حق مہر اور فاطمی حق مہر

1۔ سورہ نساء 4: ”عورتوں کو ان کے مہر(نحلہ) خوش دلی سے دو“۔ صحیح بخاری 4756:حضورﷺ نے حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ حق مہر کتنا دیا تو انہوں نے عرض کی کہ ایک گٹھلی کجھور کے برابر سونا دیا“۔

2۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ صحیح مسلم 1425 اور صحیح بخاری 5029 کے مطابق حضورﷺ نے قرآن کی سورتیں سُنانے پر بھی نکاح کر دیا کیونکہ اُس عورت نے حضورﷺ کو ہبہ کر دیا تھا۔ البتہ جاہل عوام شرعی حق مہر 32.50 روپیہ سمجھتی ہے یہ بھی غلط ہے کیونکہ قرآن و سنت کے مطابق خزانہ بھی دیا جا سکتا ہے۔

مہر فاطمی: سیدہ فاطمہ کے حق مہر میں سیدنا علی نے اپنی زرہ دی جو کہ 480 درہم میں بکی اور 480 درہم کی 400 مثقال چاندی (1700 گرام یعنی 1.7 کلو گرام) جس کی موجودہ قیمت 1,80,710 روپے بنتی ہے۔

جہیز فاطمی: حضور ﷺ نے سیدہ فاطمہ کو کوئی جہیز نہیں دیا بلکہ اپنی کسی بیٹی کو جہیز دیا اور نہ ہی لیا۔ سیدنا علی کی زرہ کی رقم سے ضروریات زندگی کی چند چیزیں خریدیں گئیں۔

3۔ حق مہر کا مطلب ہے کہ عورت سے جسمانی فائدہ (صحبت) لینے سے پہلے مرد کو کم از کم دس درہم کی چاندی (30.618 گرام / 2.75 تولہ) کے پیسے عورت کو دینا اور زیادہ سے زیادہ مکان، زمین، سونا وغیرہ دینا۔ اگرمردعورت کو حق مہر نہیں دیتا تو عورت کو اختیارہے کہ جب چاہے اس کو اپنے ساتھ صحبت نہ کرنے دے جب تک حق مہر ادا نہ کرے۔ نکاح نامے پر مہر کی دو قسمیں لکھی ہوتی ہیں:

۱) مہر معجل: وہ مہر جو عورت کے مطالبے پر نکاح کے وقت ہی ادا کرنا واجب ہے، اگر مرد مہر ادا نہیں کرتا تو عورت اُس کو اپنے ساتھ جسمانی تعلقات سے جب مرضی روک سکتی ہے۔

۲) مہر مؤجل: وہ مہر ہے جس کا وقت مقرر کر دیا جائے کہ فلاں وقت ادا کر دوں گا، اسلئے اس مہر پر عورت مرد کو اپنے پاس آنے سے نہیں روک سکتی، البتہ جب وقت گذرنے پر بھی مرد عورت کو حق مہر نہ دے تو پھر عورت مرد کو اپنے ساتھ صحبت کرنے سے روک سکتی ہے۔

4۔ عورت کی سعادت و نیک بختی میں شامل ہے کہ اس کا مہر ہلکا، نکاح آسان اور عورت کے اخلاق اچھے ہوں جب کہ عورت کی بدبختی یہ ہے کہ اس کا مہر زیادہ، نکاح دشوار اور اخلاق بُرے ہوں۔ سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ نکاح کرتے وقت جس لڑکی سے نکاح کرنا ہے، وہ اپنے گھر میں کیا کھاتی پیتی پہنتی اور کیسے رہتی ہے وہ دیکھ لیا جائے تاکہ بعد میں اُس کے معیار کے مطابق اُس کو رکھا جائے۔ لڑکی والے بھی لڑکے والے کو دیکھ لیں کہ کیا وہ اُن کی لڑکی کو اسطرح رکھیں کہ جیسے گھر میں والدین نے رکھا ہوا ہے۔ اسی طرح حق مہر بتا دیں کہ ہمارے خاندان میں کیا رواج ہے۔

5۔ عورت کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لئے ”دین“نے حل دیا ہے کہ باپ کی جائیداد میں سے حصہ، نکاح کے وقت شوہر سے حق مہر لینااور کھانے کے لئے روزانہ یا ماہانہ کا خرچہ لینا اور اس میں بچانا، شوہرکی وفات کے بعد جائیداد میں حصہ، باپ یا بھائی کی طرف سے تحفہ، جو کچھ ملے اس کو لے کراپنے بڑھاپے اور مستقبل کے لئے رکھنا چاہئے۔ اگر عورت کو ان مسائل کا علم نہیں یا وہ سمجھدار نہیں تو مرد(باپ، بھائی، شوہر) کے فرائض میں سے ہے کہ ”عورت“ کو سمجھائے اور اس کی ”جائیداد“ بنانے میں اس کی مدد کرے یا بینک اکاؤنٹ علیحدہ کھلوا دے۔

6۔ حق مہر میاں بیوی کاشرعی مسئلہ ہے، جس کی اہمیت عورت کو بتائی نہیں جاتی، اس لئے کبھی وہ مرد کو معاف کر دیتی ہے، کبھی مدرسہ، مسجد یا فقیر کو اللہ واسطے دے دیتی ہے، کبھی والدین نے شادی پر پیسے لگائے ہوتے ہیں تو اُن کو دے دیتی ہے۔ البتہ حق مہر عورت کولینا اور مرد کو دینا چاہئے اور لینے دینے کے بعد فی زمانہ کوشش کریں کہ اسٹامپ پیپر پر لکھوا لیں کہ ادا کر دیا ہے۔

طبرانی کی ایک روایت کے مطابق جس کا ارادہ حق مہر دینے کا نہیں وہ کل قیامت والے دن زانی کی حیثیت سے پیش ہو گا۔

نتیجہ: ہر مرد و عورت اس معاشرے کو کیا سکھا رہا ہے، کیا کر رہا ہے، کتنا شریعت پر چل رہا ہے، کتنے حقوق شریعت کے مطابق ادا کر رہا ہے یا شریعت کے خلاف چلنے پر سزا بگھت رہا ہے۔ اپنی اپنی پراگرس رپورٹ رب سے دائیں یا بائیں ہاتھ میں لینے کے لئے تیار رہیں۔

جماعتیں: دیوبندی اور بریلوی جماعتیں تو ایک عقائد کی ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا۔ اہلحدیث اور سعودیہ ایک عقائد کے ہیں مگر فراڈ یہ ہے کہ وہ نام نہاد حنبلی اور یہ غیر مقلد کہلاتے ہیں، اہلحدیث کو چاہئے کہ سعودیہ کے ساتھ نام نہاد حنبلی ہو جائیں اور تقیہ بازی چھوڑ دیں۔ دیوبندی اور بریلوی کا اصولی اختلاف چار کفریہ عبارتیں ہیں مگر دیوبندی بریلوی کو بدعتی و مشرک اگر سعودیہ کے ساتھ ملکر کہہ رہے ہیں تو واضح ہے کہ اپنے اکابر کو چھوڑ کر یہ بھی تقیہ بازی کر رہے ہیں۔ دجالی سسٹم میں جھوٹ جماعتیں بول رہی ہیں اور عوام پریشان ہے۔

اہلتشیع بے دین اور بے بنیاد ہیں کیونکہ ان کے عقیدے کے پہلے معصوم حضورﷺ کی کوئی احادیث کی کتاب ان کی نہیں ہے۔ دوسری معصوم سیدہ فاطمہ کی بھی احادیث کی کتابیں نہیں ہیں۔ پہلے، دوسرے اور تیسرے معصوم امام سیدنا علی، حسن و حسین کی بھی نہیں ہیں بلکہ امام جعفر صادق کے قول کو نبی کے برابر حدیث کا درجہ دیا گیا، وہ احادیث بھی اہلسنت کی چوری کر کے ان کے نام لگا دیں ورنہ آئی کہاں سے۔

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general