ذکر ولادت
میں اپنے پیر و مُرشد کے ساتھ تھا تو کسی نے کہا یا علی مدد تو آپ نے بھی فرمایا یا علی مدد، میں نے حیرانگی سے کہا یہ تو رافضی ہے اور آپ نے اُس کے نعرے پر نعرہ لگا دیا ہے تو فرمانے لگے کہ بیٹا، اُس نے جو جملہ کہا اہلسنت کے لئے احادیث کی رو سے جائز ہے، البتہ اہلتشیع بے بنیاد دین ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اس پر سوال جواب شروع ہو گئے:
سوال:حضرت یہ میلاد منانا جائز ہے یا ناجائز، بدعت ہے یا مستحب؟
جواب: بیٹا، اس سوال سے پہلے یہ بتاؤ کہ اس کو جائز و مستحب کون کہتا ہے اور ناجائز و بدعت کون؟
میراجواب: حضرت مستحب بریلوی کہتے ہیں اور بدعت دیوبندی اور اہلحدیث کہتے ہیں۔
جواب: دیوبندی کو تو بدعت نہیں کہنا چاہئے کیونکہ ان کی اپنی دیوبندی اکابر کی کتاب ”المہند“ میں ذکر ولادت کو ”مستحب“ کہا گیا ہے۔ اسطرح تو دیوبندی رافضی کی طرح جھوٹ بول کر اپنی عوام کو گمراہ کررہے ہیں اور اپنے اکابر کے عقائد کو چھوڑ کر سعودیہ کے وہابی عقائد کی پیروی کر رہے ہیں۔
سوال: حضرت وہ کہتے ہیں کہ جو کام (میلاد) نبی یا صحابی نے نہیں کیا ہم نہیں کریں گئے۔
جواب: بیٹا، بالکل ٹھیک،پہلا سوال ہے کہ کسی بھی عمل کا نام رکھنا بدعت ہے یا سنت رسول ﷺ جیسے نمازوں کے نام فجر، ظہر۔ صدقے کا نام زکوۃ اور فطرانہ۔ حج کے نام قرآن، تمتع، افراد۔ احادیث کے نام حدیث ثقلین، حدیث عمار۔ اگر کسی عمل کا نام میلاد رکھنا بدعت ہے تو یہ نعوذ باللہ حضور ﷺ کو بدعتی کہنا ہے، اسلئے نبی کریم اور صحابہ بدعتی نہیں ہو سکتے ورنہ سیرت کانفرنس نام رکھ کر خود بھی بدعتی ہوئے۔
سوال: حضرت (1) میلاد لفظ کا مطلب کیا ہے، (2) اس کو منانے کا طریقہ کار کیا ہے (3) اور کیا یہ 12 ربیع الاول کو ہی منایا جاتا ہے۔
جواب:(1) میلاد کے لغوی معنی ”ولادت“ کے ہیں اور اصطلاحی معنوں میں حضور ﷺ کا ذکر کرنا ہے۔ (2) اس کا کوئی مخصوص طریقہ کار نہیں ہے بلکہ حضور ﷺ کا ذکر کرنا، سیرت و صورت بیان کرنا، صحیح احادیث بیان کرنا، قرآن خوانی کر کے، درود و سلام پڑھکر، نعت خوانی کر کے، روزہ رکھ کر، صدقہ و خیرات کر کے، عُمرہ کر کے، اپنی فرض نمازیں، روزے، زکوتیں یعنی ہر نیک عمل ”اللہ“ واسطے کر کے اُسے حضور ﷺ کو ہدیہ، تحفہ، نذرانہ (ایصالِ ثواب) کرنا میلاد ہے (3) اس کا 12ربیع الاول سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ حضور ﷺ کا ذکر اور ان کو تحفہ نذرانہ انفرادی طور پر جب مرضی کر سکتے ہیں اور اجتماعی طور پر بھی جب مرضی کر سکتے ہیں۔اسلئے12وفات اور 12ربیع الاول کا بے وقوفانہ جھگڑاکوئی نہیں۔
سوال: اس کا مطلب ہوا کہ میں اپنی فرض نمازیں، قربانی، روزے اور دیگر سب اعمال اللہ واسطے کر کے حضور ﷺ کو ہدیہ تحفہ بھیج دور تو یہ میرا روزانہ کا میلا دہے مگر پھر یہ 12ربیع الاول کو جھنڈیاں، جلوس، محافل، صبح فجر سے پہلے درود و سلام، دیگیں، یہ سب کچھ کیاہے؟
جواب:بالکل تم ٹھیک سمجھے ہر نیک عمل حضور ﷺ کو ہدیہ تحفہ (ایصالِ ثواب) کرنا ہی میلاد ہے۔ اسی طرح یہ جھنڈیاں، جلوس، محافل میلاد منانا نہیں بلکہ میلادحضور ﷺ کو توبہ کر کے منانے کا نام میلاد ہے۔
سوال: حضرت توبہ کیسے ہو گی؟
توبہ اسطرح ہو گی کہ دیوبندی اور بریلوی جماعتیں، علماء اور عوام یہ اعلان کرے کہ اصل اہلسنت 625سالہ خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت والے تھے جن کو سعودی عرب +اہلحدیث نے 1924میں بدعتی و مُشرک کہہ کر مکہ و مدینہ کے قبرستانوں کے مزارات ڈھائے اور اہلحدیث مان لیں کہ ہم سعودیہ والے ہیں اور پھر ملکر ایک ہونے کی کوشش کریں۔
سوال: یہ چار مصلے کیا ہیں؟
جواب: صحابہ کرام سارے مجتہد تھے، قرآن و سنت کو جانتے تھے، اسلئے سب نے جو حضور ﷺ کو کرتے اورفرماتے سُنا انہوں نے اُس پر عمل کیا۔ تابعین کو یہ مسائل پیش آئے کہ مختلف احادیث پر مختلف صحابہ تھے، اس لئے چار علماء نے قرآن و سنت کے مطابق کچھ اصول و قانون پر اپنی فقہ کی بنیاد رکھی، اسلئے تابعین کے دور سے خلافت عثمانیہ تک ان چاروں کے زیادہ تر شاگرد تھے، اسلئے خلافت عثمانیہ کے دور میں ساری دنیا کی آسانی کے لئے خانہ کعبہ میں تقلید کا قانون منظور کر کرکے چار اطراف کو مقرر کر دیا گیا کہ حنفی حنفی کے پیچھے، شافعی شافعی کے پیچھے نماز ادا کرے تاکہ لڑائی نہ ہو۔
سوال: کیا ایک مصلہ نہیں ہونا چاہئے تھا؟
جواب: ایک مصلہ تب ہوتا ہے جب حضور ﷺ کی احادیث ایک ہوں، صحابہ کرام نے ایک طرح سے نماز ادا کر کے دکھائی ہو۔البتہ تمام اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) کسی ایک قانون و اصول پر متفق ہو کر ایک طریقہ اختیار کر لیں تب بھی ایک مصلہ ہو جائے گا۔
سوال: سعودیہ میں ایک مصلہ ہی تو ہے؟
جواب: مذاق کرتے ہو، وہاں دیوبندی حنفی، اہلحدیث غیر مقلد، سعودی وہابی حنبلی انداز کے پیچھے اپنے اپنے طریقے پر نماز ادار کریں تو کیا یہ ایک مصلہ ہے؟ ایک مصلہ تب ہے جب تینوں کی نماز کا طریقہ ایک ہو، تینوں ایک متفقہ کتاب میں اپنے عقائد اورنماز، روزے کے مسائل میں ایک ہو جائیں۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ کرے یہ تینوں ایک ہو جائیں اور اہلسنت کوایک ہونے کی دعوت دیں۔
حقیقت:البتہ اگر دیوبندی اور بریلوی ایک ہو جاتے ہیں تو سب کو یہ علم ہو جائے گا کہ اذان سے پہلے درود، نماز کے بعد کلمہ، جمعہ کے بعد سلام، قل و چہلم، تیجہ، دسواں، عرس، ایصالِ ثواب، میلاد، عرس، پیری مریدی، دم درود کے جائز و ناجائز پر کوئی ایشو نہیں بلکہ اگر یہ سارے اعمال نہ کئے جائیں تو کوئی گناہ نہیں اور اس طرح سعودی وہابی علماء کو بھی کوئی اعتراض نہیں رہے گا۔
سوال: حضرت اہلتشیع بھی تو مسلمان ہیں؟
جواب: اہلتشیع حضرات حضور ﷺ، مولا علی، سیدنا حسن و حسین کو نہیں مانتے کیونکہ وہ خود کہتے ہیں کہ بنو امیہ کے دور میں جھوٹی احادیث گھڑی گئیں اور بنو امیہ کا دور 131ھ تک رہا، اسلئے چودہ معصوم اور بارہ امام کا عقیدہ نہ تو رسول اللہ، نہ صحابہ کرام، نہ اہلبیت اور نہ ہی ان کے بارہ امام کا تھا۔ یہ اہلسنت کی احادیث کے بھی مُنکر ہیں اور اپنی احادیث کی کتابوں کے بھی مُنکر ہیں۔ یہ خود یزیدی ہیں مگر حُسینی اور اہلبیت کا نام کارڈ کے طور پر استعمال کر کے ایک نیا ”گھوڑا دین“ بنا بیٹھے ہیں۔ ان کی برین واشنگ کر کے لعنت بے شمار پر لگا دیا گیا ہے، مگر یہ خود بھی نہیں جانتے کہ کون سے مسلمان ہیں۔
کوشش: پوسٹ کو شئیر نہ کیا کریں بلکہ لنک کے ساتھ کاپی کر کے اپنی وال پر لگائیں تاکہ پوسٹ فیس بک ڈلیٹ بھی کر دیتا ہے تو آپ کی وال پر موجود رہے۔