۴)
4۔ علامہ شہاب خفاجی نسیم الریاض شرح شفائے امام قاضی عیاض میں فرماتے ہیں: مذہب اصح وراجح یہی ہے کہ نبی ﷺ نے شب اسرا اپنے رب کو بچشم سردیکھا جیسا کہ جمہور صحابہ کرام کا یہی مذہب ہے۔ (نسیم الریاض شرح شفاء القاضی عیاض فصل واما رؤیۃ لربہ مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات ہند ۲ /۳۰۳)
5۔ امام نووی شرح صحیح مسلم میں پھر علامہ محمدبن عبدالباقی شرح مواہب میں فرماتے ہیں: جمہور علماء کے نزدیک راجح یہی ہے کہ نبی ﷺ نے شب معراج اپنے رب کو اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھا۔ (شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ المقصد الخامس دارالمعرفۃ بیروت ۶ /۱۱۶)
6۔ ائمہ متاخرین کے جدا جدا اقوال کی حاجت نہیں کہ وہ حد شمار سے خارج ہیں اور لفظ اکثر العلماء کہ منہاج میں فرمایا کافی ومعنی ۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
ہوم ورک: محدثین فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کی بات (حدیث) کو 114000 صحابہ کرام نے سُنا (سماع) ہے اور صحابہ سے تابعین اور تابعین سے تبع تابعین نے سُنا اور پھر احادیث کتابی شکل میں سند اور متن کے ساتھ اکٹھی کی گئیں ہیں۔ اس پر اہلتشیع بے بنیاد مذہب سے سوال ہے:
سوال: حضور ﷺ کے کم و بیش 124000 صحابہ کرام (اہلبیت سمیت) نے ملکر حضور ﷺ کے فرمان کے مطابق زندگی گذاری، احادیث کو بیان کیا جس میں سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں۔ اہلتشیع کا کونسا ڈپلیکیٹ علی ہے جس نے قرآن بھی خود اکٹھا کیا اور حضور ﷺ کی مرفوع، موقوف، مقطوع احادیث کے راوی (صحابی، تابعین و تبع تابعین) کون کون ہیں؟
بے بنیاد مذہب: اہلتشیع کی احادیث کی کتابیں اسناد اور راوی کے بغیر منگھڑت ہیں، حضور ﷺ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جھوٹ منسوب ہے، اسلئے جب قرآن و سنت ہی نہیں تو فقہ جعفر کیسے سچی ہو سکتی ہے۔ اب جس کی بنیاد ہی جھوٹ پر بنی ہو اُس کو مسلمان کیسے کہہ سکتے ہیں۔ قصے اور کہانیوں کا نام اور الزامی سوالوں کا نام ”اسلام“ رکھا ہے۔ اللہ کرے مرنے سے پہلے کسی اہلتشیع کو سمجھ آ جائے۔
اتحاد امت: خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت، حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی علماء کرام اہلسنت ہیں جنہوں نے 600 سال میں دین کی خوب خدمت کی اور اُس دور میں بہت سا علمی کام ہوا، البتہ سعودی عرب کے وہابی علماء نے خلافت عثمانیہ کے احتتام پر دُنیا کے اہلسنت کو بدعتی و مُشرک کہا جس سے امت مسلمہ کا نقصان ہوا۔
دیوبندی اور بریلوی خلافت عثمانیہ والے ہیں جن کا آپس میں اصولی اختلاف دیوبندی علماء کی چار کُفریہ عبارتیں ہیں۔ اگر دیوبندی سعودی عرب کے وہابی علماء کے ساتھ ہیں تو ان کے اکابر وہابی کے نزدیک بدعتی و مُشرک ہیں، اسلئے تقیہ بازی نہ کریں۔
پھر دیوبندی کو حنفیت چھوڑ کر اور اہلحدیث کو غیر مقلدیت چھوڑ کو ”حنبلی“ طریقے سے نماز ادا کرنی چاہئے ورنہ مصلہ ایک نہیں ہے۔