آپریشن اور کرامت
بہت پرانی بات ہے کہ ہمارے بزرگ سانگھڑ ہسپتال میں داخل ہوئے کیونکہ ان کی پُشت پر رسولی ہو گئی تھی، جب آپریشن کا وقت آیا تو ڈاکٹر نے کہا کہ آپ کو بے ہوش کر دیا جائے تاکہ آپ کو تکلیف نہ ہو۔ انہوں نے فرمایا کہ ڈاکٹر صاحب آپ اپنا کام کریں، مجھے میرا کام کرنے دیں۔ ڈاکٹر نے کہا کہ آپ کیا کام کریں گئے، بابا سائیں نے فرمایا کہ ہم اللہ کریم کی یاد میں مست ہو جائیں گے۔
ڈاکٹر صاحب وہ اہلحدیث تھے جو پیروں فقیروں کو نہیں مانتے تھَے بلکہ مذاق اُڑاتے تھے۔ جب آپریشن کا وقت ہوا، ڈاکٹر صاحب نے سب کچھ ریڈی کیا اور سرجری کرنی شروع کی تو بابا سائیں نے سورہ یس کی تلاوت کرنا شروع کر دی اور دوسری طرف آپریشن ہوتا رہا۔ کافی لمبا آپریشن تھا، ساری رسولی کو کاٹ کر سوراخ کو صاف کیا گیا اور اُس میں دوائی لگا کو کپڑا ڈال دیا گیا۔
جب آپریشن ختم ہوا تو وہ ڈاکٹر صاحب بابا سائیں سے بہت متاثر ہوئے اور کہنے لگے کہ میں نے زندگی میں یہ پہلا واقعہ دیکھا ہے ورنہ عام شخص ہوتا تو مر گیا ہوتا تو بابا سائیں نے فرمایا کہ یہ اللہ کریم کا دیا ہوا حوصلہ ہوتا ہے جس کو عوام کرامت، طاقت اور اختیار سمجھ لیتی ہے ورنہ پیر فقیر اللہ کریم کے بندے ہوتے ہیں جو ہمیشہ اللہ کریم کی بندگی سکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اُس ڈاکٹر صاحب نے عرض کی کہ میرے گھر بیٹا نہیں ہے۔ آپ دعا کر دیں کہ اللہ کریم مجھے بیٹا عطا کر دے تو بابا سائیں نے فرمایا کہ ہم اللہ تو ہر گز نہیں ہیں مگر اللہ کے بندے اگر اللہ کریم کے آگے عرض کر دیں تو اللہ کریم اُن کا بھرم رکھ لیتا ہے، اسلئے تم اور تمہاری بیوی کو ایک وظیفہ کرنا ہو گا کہ وضو ہو یا نہ ہو مگر اپنے دل میں ہر کام کرتے ہوئے لفظ "اللہ، اللہ، اللہ” جاری رہے۔
اُس ڈاکٹر صاحب نے وعدہ کیا اور اپنی بیوی کو سمجھایا تو دونوں میاں بیوی نے ذکر کرنا شروع کر دیا۔ ایک سال نہ گذرا ، اللہ کریم نے اُن کو بیٹا دیا۔ اُس وقت موبائل دور نہیں تھا، اُس ڈاکٹر صاحب نے کیسٹ میں بچے کے رونے کی آواز بھیجی تو سب سُن کر حیران ہوئے کہ بچہ روتا ہے مگر اُس کا رونے کی آواز اللہ اللہ اللہ ہوتی ہے کبھی لمبی آواز میں اللہ، کبھی ہلکی آواز میں اللہ۔
بابا سائیں نے یہ کیسٹ سب کو سُنا کر فرمایا کہ اللہ کریم جس کو چاہے جسطرح چاہے ہدایت دے، اب یہ ڈاکٹر صاحب کو ہدایت دینی تھی تو اللہ کریم نے وسیلہ ہمیں بنا دیا۔ اب ہر کوئی کہے کہ میرے ساتھ بھی ایسا ہو تو ایسا نہیں ہوتا بلکہ ہر ایک کو قدرت نئے نئے انداز میں سمجھاتی ہے۔ اصل مسئلہ بچہ نہیں بلکہ ہدایت تھا۔
ہر دن اللہ کریم کی ایک نئی شان ہے اور دعا کرنی چاہئے کہ یا اللہ جس وقت میں تو اپنی رحمتیں برساتا ہے، اُس وقت میں مجھے بھی شامل فرما لے، جس وقت میں تو اپنے نور سے سب کو ہدایت کی روشنی دیتا ہے، اُس وقت میں مجھے بھی شامل فرما لے، جس وقت میں دعائیں قبول فرماتا ہے، اُس وقت میں مجھے بھی شامل فرما لے۔
مُشکل: مسلمانوں کا اکٹھا ہونا مشکل نہیں بلکہ مشکل اپنی انانیت کو مارنا ہے جیسے دیوبندی اور بریلوی جماعتیں، ایک تعلیم، ایک عقیدے کے لوگ ہیں مگر دو مسالک سمجھے جاتے ہیں۔ دونوں جماعتوں کی تعلیم وہی ہے جس کو سعودی عرب کے وہابی علماء + اہلحدیث نے بدعت و شرک کہا۔ اب سمجھنے والا سمجھ لے کہ بدعت و شرک اگر کسی عالم نے سکھایا ہو تو بتایا جائے کس اہلسنت عالم نے بدعت و شرک سکھایا ورنہ آج تک بدعت و شرک کسی نے نہیں سکھایا بلکہ اصول سمجھنے کی ضرورت ہے۔
اصول: اہلحدیث حضرات کہتے ہیں کہ ہم قرآن وصحیح احادیث پر ہیں تو بالکل ٹحیک مگر یہ اصول کس مجتہد نے دیا اُس کانام نہیں بتا سکتے؟
اہلتشیع جماعت کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ صحابہ کرام کی احادیث مانتے نہیں اور پنجتن کی احادیث ان کے پاس نہیں ہیں تو مسلمان کیسے۔ ان کا تو نماز جنازہ بھی ادا نہیں کرنا چاہئے ورنہ خود تحقیق کر لیں کہ ان کی بنیاد پنجتن نہیں ہیں۔ اسلئے یہ بے بنیاد دین ہے جو اسلام کا مینڈیٹ چوری کرنا چاہتا ہے اور مسلمانوں کو اس کا بائیکاٹ کرنا چاہئے۔