Nikkah (نکاح)

نکاح

1۔ ڈکشنری میں متعہ کے معنی فائدہ اُٹھانے کے ہیں اور شروع اسلام میں جیسے شرا ب جائز، پالتو گدھے کھانا جائز، اسی طرح عورتوں کو کچھ دے کر ان سے اپنی خواہش پوری کرنا بھی جائز تھا۔ (صحیح بخاری 4615، 5075، ابن ماجہ 1962، نسائی 3368، صحیح مسلم 1406) اُس کے بعد حضور ﷺ نےنکاح متعہ حرام قرار دے دیا۔ (صحیح بخاری 4216، 5115، 5523 مسلم 5005، 3431، 3433، 3435)

غلط فہمی: صحیح مسلم 3429: سیدنا عبداللہ بن عباس پہلے نکاح متعہ کا فتوی دیتے تھے کہ اضطراری طور پر جائز ہے، پھرصحیح بخاری 5115 "سیدنا علی نے سیدنا عبداللہ بن عباس کو سمجھایا کہ نکاح متعہ رسول اللہ نے منع کر دیا ہوا ہے”۔ سیدنا عبداللہ بن عباس نے بھی نکاح متعہ کے جائز ہونے سے رجوع کر لیا۔ (مسند أبي عوانۃ : 2/273، ح : 2384) اسطرح اہلسنت کی تفاسیر میں بھی سیدنا ابن عباس کا رجوع ثابت ہے۔

قانون: تمام صحابہ کرام کو ہر حدیث کا علم نہیں تھا کیونکہ قرآن آہستہ آہستہ نازل ہوا اور حضور ﷺ نے سکھایا، اسلئے ہمارے نماز روزے کے مسائل میں فرق بھی مختلف احادیث کی وجہ سے ہے۔ البتہ ابن ماجہ 1963میں سیدنا عمر نے خلیفہ بن کر قانون بنایا کہ رسول اللہ ﷺ نے تین بار متعہ کی اجازت دی پھر اسے حرام قرار دیا اور اب کوئی کرے تو یہ زنا ہے اور اس پر حد لاگو ہو گی۔ اسلئےاہلسنت کا اب اجماع ہے کہ نکاح متعہ حرام ہے۔

سیدنا علی کا فتوی: سیدنا علی نے بخاری و مسلم میں نکاح متعہ کو حرام قرار دیا اور سیدنا عباس کو بھی سمجھایا۔ اہلتشیع کی معتبر کتاب فروع کافی اور تہذیب الاحکام میں بھی ”سیدنا علی سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے خیبر کے دن گھریلو گدھوں کا گوشت اور متعہ حرام کر دیا۔” (تہذیب الاحکام 2886، استبصار 3842، فروع کافی 2/192) صحابہ کرام اور اہلبیت کو ماننے والے کے نزدیک متعہ حرام ہے۔

تفاسیر اہلتشیع: اہلتشیع حضرات سورہ نساء 24 ”فما استمتعتم“ کی تفسیر میں لکھتے ہیں: جس نے ایک مرتبہ متعہ کیا اسکا درجہ سیدنا حسین کے درجے کی مانند ہے، جس نے دو مرتبہ متعہ کیا اسکا درجہ سیدنا حسن اورتین مرتبہ متعہ کرنے والے کا درجہ سیدنا علی کے برابر اور چار مرتبہ متعہ کرے اُس کا درجہ میرے (ﷺ) برابرہے (معاذ اللہ منہاج الصادقین جلد دوم صفحہ481) ۔

خمینی اپنی کتاب تحریر الوسیلہ جلد 2 صفحہ 292 پر لکھتا ہے کہ ”زانیہ عورت سے متعہ کرنا جائز ہے مگر کراہت کے ساتھ، خصوصاً جبکہ وہ مشہور پیشہ ور زانیہ ہو، اور اگر اس سے متعہ کر لے تو اسے (بطور نصیحت) بدکاری کے پیشہ سے منع کر دے“۔

سوال: اہلتشیع حضرات سے جب سوال کیا جائے کہ اہلسنت نے تو صحابہ کرام اور اہلبیت سے ثابت کیا کہ نکاح متعہ جائز نہیں۔ تم اپنے بارہ امام سے ثابت کرو کہ کس نے یہ نیک کام کیا اور تم کس کی سنت پر عمل کرتے ہو یا کس امام نے کہا یہ ہمارے نزدیک حرام اور اہلتشیع عوام کے لئے جائز ہے ؟؟ پھرغصہ میں کہیں گے کہ سیدہ اسماء بنت ابو بکر نے متعہ کیا نعوذ باللہ (سنن کبریٰ (سنن نسائی) جلد 3 صفحہ 135 باب متعہ)

جواب: پہلی بات امام نسائی ابو عبد الرحمن احمد بن شعيب بن علی کی یہ کتاب سنن کبری کو عوام سنن نسائی سمجھتی ہے حالانکہ سنن نسائی میں ایسی کوئی حدیث نہیں اور سنن کبری کو صحاح ستہ میں شمار نہیں کیا جاتا۔
دوسری بات سیدہ اسماء کا یہ فرمانا "ہم رسول اللہ کے زمانے میں نکاح المتعہ کیا کرتے تھے” کا مطلب یہ نہیں کہ میں نے کیا بلکہ اس کا مطلب وہی ہے کہ ہمارے زمانے میں یہ جائز تھا جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم احادیث کا اوپر ریفرنس دیا ہے۔

مثال: لقد کنا مع رسول اللہ ﷺ تقتل اٰباءنا وبنائنا و اخواننا اوعمامنا ترجمہ: بے شک ہم حضور ﷺ کے ساتھ اپنے باپوں بیٹیوں بھائیوں اور چچاؤں کو قتل کرتے تھے۔ (نہج البلاغہ جلد ا ص ۱۲۰) اس کا مطلب بھی ہر گز یہ نہیں ہو گا کہ سیدنا علی اور حضور قتل کیا کرتے تھے۔ اسلئے اہلتشیع بات کو گھما کر حدیث کا مفہوم بدلنے میں ماہر ہیں جیسے حدیث ثقلین، حدیث عمار، حدیث قرطاس میں کرتے ہیں۔

تیسری بات صحیح بخاری 4823 میں سیدہ اسماء کا سیدنا زبیر کے ساتھ نکاح اور صحیح بخاری 3909 میں سیدنا عبداللہ بن زبیر کی پیدائش کا لکھا ہے اور کسی غیر معتبر کتاب کا حوالہ قبول ہی نہیں اور نہ ہی ان صحیح احادیث کی شرح کی ضرورت ہے۔

چور چور: یہ یاد رہے کہ اہلتشیع کے پاس اہلسنت کی طرح صحیح اسناد اور راوی کے ساتھ حضور ﷺ، صحابہ کرام و اہلبیت یعنی سیدنا علی، سیدنا حسن و حسین، سیدہ فاطمہ کی احادیث کی کتابیں (بخاری، مسلم، ترمذی، ابن ماجہ، نسائی، ابوداود) نہیں ہیں اور نہ ہی اہلسنت کے ائمہ کی طرح فقہ کے مجتہد ہیں۔ اہلتشیع دین چور امام جعفر کے اقوال کی کتابیں (1) الکافی ابو جعفر کلینی 330ھ نے یعنی امام جعفر صادق سے 180 برس بعد (2) من لا یحضرہ الفقیہ جو محمد بن علی ابن یایویہ قمی 380ھ تقریباً 230 سال بعد (3,4) تہذیب الاحکام اور استبصار جو محمد بن طوسی 460ھ تقریباً 310 برس بعد کو احادیث کہتے ہیں اور یہ اقوال بھی اہلسنت کی کتابوں سے چوری کر کے سند و راوی و کچھ متن بدل کر کتابیں تیار کی گئی ہیں۔

نتیجہ: اہلتشیع کا دین پنجتن والا نہیں ہے، حضور ﷺ کی احادیث والا نہیں ہے، مولا علی، سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن و حسین والا نہیں ہے۔ اہلبیت نے کسی بھی حدیث میں اہلتشیع کو نہیں کہا کہ تم فدک، جمل و صفین، امامت وغیرہ میں اہلسنت سے بدلہ لینا کیونکہ ان پر ظلم اہلسنت نے کیا نہیں اور اگراہلتشیع سمجھتے ہیں تو اپنی کتابوں سے ثابت کریں اور ان کے پاس پنجتن کی صحیح سند و راوی و متن کے کتابیں نہیں ہیں اور کہتے رہیں گے کہ اہلبیت کے دشمن پر بے شمار مگر یہ ۔۔ خود ان پر ہی پڑ رہی ہے کیونکہ جھوٹے ہیں۔

شور: اہلتشیع کہیں گے کہ نکاح مسیار و جہا د، حلالہ بھی متعہ کی ایک قسم ہے اور موجودہ دور میں نکاح متعہ کو غریب کے لئے جائز قرار دیں گے مگر کہیں اہلتشیع نے اپنے گھر کے باہر بورڈ نہیں لگا ہو گا کہ یہاں نکاح متعہ کی سہولت موجود ہے کیونکہ جائز ہی نہیں۔ یہ سہولت صرف بازار حسن والوں کے لئے ہے جن کا پیشہ ہے اور جن کو لائسنس بھی اہلتشیع ہونے کی وجہ سے ملتا ہے۔

حرام: ہمارے نزدیک نکاح متعہ،نکاح مُسیار، عرفی نکاح، نکاح جہ اد اور مروجہ حلالہ جائز نہیں  ویسے ان کی تعریف بتا دیتے ہیں:

نکاح مُسیار: دو سال کیلئے مرد پڑھائی یا کمائی کیلئے بیرون ملک جائے اور وہاں طلاق دینے کی نیت سے کسی عورت سے نکاح کیا اور وہ عورت اپنے کچھ حقوق چھوڑ بھی دیتی ہے، عورت اپنے میکے میں رہے گی، پیسہ بھی مرد سے لے گی اور مرد ضرورت کے وقت اُسے استعمال کرے گا۔ یہ نکاح دیوبندی، بریلوی یعنی اہلسنت حنفی کے نزدیک ”حرام“ ہے۔ سعودی عرب کے شیخ ابن باز کے ماننے والے (اہلحدیث، سلفی، توحیدی، محمدی) کچھ شرائط سے اسے شرعی نکاح نہیں بلکہ جائز نکاح قرار دیتے ہیں۔

جہا د النکاح: مجا ہد ین کیلئے شروع کیا گیا مگر شریعت میں اسکی کوئی گنجائش نہیں۔

نکاح عُرفی: نکاح عرفی بھی متعہ کی ایک قسم ہے جس کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں۔ ایک بندہ چھ ماہ کے لئے عورت سے نکاح کرے اور اُس کے بعد چھوڑ دے۔

تین طلاق: کوئی بھی دیندار اپنی بیوی کو تین طلاق نہیں دیتا،البتہ جاہل جس کو نکاح، ولیمہ، حق مہر کی شرائط کا بھی علم نہیں ہوتا وہ اکٹھی تین طلاق دیتا ہے تو اہلسنت (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) کے نزدیک تین طلاق علماء کہنے سے طلاق ہو جاتی ہے اور وہ اس کا حل مانگتا ہے تو اُس جاہل کو معاشرے میں دو حل نظر آتے ہیں:

1۔ اہلحدیث جماعت سے جا کر فتوی لے آتے ہیں اور اہلحدیث یہ بتاتے ہی نہیں کہ کس مجتہد کے قانون و اصول پر فتوی دیتے ہیں اور کس نے کہا کہ اب تقلید بدعت و شرک ہے اور اب میری اتباع کرنا۔ اہلسنت کے نزدیک اہلحدیث کا فتوی درست نہیں۔

2۔ اہلسنت حنفی کے مفتیان عظام نے حلالے کے لئے شرط رکھی ہے کہ اپنی مرضی سے طلاق دے۔ حلالے میں بھی مرد و عورت خفیہ نکاح کرتے ہیں، بعض اوقات عورت عدت بھی نہیں پوری کرتی۔البتہ یہ کہا جاتا ہے کہ مرد نکاح کے بعد طلاق دینے پر مجبور نہیں ہے حالانکہ دیکھا جائے تو یہ بات پہلے ہی ڈن (done) کر لی گئی ہوتی ہے کہ حلالہ کرنے والے نے طلاق دینی ہی دینی ہے۔

عدالتی خُلع: عورتیں اور مرد ایک دوسرے کو دھوکہ دے رہے ہیں اور دنیا داری میں ایک دوسرے کو تنگ کرتے ہیں۔ البتہ طلاق میاں بیوی کی باہمی رضا مندی سے ہوتی ہے، اگر عدالت مرد کی موجودگی اور اُس کی سُنے بغیر یکطرفہ فیصلہ دے دے تو اہلسنت حنفی کے نزدیک طلاق نہیں ہوتی۔

اہلسنت : دیوبندی اور بریلوی ایک مکتبہ فکر کے ہیں، دیوبندی و بریلوی دونوں خلافت عثمانیہ والے اہلسنت ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مُشرک کہا مگر دونوں جماعتیں بریلوی یا دیوبندی اپنے آپ کو اہلسنت کہلانا پسند کرتی ہیں مگر یہ دونوں نہیں بتاتیں کہ اہلسنت کون تھے؟ خلافت عثمانیہ والے یا سعودی عرب کے وہابی پلس اہلحدیث تقیہ باز گروپ جن کا اپنا امام جس نے تقلید کو بدعت و شرک کہا "غائب” ہے۔ دیوبندی ، بریلوی، اہلحدیث، وہابی کو توبہ کرنا ہو گی یا عوام کو حقائق سمجھنے ہوں گے۔

تحقیق: جس مرضی جماعت میں رہیں کوئی مسئلہ نہیں لیکن قیامت والے دن اپنا جواب دینے کے لئے اپنی جماعت کی تحقیق کر لیں اور وہاں یہ نہ کہنا کسی نے بتایا نہیں تھا۔ البتہ ہم نے قرآن و سنت پر چلنے والا مسلمان بننا ہے اسلئے دیوبندی، بریلوی، وہابی یا اہلتشیع نہیں بننا۔

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general