ٹیشو پیپیر
اکثر لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں اس نے ٹیشو پیپرکی طرح استعمال کر کے پھینک دیا حالانکہ ٹیشو پیپر بھی عوام کی سہولت کے لئے ہے اور اگر کسی نے بھی کسی کو سہولت دی اور اُس نے سہولت لی اور اُس کے بعد جیب میں تو نہیں رکھنا بلکہ پھینک ہی دینا ہے۔ اسلئے یا تو ٹیشو پیپر نہ بنو بلکہ ضرورت بنو۔
ٹیشو پیپرہماری ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہم جس مُلک میں رہتے ہیں وہاں کے شہروں میں مٹی و گرد اتنی ہوتی ہے کہ گھر کی الماریوں کے اندر لٹکے ہوئے کپڑوں پر بھی مٹی کا چھڑکاو ہوا نظر آتا ہے۔ خاص طور پر گرمیوں میں، تیز ہوا چلنے سے سارے گھر میں مٹی ہو جاتی ہے، جس سے برتن تک دوبارہ دھونے پڑ جاتے ہیں۔
البتہ میڈیا کے اشتہارات میں خوبصورت لڑکی اور لڑکے ٹیشو پیپر کے ساتھ پسینہ پونچھتے دکھائی دیتے ہیں تو ہم بھی اس کو اپناتے ہیں۔ دفاتر یا گھروں میں، کھانے کے بعد اور دیگر جگہوں پر ٹیشو پیپر ایک ضرورت بن گیا ہے حالانکہ اُس سے پہلے ہر ایک کے پاس ایک چھوٹا یا بڑا رومال ہاتھ صاف کرنے کے لئے ہوتا، جس سے وہ زُکام لگا ہوتا تو اپنی ناک بھی صاف کر لیتا تھا اور بوقت ضرورت ہاتھ بھی صاف کر لیتا۔ اُس رومال کو دوبارہ دھو کر قابل استعمال بنا لیا جاتا۔
آپ نے دیکھا ہو گا کہ کسی کے پاس ایک ہی ٹیشو پیپرہے، اُس سے ناک صاف کرتا ہے، اُسے پھینکتا نہیں بلکہ اُسے دُہرا کر کے پھر ناک صاف کرتا ہے، ٹیشو پیپر لاکھ کہے کہ مجھ سے ایک بار ہی صفائی کرو مگر وہ ٹیشو پیپرکو رومال کی طرح سمجھتا ہے۔ ٹیشو پیپیر، اُن ممالک کے لئے بہتر ہے جہاں سردی زیادہ ہے، مٹی نہیں، پولوشن نہیں ہے یا امیر آدمیوں کے لئے بہتر ہے، غریب آدمی کے لئے تو پیسوں کا ضیاع ہے مگر اس سے قطعاً انکار نہیں کہ یہ اب زیادہ تر لوگوں کی ضرورت ہے۔
پہلے دور میں گائوں وغیرہ میں وٹہ وانی کے لئے جایا جاتا، پوچھنے والے کہیں گے یہ وٹہ وانی کیا ہے تو جناب مٹی کے ڈھیلے سے پیشاب اور پاخانہ کے مقام کو صاف کرنا، اس کو وٹہ وانی کہتے ہیں۔ اس وقت زیادہ تر عوام کو کہا جائے کہ پہلے دور میں دور جا کر کھیتوں میں یا ریتلے ڈھیلوں کے پیچھے پیشاب پاخانہ کر کے وٹہ وانی کی جاتی تھی تو برا منائیں گے حالانکہ اب گھروں میں ٹیشو پیپر سے پیشاب پاخانہ صاف کرنے والے بھی یہی کام کر رہے ہیں مگر برا محسوس نہیں کرتے۔
پہلے زمانے میں ٹوائلٹ میں جانے سے پہلے لوٹا لیا جاتا اور پھر اُس لوٹے سے پیشاب پاخانے کا مقام دھو کر ، اُسی لوٹے میں پانی لے کر وضو بھی کر لیا جاتا کیونکہ پیشاب پاخانہ دھونے کے لئے بھِی لوٹا اور پانی پاک ہونا چاہئے اور وضو کے لئے بھی لوٹا اور پانی کا پاک ہونا ضروری ہے مگر آجکل جس لوٹے سے پیشاب پاخانے کی جگہ دھوئی جاتی ہے، اُسی لوٹے سے وضو کرنے کو دل نہیں کرتا حالانکہ وہ پاک ہے۔
کمپلیکس کی شکار عوام کی اسی نفسیاتی بیماری سے فائدہ اُٹھا کر ہمیں لاکھوں سے چیزیں بیچی جاتی ہیں جو ہماری ضرورت نہیں ہوتیں مگر ہم اُس کو ضرورت سمجھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ غوروفکر کی عادت ڈالنے سے یہ معلوم ہو گا کہ ہم بہت سے کام صرف مزے کے لئے کرتے ہیں، اپنی عادت کی وجہ سے کرتے ہیں حالانکہ شریعت کے مطابق جو پیسہ غیر ضروری کاموں میں صرف ہو اُس کا حساب کتاب ہو گا۔
اسی طرح ہماری نفسیاتی بیماری ہے کہ جو ہمارا نہیں یا ہمارے کام کا نہیں، ہم اُس سے شدید نفرت کرتے ہیں حالانکہ ہمارے پیار کے دو بول سے وہ نفرت محبت میں بھی تبدیل ہو سکتی ہے۔ ہم جماعتوں میں رہتے ہیں اور اپنے دل پسند علماء کو ہی سُنتے ہیں حالانکہ اصول یہ ہے کہ مسلمانوں کو اکٹھا ہونا چاہئے تاکہ ایک ہو کر امت واحدہ کے لئے کام کریں مگر ایسی سوچ دینے والے کا مذاق بنایا جائے گا تو اُس کو کیا فرق پڑتا ہے وہ تو اللہ کے لئے یہ چاہتا ہے کہ مسلمان اکٹھے ہوں۔
تعلیمات اور شخصیات: عوام کو بے وقوف بنایا جاتا ہے یعنی یہ کہا جاتا ہے کہ دو مذاہب ہیں ایک یزیدی اور دوسرا حیسنی حالانکہ سوال یہ ہے کہ یزید اور سیدنا حسین کس دین پر تھے جو قرآن و سنت پر نہیں وہ یزید ہے اور جو قرآن و سنت پر ہے وہ سیدنا حسین ہیں۔ اہلتشیع کے پاس حضور، مولا علی، سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن و حسین کی کوئی احادیث کی کتابیں، احادیث اور تعلیم نہیں، اسلئے مسلمان نہیں۔
بریلوی اور دیوبندی کوئی دو مسالک نہیں، احمد رضا ہو یا اشرف علی تھانوی ان دونوں پر ایمان لانے کا حُکم نہیں مگر عوام کو دونوں کی تعلیمات نہیں سکھائی گئیں بلکہ دیوبندی اور بریلوی میں تقسیم کر دیا۔ اصولی اختلاف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کا ہو گا مگر پہلے جس تعلیم کی وجہ سے فتوی لگا اُس عقائد کا علم ہونا چاہئے۔
اہلحدیث اور سعودی وہابی علماء کی تعلیم ایک ہے مگر تقیہ بازی یہ ہے کہ دونوں کے نزدیک بریلوی اور دیوبندی کی تعلم بدعت و شرک ہے۔ البتہ سعودی وہابی علماء دیوبندی کے ساتھ بھی بنا کر رکھتے ہیں اور اہلحدیث کو بھی چندہ ملتا رہتا ہے۔ اسلئے ساری دنیا جانتی ہے کہ اہلحدیث حضرات وہابی ہیں مگر سعودی حنبلی کہلاتے ہیں اور اہلحدیث غیر مقلد۔ اس فرق کو ختم کرکے وہابی اور اہلحدیث کو ایک ہونا چاہئے۔
نتیجہ: پہلے بریلوی اور دیوبندی کی تعلیم جو فتاوی رضویہ اور دیوبندی کی المہند کتاب میں ہے، اُس پر اہلسنت کو ایک ہونا چاہئے۔ دوسرا اہلحدیث اور سعودی وہابی علماء پہلے ایک ہو جائیں اور پھر بتائیں کہ بدعت و شرک کس نے سکھایا تو جھوٹ سمجھ میں آ جائے گا۔ بدعت و شرک کسی نے نہیں سکھایا، یہ سب اہلحدیث حضرات پلس سعودی وہابی علماء کا اہلسنت کے خلاف پراپیگنڈا ہے جس سے لبرلز، سیکولر، رافضیت کو فائدہ ہو رہا ہے۔