باغ فدک
اللہ کریم نے مدینہ پاک میں حضور ﷺ کے لئے ظاہری روٹی روزی کا بندوبست غزوات میں "اموال غنیمت” کا 5واں حصہ مقرر کر کے کیا جو حضور، بیوی بچے، قرابت دار، یتیمیوں، مسکینوں اور مسافروں پر لگانے کے لئے تھا (انفال41) پھر جو لڑائی کئے بغیر مال ہاتھ آئے (مال فئے) وہ بھی رسول اللہ ﷺ کو سورہ حشر 6,7 آیت میں سورہ انفال کی طرح خرچ کرنے کے لئے سرکار ﷺ کو، سرکار رب ﷻ کی طرف سے، سرکاری کام کرنے پر عطا کیا گیا۔
حضور ﷺ اسی سے اپنی اور اپنے گھر والوں کی ضرورتیں پوری کرتے تھے مگر یہ کوئی ذاتی جائیداد نہیں تھی جو بعد از وصال گھر والوں میں تقسیم ہوتی۔ اسلئےصحيح مسلم 4585: فرمایا ”ہمارا کوئی وارث نہیں جو ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔“ مسند احمد میں ہے حضور ﷺ نے فرمایا "اللہ کریم کسی نبی کی روٹی روزی کے لئے جو کچھ کر دیتا ہے وہ اس کے وصال کے بعد اس کے جانشین یعنی خلیفہ کے حوالے ہوتا ہے۔
1۔ اسلئے صحیح مسلم 124: حضور ﷺ کے بعد جب قبائل دین سے پھر گئے اور زکوۃ دینے سے انکار کیا توسیدنا صدیق اکبر، فنا فی الرسول، نے فرمایا کہ ایک رسی بھی جو قبائل حضور ﷺ کے دور میں زکوۃ میں دیتے تھے، اگر نہیں دیں گے تو میں ان سے لڑائی کروں گا حالانکہ سیدنا عمر فاروق اور بعض صحابہ گبھرا چُکے تھے مگر اللہ کریم نے ان کا بھی سینہ کھول دیا۔
2۔ حضور ﷺ نے وفات سے قبل رومیوں کے خلاف نوجوان سیدنا اسامہ بن زید کو ”سالار“ مقرر کیا۔ لشکر ابھی مقام جرف پر اکٹھا ہوا ہی تھا کہ حضور ﷺ کا وصال ہو گیا۔ سیدنا ابوبکر نے خلیفہ بنتے ہی تیسرے دن سب فوجیوں کو مقام جرف پر اکٹھا کروایا اور صحابہ کرام کی لاکھ مخالفت کے باوجود اس فنا فی الرسول نے سالار اسامہ کو لشکر سمیت بھیج کر ہی دم لیا۔ (طبری)
سیدہ فاطمہ کا مطالبہ: صحیح بخاری 3711، 4240: حضور ﷺ کی وفات کے بعد جب سیدنا ابوبکر صدیق خلیفہ بن گئے تو سیدہ فاطمہ نے ایک آدمی بھیج کر مال فئی میں سے مدینہ، فدک اور خیبر کے خُمس سے ”وراثت“ کا مطالبہ کیا۔ سیدنا ابوبکر نے فرمایاکہ حضور ﷺ نے فرمایا ”ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہوتا، ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے،البتہ آل محمدﷺ کو مال اسی طرح سے ملتا رہے گا جس طرح حضور ﷺ کے دور میں ملتا رہا تھا۔ اور کہا ابو داود 2970: میں بھی وہی کروں گا جو رسول اللہ کرتے رہے، میں ڈرتا ہوں کہ آپ ﷺ کے کسی حکم کو چھوڑ کر گمراہ نہ ہو جاؤں۔
ازواج کا مطالبہ: صحیح مسلم 4579: رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد حضور ﷺ کی بیویوں نے سیدنا عثمان کو سیدنا ابوبکر کے پاس وراثت میں سے حصہ مانگنے کے لئے بھیجا تو حضرت عائشہ نے ان بیویوں کو پوچھا کیا تمہیں یہ حدیث معلوم نہیں ”ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا جو ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔ اس پر ازواج کا مطالبہ ختم ہو گیا۔
چچا عباس کا مطالبہ: صحیح مسلم 4581: سیدہ فاطمہ اور سیدنا عباس دونوں سیدنا ابوبکر کے پاس حضور ﷺ کی وراثت میں سے حصہ مانگنے آئے لیکن سیدنا ابوبکر نے ان کو حدیث سُنائی اور حصہ نہیں دیا۔ ابو داود 2972: فدک کا مطالبہ سیدہ فاطمہ نے حضور ﷺ سے بھی کیا تھا مگر آپ نے نہیں دیا اسلئے سیدہ فاطمہ کو فدک ہبہ کرنے کی روایات غلط ہیں۔
دور عمر: صحیح مسلم 4582: سیدنا عباس اور سیدنا علی نے سیدنا عمر فاروق کے دور میں بھی فدک وغیرہ کا مطالبہ کیا تو سیدنا عمر فاروق نے فدک اور خیبر کو چھوڑ کرحضور ﷺ کی ”مدینہ کا صدقہ“ کی مینجمنٹ سیدنا عباس اور سیدنا علی کواس شرط پر دی کہ یہ مال وہیں لگانا ہے جہاں حضور ﷺ لگاتے تھے۔
صحیح مسلم 4577: سیدنا علی اور سیدنا عباس دونوں سیدنا عمرکے پاس آئے اور چچا عباس نے سیدنا علی کی شکایت کی کہ یہ مجھے مینجمنٹ کرنے نہیں دیتا تو سیدنا عمر نے فرمایا میں نے اس شرط پر تم کو مال دیا کہ تم دونوں وہیں لگاؤ گے جہاں رسول اللہ ﷺ لگاتے تھے۔ اگر تم سے یہ کام نہیں ہوتا تو مال مجھے واپس کر دو۔
نتیجہ: حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال فئے، خیبر اور فدک کے معاملے کو سیدنا عمر، عثمان، علی، حسن و حسین، زین العابدین رضی اللہ عنھم نے اپنے اپنے دور میں اسی طرح تقسیم کیا جسطرح سیدنا ابوبکر کا فیصلہ تھا یعنی چاروں خلفاء کا طریقہ ایک تھا اور یہ اہلتشیع کی کتب میں بھی لکھا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ اہلتشیع کا جھوٹ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فدک اپنے داماد مروان کو دے دیا تھا۔
حرف آخر: فدک اور دیگر مال فئے کا مطالبہ صرف سیدہ فاطمہ نے نہیں کیا بلکہ حضور ﷺ کی بیویوں، سیدنا علی، سیدنا عباس نے بھی کیا، البتہ حضور ﷺ کے فرمان کے خلاف کے خلاف کوئی نہیں گیا۔ سیدنا عمر فاروق نے بھی سیدنا عباس اور سیدنا علی کو سرکاری نوکری دی کہ آپ دونوں مال مدینہ کی مینجمنٹ ویسے کرو جیسے حضور ﷺ کرتے تھے۔
فیصلہ: عوام فیصلہ کر لے کہ اگر حضور ﷺ کی بیویاں اور چچا عباس رضی اللہ عنھم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے حدیث سُن کر خاموش رہے تو کیا سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا اپنے والد صاحب کی بات سُن کر ناراض ہو سکتی ہیں؟؟ اُس ناراضگی کا ایشو مولا علی یا سیدہ فاطمہ کے کسی بیٹے نے نہیں بنایا بلکہ بے بنیاد دین اور نام نہاد مسلمان اہلتشیع نے بنایا ہے۔
ناراضگی: بخاری 4240: سیدہ فاطمہ سیدنا ابوبکر کے فیصلے سے ناراض گئیں اور ان کا جنازہ رات کے وقت سیدنا علی نے پڑھایا حالانکہ اہلسنت اور اہلتشیع کی دیگر کُتب میں لکھا ہے کہ سیدہ فاطمہ سیدنا ابوبکر سے راضی گئیں اور نماز جنازہ بھی سیدنا ابوبکر نے پڑھایا۔
اہلسنت کی کتابوں کے حوالے: سیدنا علی نے فرمایا اے ابو بکر آگے بڑھ کر جنازہ کی امامت کیجیے، سیدنا ابوبکر نے فرمایا آپ کے ہوتے آگے بڑھوں؟ سیدنا علی نے فرمایا جی بالکل اللہ کی قسم آپ کے علاوہ کوئی جنازہ کی امامت نہیں کرا سکتا تو سیدنا ابوبکر نے سیدہ فاطمہ کے جنازے کی امامت کرائی اور رات کو ہی دفنایا گیا۔ (تاریخ الخمیس 1/278 الریاض النضرۃ 1/176، سمط النجوم 1/536) (الكامل في ضعفاء الرجال5/422 ,423، ذخیرۃ الحفاظ روایت نمبر 2492)(بغية الباحث عن زوائد مسند الحارث1/381) (حلیۃ الاولیاء 4/96) (ميزان الاعتدال 2/488) (الطبقات الكبرى 8/24) (الطبقات الكبرى8/24) (البدایہ و النہایۃ 1/98، اتحاف الخیرۃ 2/460، حلیۃ الاولیاء 4/96، کنزالعمال 15/718) (سنن کبری بیھقی روایت نمبر6896)
اہلتشیع کی کتب کے حوالے: سیدہ فاطمہ کا سیدنا ابوبکر سے راضی ہونا ان کتب سے ثابت ہے۔(کتاب درہ تحفیہ شرح نہج البلاغۃ صفحہ 332-331) (الشیعہ واہل البیت صفحہ 75) (آفتابِ ہدایت صفحہ251) (شرح نہج البلاغۃ جلد 5 صفحہ 7 از ابن میثم البحرانی مطبوعہ تہران)
سیدہ فاطمہ کا گھر جلایا گیا؟
سیدہ فاطمہ کے راضی ہونے سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ اگر اہلتشیع یا نورارنی چہرے، سفید داڑھی اور دستار باندھے نام نہاد اہلسنت پیر یا عالم بیان کرے کہ اہلسنت کی کتابوں میں لکھا ہے (یعنی اہلسنت نے خود اپنے خلاف لکھا ہے) کہ سیدنا عمر فاروق نے سیدہ فاطمہ کا گھر جلایا تو سمجھ لیں کہ اہلبیت اور صحابہ کرام کو بدنام کرنے کی سازش کرنے والوں میں سےہے۔
چیلنج: اہلتشیع اہلسنت کی جن کتابوں کی ضعیف روایات (1) تاریخ طبری اردو جلد دوم، صفحہ 205 (2) جلد دوم، حصہ اول صفحہ 406 (3) مصنف ابنی ابی شیبہ کتاب المغازی (باب 43 – 42) ص 579، حدیث 38200 کے سکین پیجز بھی دیتے ہیں، اُن کو غور سے پڑھیں اُس سے بھی ثابت نہیں ہوتا کہ سیدنا عمر نے آگ لگا کر گھر یا دروازہ جلایا گیا ہو۔
کچھ بد بخت یہ بھی کہتے ہیں کہ سیدنا عمر نے سیدہ فاطمہ کے پیٹ میں مکہ مارا یا دروازے کو لات ماری یا دروازے کا کواڑ پیٹ میں لگنے سے محسن کی وفات ہو گئی کیونکہ سیدہ فاطمہ حاملہ تھیں۔ (نعوذ باللہ)
جواب: سچ یہ تھا کہ سیراعلام النبلاء، میزان الاعتدال میں راوی احمد بن محمد بن السی بن یحیی بن ابی دارم المحدث اور کتاب الملل و النحل میں راوی ابراھیم بن یسار کے متعلق لکھا ہے کہ یہ جھوٹے شیعہ راوی سیدنا عمر پر جھوٹ اور تہمت لگاتے ہیں کہ بچہ مارا۔ گھوڑے کو پُوجنے والوں نے مفہوم بدل کر اپنی عادت کے مطابق بات کو ٹوسٹ یعنی گھما دیا۔ دوسرا مُردہ بچے کا نام نہیں رکھتے اور "سیدنا محسن نے حضور ﷺ کی زندگی میں وفات پائی تھی” اسلئے نام رکھا گیا۔ (البدایہ والنہایہ)
اصول و قانون: اہلتشیع سے سوال ہے کہ اہلتشیع حضرات کی حضورﷺ کی احادیث (مرفوع، موقوف، مقطوع) کی کونسی مستند کتابیں ہیں جو قرآن سے نہیں ٹکراتیں، جن کو وہ مانتے ہیں اور ان احادیث کی شرح کن اصولوں پر کرتے ہیں؟ اور اہلسنت کی کتابوں کی احادیث کی تشریح بھی کیا انہی اصولوں پر کرتے ہیں یا سازش کر کے اپنی مرضی کی تشریح کرتے ہیں؟
حقیقت: قرآن کریم اور حضور ﷺ نے کسی کو خلیفہ نہیں بنایا، بنو ثیقفہ میں سیدنا ابوبکر کی خلافت کے بعد سیدنا علی اور سیدنا زبیر نے بیعت نہیں کی تھی بلکہ سیدہ فاطمہ یا کسی اور گھر میں بیٹھ کر سوچتے تھے۔ سیدنا عمر نے ان کو سمجھانے کے لئے سیدہ فاطمہ کے گھر کے باہرگھر جلانے کی دھمکی لگائی جیسا ان ضعیف روایات میں لکھا گیا حالانکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ سیدنا ابوبکر نے سیدنا علی اور زبیر دونوں کو سمجھایا کہ مسلمانوں میں نااتفاقی پیدا نہ کرو تودونوں عشرہ مبشرہ صحابہ نے بیعت کر لی۔
نتیجہ: یہ اسلامی گورنمنٹ کا معاملہ تھا جس میں اپوزیشن اور سرکاری ارکان نے ایک دوسرے پر تنقید کی مگر قرآن اور حضور کے فرمان کے خلاف کوئی کام نہیں کیا۔ سیدنا علی کی بیعت والے واقعہ کے بعد سیدہ کے فدک والے مطالبے کا مسئلہ بھی خوش اسلوبی سے حل ہوا اور اہلسنت و اہلتشیع کی کتابوں میں لکھا ہے کہ سیدہ فاطمہ سیدنا ابوبکر سے راضی گئیں۔
معذرت: فیس بک نے ہمارا پہلا پیج فقیر محمد رضوان داودی، پلان اے، بند کر دیا ہے اور یہ پیج بھی ہمارے پلان بی کا حصہ ہے اور فقیر محمد رضوان داودی کے نام سے ایک اور پیج بنا لیا ہے اُس میں پہلے والا ڈاٹا اکٹھا کر رہے ہیں، نیا پیج فقیر محمد رضوان نہ ملے تو مانگ سکتے ہیں۔
سوال: کیا ہر مسلمان اسطرح اپنے بچوں کی تربیت کر رہا ہے تاکہ احادیث کا بچوں کو علم ہو اور نبی کریم ﷺ کا دین پھیلے، اگر نہیں تو تیار ہوں، وقت تھوڑا ہے اور قیامت والے دن جواب دینا ہے کہ اپنے بچوں کو کونسا دین دے کر آئے ہو۔
حقیقت: اہلتشیع دین مولا حسین کے مُنکر، ان کے نانا کے دین کے مُنکر، ان کے بابا علی کے دین کے مُنکر بلکہ اسلام کے مُنکر ہیں کیونکہ قرآن ”کتابی” شکل میں ہے تو قرآن کو ماننا اللہ کریم کو ماننا ہے۔ حضور ﷺ اور مولا علی کو ماننے کا مطلب ہے کہ اُس مستند اسناد اور راوی کے ساتھ نماز روزے کی ”احادیث کی کتاب” کو ماننا جو حضور ﷺ اور مولا علی کے الفاظ ہوں تو اہلتشیع بتا دیں کہ ان کی مستند احادیث کی کتابیں کونسی ہیں جس کو مان کر نبی ﷺ اور مولا علی کو مانتے ہیں؟
اجماع امت: اہلسنت علماء جو خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت، عقائد اہلسنت پر ہیں ان کو چاہئے کہ عوام کو بتائیں کہ اصل فتنہ تفسیقی و تفضیلی و رافضیت ہے جو ہماری صفوں میں پھیل رہا ہے۔ دیوبندی اور بریلوی کا اصولی اختلاف چار کفر یہ عبارتیں ہیں اور دونوں جماعتوں کو سعودی عرب + اہلحدیث نے بدعتی و مشرک کہا۔ اذان سے پہلے درود، نماز کے بعد کلمہ، جمعہ کے بعد سلام، جنازے کے بعد دُعا ، قل و چہلم، میلاد، عرس، ذکر ولادت، یا رسول اللہ مدد کے نعرے ہماری پہچان نہیں ہیں۔ تینوں جماعتوں کی لڑائی میں عوام کے ساتھ ساتھ شیطان بھی اہلسنت پر ہنس رہا ہے ۔ چار مصلے اجماع امت اہلسنت اہلسنت