گھر جوائی
1۔ گھر جمائی یا جوائی ”داماد“ کو کہتے ہیں۔ سُسر ساس ماں باپ ہی ہیں مگر جو درجہ ”ماں باپ“ کا ہے وہ سُسر ساس نہیں لے سکتے جیسے بیٹے کی وراثت میں سگے والدین کا حصہ ہے مگرساس سُسر کا نہیں۔ اسی طرح بیٹی کے مال کی وراثت میں اُسکے والدین کا حصہ ہے مگر ساس سُسرکا نہیں۔
2۔ ہمارے رواج ہے کہ لڑکا نکاح کر کے لڑکی کو اپنے گھر لے کر جاتا ہے۔ البتہ کیا یہ دینِ اسلام نے سکھایا تھا کہ لڑکا لڑکی کو اپنے گھر میں لے جائے جہاں وہ ساس، سُسر، نند، دیور کے ساتھ رہے گی؟
3۔ اگر لڑکی لڑکے کو لے کر اپنے گھر آ جائے جہاں لڑکے کو اپنے ساس سُسر، برادر نسبتی وغیرہ کے ساتھ رہنا پڑے تو کیا شریعت نے منع کیا ہے؟ اگر نہیں کیا، تو جانے دیں۔
قانون:شریعت کے مطابق حق یہ ہے کہ لڑکا اور لڑکی کے پاس علیحدہ گھر یا کمرہ ہونا چاہئے۔ اُن کے معاملات میں کسی کی مداخلت نہیں ہونی چاہئے۔ قانون تو ہے مگر اس پر عمل کی جرات کون کرے گاتاکہ اللہ کریم کو راضی کرے۔ ہر لڑکا اور لڑکی کو آزاد کریں۔
4۔ اپنے اپنے والدین کی خدمت لڑکا لڑکی خود کریں اور ایک دوسرے کے والدین کی خدمت کرنے میں ایک دوسرے کی مدد بھی کریں۔اگر شریعت کے مطابق حق حقوق دئے جائیں تو ہمارے عذاب کم ہو جائیں گے اور جینا آسان ہو جائے گا۔
5۔ لڑکا اور لڑکی کا نکاح جب ہوتا ہے تو دونوں کے والدین کے لئے دونوں کی تربیت کرنا لازمی ہے۔ البتہ لڑکی والے کچھ سمجھائیں گے تو کہا جائے گا کہ لڑکی کو سکھاتے ہیں۔ لڑکے کو اُس کے والدین سمجھائیں گے تو کہا جائے گا کہ اُس کی والدہ اُسے اُلٹی پٹی پڑھاتی ہے۔
6۔ اگر والدین سمجھتے ہیں کہ ہمارا بیٹا گھر کا خرچہ نہیں چلا سکتا تو پھر اُس کا نکاح نہ کریں کیونکہ لڑکی کا خرچہ لڑکے نے دینا ہے۔ والدین کو چاہئے کہ اپنی اولاد کے رزق کے ذرائع تلاش کرنے میں لڑکے کی مدد کریں ورنہ اُن کے مرنے کے بعد اولاد کو پریشانی ہو گی۔
7۔ گھر کا خرچہ والدین چلاتے ہیں تو لڑکی کا کام نہیں ہے کہ اپنی ساس یا سُسر سے مانگے بلکہ لڑکی کا کام ہے کہ اپنے خاوند سے مانگے۔بہترین طریقہ یہی ہے کہ شریعت کے مطابق لڑکی کا روزانہ یا ماہانہ خرچہ دیا جائے کہ تم اپنی مرضی سے کپڑے جوتے وغیرہ جہاں سے مرضی لے سکتی ہو کیونکہ جس نے جو پہن کر سکون لینا ہے، اُسے خود خریدنا چاہئے۔
8۔ ہمیں اپنے طور طریقے بدلنا ہوں گے، اپنی اولادوں کو دین سکھانا ہو گا۔ لڑکا اور لڑکی کی زندگی میں بے جا مداخلت بند کرنا ہو گی۔ آپس میں مذاکرات کرنے ہوں گے، اچھے پہلو اختیار کرنا ہوں گے ورنہ کل قیامت والے دن دنیاوی رسم و رواج کو اختیار کرنے اور شریعت کی نافرمانی پر ہم سب کو عذاب دیا جائے گا۔
فرقے: دیوبندی اور بریلوی ایک مکتبہ فکر، ایک تعلیم اور ایک عقائد کے ہیں کیونکہ دیوبندی و بریلوی دونوں خلافت عثمانیہ والے اہلسنت ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مُشرک کہا، البتہ دیوبندی اور بریلوی کا اصولی اختلاف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کا ہے۔
اگر دیوبندی اور اہلحدیث اب سعودیہ کے وہابی علماء کے ساتھ ہیں تو پاکستان میں ان کے عقائد و اعمال پر اللہ واسطے ایک طرح نماز کا طریقہ، ایک طرح کے اصول و قانون پر ایک ہو جائیں ورنہ منافقت نہ کریں۔
تحقیق: ہم خلافت عثمانیہ والے ( بریلوی فتاوی رضویہ و دیوبندی المہند)عقائد پر ہیں جن کو وہابی علماء نے بدعتی و مُشرک بغیر ریفرنس کے کہا، البتہ ہم نے دیوبندی، بریلوی، وہابی یا اہلتشیع نہیں بلکہ قرآن و سنت پر چلنے والا مسلمان کہلانا ہے اور عقائد اہلسنت کی دعوت دینی ہے۔ چار مصلے اجماع امت اہلسنت اہلسنت
مکار: اہلتشیع کا امام پنجتن (حضور، مولا علی، سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن و حسین) نہیں ہیں کیونکہ ان کے پاس پنجتن کی احادیث کی کوئی کتاب نہیں ہے۔
موازنہ: اہلسنت کی صحاح ستہ سے پہلے 81 چھوٹی بڑی احادیث کی کتابیں ملتی ہیں اور صحاح ستہ کے محدثین نے تبع تابعین علماء سے روایات لیں جنہوں نے تابعین علماء سے سُنا تھا اور تابعین نے صحابہ کرام سے سُنا تھا اور صحابہ کرام نے حضور ﷺ سے سُنا تھا : امام محمد بن اسماعیل (194 ۔ 256 بخاری)، امام مسلم بن حجاج (204 ۔ 261)، امام ابو داؤد (202 ۔ 275)، امام محمد بن عیسی (229 ۔ 279 ترمذی)، امام محمد بن یزید (209 ۔ 273 ابن ماجہ)، امام احمد بن شعیب (215 ۔ 303 نسائی)
اہلتشیع کے پاس بارہ امام کی زندگی تک کوئی ریکارڈ نہیں ہے بلکہ امام جعفر صادق کی ”احادیث“ کی کتابیں (1) الکافی ابو جعفر کلینی 330ھ نے یعنی امام جعفر صادق سے 180 برس بعد (2) من لا یحضرہ الفقیہ جو محمد بن علی ابن یایویہ قمی 380ھ تقریباً 230سال بعد (3) تہذیب الاحکام اور (4) استبصار جو محمد بن طوسی 460ھ تقریباً 310 برس بعد لکھی گئی ہیں۔
بے بنیاد: صحابہ کرام، اہلبیت، بارہ امام سب کا دین ایک ہے مگر اہلتشیع کی بنیاد پنجتن نہیں ہیں، بارہ امام نہیں ہیں، صحابہ کرام نہیں ہیں۔ اہلتشیع بے بنیاد دین ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔