حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا وصال 10رمضان المبارک

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا وصال 10رمضان المبارک

رمضان المبارک کے اہم واقعات میں سے ایک واقعہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا کے وصال کا ہے۔

ابتدائیہ: والد کا نام خویلد، والدہ کا نام فاطمہ بنت زاہدہ اور لقب طاہرہ، پہلا نکاح ابو ہالہ بن زرارہ تمیمی جس سے دو لڑکے ہند اور حارث پیدا ہوئے اور دوسرا نکاح ابو ہالہ کی وفات کے بعد عتیق بن عابد مخزومی سے لیکن وہ بھی وفات پا گئے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا سمجھدار، امیر، ہر خوبی کی مالک اور اچھے فیصلے کرنے والی تھیں، اسلئے اُن کا سب سے”اچھا“ فیصلہ حضور ﷺ سے نکاح کرنا تھا۔

نکاح کی وجوہات: حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا حضور ﷺ کی امانت و دیانت سے بے حد متاثر، غلام میسرہ کے ساتھ دُگنے معاوضے پر شام کے علاقے میں اپنا تجارتی سامان بیچنے کی پیشکش، غلام میسرہ سفر میں حضور ﷺ کے کردار سے متاثر کیونکہ حضور ﷺ پر بادلوں کا سایہ کرنا، شام میں راہب پادری نسطورا کا علامات نبوت سے حضور ﷺ کو پہچاننا، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا نے غلام میسرہ سے سفر کے حالات پر بہت کچھ سُنا، حضور ﷺ کے ساتھ فرشتوں کو بھی دیکھا، ایک خواب دیکھا جس کی تعبیر چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل نے یہ بتائی کہ تم سے آخری نبی کا نکاح ہو گا۔

نکاح: حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا نے حضور ﷺ کو اپنی سہیلی نفیسہ بنت منیہ کے ذریعے نکاح کا پیغام دیا جو حضور ﷺ نے قبول کیا۔ نکاح کا خطبات چچا ابو طالب، ورقہ بن نوفل اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کے چچا عمرو بن اسد نے پڑھے اورایک اونٹ ذبح کر کے مہمانوں کو کھانا کھلایا گیا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا امیر مگر امانت دار اور حضور ﷺ ظاہری طور پر غریب مگر امانت دار اور اللہ کریم کا فیصلہ ہمیشہ امانت داروں کے متعلق اچھا ہوتا ہے۔

ریکارڈ: نکاح 25سال کی عمر میں اور پہلی وحی 40 سال کی عمر میں، 25سے 40 سال کے درمیان حضور ﷺ کی اولادبھی پیدا ہوئی، البتہ کیسے بچوں کوپالا سنبھالا، بیٹیاں حضرت زینب، ام کلثوم اور رقیہ رضی اللہ عنھم کے نکاح کیسے کئے، کون کون شامل ہوا، کچھ ریکارڈ نہیں ملتا سوائے یہ کہ آپ ﷺ غارِ حرا جاتے اور پیاری ”بیوی“ حضورﷺ کو ستو (کھانا) باندھ دیتی یا کھانا دینے جاتی۔

تصدیق: حضرت جبرائیل علیہ اسلام سے پہلی ملاقات، دل مضطرب کے ساتھ گھر تشریف لاکر فرمایا مجھے چادر اوڑھا دو، پیاری بیوی کوسارا واقعہ وحی کا بتایاتو پیاری بیوی جو پہلے کچھ نشانیاں دیکھ چُکی تھیں اور نکاح کے 15سالوں کے دوران حضور ﷺ کوجو کرتے دیکھا تو اُس کی تصدیق اسطرح کی ”آپ ﷺ کو اللہ کریم کبھی رسوا نہیں کرے گا کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے، کمزوروں کا بوجھ اُٹھاتے، محتاجوں کے لئے کماتے، مہمان کی ضیافت کرتے اور راہ حق میں مصائب برداشت کرتے ہیں۔

ساتھی: پیاری سمجھدار بیوی نے مزید یہ کیا کہ حضور ﷺ کو چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو نصرانی تھے، عبرانی زبان میں انجیل لکھا کرتے۔ حضور ﷺ کا واقعہ سُننے کے بعد کہنے لگے: یہ وہی فرشتہ ہے جسے اللہ کریم نے حضرت موسی علیہ السلام پر اُتارا تھا، اے کاش میں اُس وقت زندہ ہوتا جب کہ آپ کی قوم آپ کو نکالے گی۔

سکون: حضور ﷺ،حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نماز ادا کرتے اور ایک دفعہ کسی نے دیکھا تو چچا عباس رضی اللہ عنہ پاس تھے، اُن سے پوچھا یہ کون ہیں؟انہوں نے فرمایا کہ یہ میرا بھتیجا ہے جو کہتا ہے کہ اللہ کریم وحدہ لا شریک ہے۔ نبوت کے تین سال بعد اللہ کریم نے فرمایا ”اپنے رشتے داروں اور قرابت داروں کو ڈر سناؤ“ جس پر حضور ﷺ نے فاران کی چوٹیوں پر رشتے داروں کو لا الہ الا اللہ کی دعوت دی۔

سوشل بائیکاٹ: اس کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کے گھر اور گھرانے پر قیامت ٹوٹ پڑی، حضور ﷺ کے راستے میں کانٹے بچھائے جاتے، گھر میں گندگی پھینکی جاتی، آپ ﷺ کو جھوٹا (نعوذ باللہ) کہا جاتا حتی کہ 43 سال کی عمر کے بعد کے 7سال میں سے آخر والے تین سال تو بنو ہاشم کا سوشل بائیکاٹ کر کے شِعبِ ابی طالب میں قید کر دیا گیا مگر کیا خوبصورت صبر ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا اور کسی بچے کی دنیاوی حاجت یا بھوک پیاس رہنے پر چیخنے کا ایک واقعہ نہیں ملتا۔

ہمت: سوشل بائیکاٹ کے دوران حضرت حکیم بن حزام اپنی پھوپھی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کے لئے گیہوں لائے، راستے میں ابوجہل سے بحث، ابوالبختری بن ہاشم کا وہاں آنا، ابو جہل کو سمجھانا مگر اس کا نہ ماننا تو ابوالبختری نے اونٹ کے جبڑے کی ہڈی سے ابو جہل کا سر زخمی کر دیا۔ ابو البختری اور حضرت حکیم بن حزام دونوں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کے بھتیجے تھے۔

وفات: ام المومنین حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا نبوت کے 10ویں سال جب چچا ابو طالب کو وفات پائے ابھی 3 یا 5 دن ہوئے تھے، 65 سال کی عمر میں 10 رمضان المبارک کو وفات پائی۔ غُسل دیا گیا اور نماز جنازہ کا ابھی حُکم نازل نہیں ہوا تھا، آپ کو مکہ مکرمہ میں واقع حَجُون (جنت معلی) کے مقام پر دفن کیا گیا۔

سلام: ایک دفعہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا حضور ﷺ کے لئے کھانا لے کر آ رہی تھیں تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ! جب آپ کے پاس پہنچیں تو ان کو اللہ کریم کا اور میرا سلام پیش کریں اور جنت میں خول دار موتی سے بنے ہوئے گھر کی بشارت دیجئے جس میں شور ہے نہ کوئی تکلیف۔

افضل جنتی؛ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا، آپ کی بیٹی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا، فرعون کی بیوی آسیہ بنت مزاحم اور حضرت عیسی علیہ السلام کی والدہ مریم بنت عمران جنت میں فضیلت والی عورتیں ہیں۔

نبی کریم ﷺ نے پیر کے روز صبح کے وقت نماز پڑھی، سیدہ خدیجہ نے پیر کے دن اس کے آخری حصے میں نماز پڑھی اور سیدنا علی نے منگل کو نماز پڑھی ( المعجم الکبیر للطبرانی: 945)

سیدہ عائشہ فرماتی ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کی ازواج میں سے کسی پر اتنی غیرت نہ کی جتنی جناب خدیجہ پر کی، حالانکہ میں نے انہیں نہیں دیکھا تھا لیکن حضور ﷺ سیدہ خدیجہ کا بہت ذکر فرماتے تھے، (صحیح بخاری 3818)

سیدہ خدیجہ کے ساتھ آپ ﷺ نے 25 سال گزارے، اس ساری مدت میں آپ ﷺ نے کبھی دوسری شادی نہیں کی، سیدہ خدیجہ نے بھی کوئی ایسا کام نہیں کیا جو آپ ﷺ کو نا پسند ہو۔( صحیح مسلم 2436)

وفات: ام المومنین حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا نبوت کے 10ویں سال جب چچا ابو طالب کو وفات پائے ابھی 3 یا 5 دن ہوئے تھے، 65 سال کی عمر میں 10 رمضان المبارک کو وفات پائی۔ غُسل دیا گیا اور نماز جنازہ کا ابھی حُکم نازل نہیں ہوا تھا، آپ کو مکہ مکرمہ میں واقع حَجُون (جنّتُ المعلیٰ) کے مقام پر دفن کیا گیا۔ 

ذاتی تجزیہ

حضور ﷺ کا سب سے بہترین ساتھی آپ کی بیوی ہیں جنہوں نے اللہ کریم کی محبت میں آپ ﷺ کو تمام دنیاوی حاجات سے دور فرمایا اور آپ ﷺ کو قدم بقدم حوصلہ دیا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کی ماں کا درجہ بیٹی سے بہت بڑھکر ہے، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کے سارے فیصلے درست تھے حضور ﷺ کو جو چین ان سے ملا وہ ساری زندگی اُس کو یاد کرتے رہے، آپ کی سہیلیوں کو بھی تحفے بھیجتے رہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ مردوں میں، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا عورتوں میں اور بچوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اسلام قبول کرنے میں افضل ہیں۔

دیوبندی اور بریلوی پیری مریدی، دم درود، تعویذ دھاگے، میلاد، عرس والے ہیں کیونکہ خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت، 600 سالہ دور میں حرمین شریفین سے فتاوی لیتے تھے جیسے 1905 میں دیوبندی علماء کی چار عبارتوں پر کُفر کا فتوی وہیں سے لیا گیا۔ 1924میں آل وہاب نے صحابہ کرام اور اہلبیت کے مزارات ڈھا کر خلافت عثمانیہ والوں کو بدعتی و مشرک کہا۔اسلئے سوال یہ ہے کہ بریلوی بدعتی و مشرک کیوں ہیں، یہ کیوں نہیں کہا جاتا کہ دیوبندی بھی آل وہاب کے نزدیک بدعتی و مشرک ہیں؟

اہلتشیع بے بنیاد دین اسلئے ہے کہ حضور ﷺ نے 124000 صحابہ کرام کو دین سکھایا اور 124000نے دین پھیلایا۔ اہلتشیع کے نزدیک 123999کو حضور ﷺ نے نہیں سکھایا بلکہ دین کے وارث اہلتشیع کے ڈپلیکیٹ علی ہیں،اسلئے اختلاف یہی ہے کہ دین تو قرآن و سنت کا نام ہے جو صحابہ کرام اور اہلبیت نے اکٹھا کیا۔ اہلتشیع کا کونسا علی ہے جس اکیلے نے اپنے کونسے صحابی و تابعی کو کونسا دین سکھایا جو حضور ﷺ کے 124000 صحابہ کرام سے بڑھکر ہیں۔

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general