محترم نورالدین زنگی
دُنیا کے نقشے میں بہت سے مُلک وجود میں آئے اور مٹ گئے جیسے 1947 میں پاکستان دُنیا کے نقشے پر وجود میں آیا اور 1924 میں خلافت عثمانیہ مِٹ کر ترکی تک محدود ہو گئی۔ اسی طرح اچھی بُری شخصیات دُنیا میں آتی رہیں اور اپنے اپنے وقت میں دنیا سے چلی جاتی رہیں مگر کچھ اچھی شخصیات کا دُنیا میں نام مشہور ہو جاتا ہے کچھ کا نہیں جیسے بہت سے انبیاء کرام کا نام اور قبریں تک معلوم نہیں ہیں۔
نورالدین زنگی (511 – 569ھ عمر 58سال) کا اصل نام محمود، باپ کا نام عمادالدین، لقب نور الدین، ترک زنگی خاندان سے تھے۔ والد عماد الدین سلجوقی حکومت کی طرف سے شہر موصل کے حاکم تھے۔ سلجوقی حکومت (428 – 511ھ تقریباً) مختلف ملکوں اور شہروں کی مسلمان ترک حکومت ہے جس نے خلافت عباسیہ کو بھی مضبوط رکھا۔ سلجوقی حکومت جب کمزور ہو گئی تو عمادالدین نے زنگی سلطنت قائم کر لی۔
یورپ والوں نے بیت المقدس پر قبضہ کر لیا تو عماد الدین زنگی نے ایک ریاست ”ایڈسا“ 538ھ میں ان کے قبضے سے چھڑاکر ریکارڈ میں نام لکھوا کر 540ھ میں شہید ہو گئے۔ اُس کے بیٹے نورالدین زنگی نے 28سال (569ھ) تک شاندار حنفی مسلک کے مطابق حکومت کی اور صلیبی لڑائیوں میں بھر پور حصہ لیا اور بیت المقدس کو آزاد کرنے کی راہ ہموار کر کے نام ریکارڈ میں لکھوایا۔
نورالدین زنگی کو مسلمانوں اور عیسائی حضرات نے بھی شاندار خراج تحسین پیش کیا کیونکہ نورالدین زنگی، عاشق رسول، عادل، سخی، مصنف، منصف، مساجد و مدارس کی تعمیر، قیمتی کتابوں کی لائبریری، ہسپتال، پُل، خانقاہیں، مسافر خانے بنانے والا ہے یعنی کہ ہر اسلامی خوبی اس میں پائی جاتی تھی۔
حفاظت: اللہ کریم نے حضور ﷺ کو فرمایا: ”واللہ یعصمک من الناس“ اور اللہ تعالی تمہیں لوگوں سے محفوظ فرمائے گا۔(المائدہ 67)۔ بعد از ظاہری وصال کے بھی اللہ کریم نے اپنے محبوب کو عوام سے محفوظ رکھا ہے۔ تاریخ میں پانچ ایسے واقعات آئے جس میں رافضیوں، عیسائیوں وغیرہ نے حضور ﷺ کے جسم اطہر کو ان کی قبر انور سے نکالنے کی کوشش کی مگر اللہ کریم نے حفاظت کے اسباب پیدا فرمائے۔
خواب: نورالدین زنگی رحمتہ اللہ علیہ کو بھی حضور ﷺ کی زیارت ہوئی اور دیکھا کہ آپ کے دائیں بائیں دو بندے ہیں جن کو دیکھ کر آپ پریشان ہو رہے ہیں، خواب کے پیچھے مدینہ پہنچے، سب کی دعوت کی مگر دو بندے نظر نہ آئے، پوچھا، علم ہو اکہ روضے کے پاس دو درویش ہیں مگر دعوت میں نہیں آئے۔ بُلایا تو وہی دو، ان کے کمرے کی تلاشی لی تو ایک سُرنگ قبر انور کی طرف بنا کر یہ حضور ﷺ کا جسم اقدس وہاں سے نکالنا چاہتے تھے۔ ان دونوں کو قتل کیا گیا اور روضے کے گرد حفاظتی حصار یا دیوار قائم کی گئی۔
خوش قسمتی: نورالدین زنگی رحمتہ اللہ علیہ کہا کرتے تھے کہ میری خوش قسمتی، میں تیرا امتی، مجھے اس کام کیلئے قبول کیا۔ ہر خاص و عام ساری زندگی کوشش کرے کہ اللہ کریم کے نور کے ایک ذرے سے روشنی لے کر دوسروں کو روشنی عطا کرنے والا بن جائے۔ رونا چھوڑ کہ کیا ہو رہا ہے اور اگر کچھ کر سکتا ہے تو کر کے دکھا۔
فتاوی: اہلحدیث حضرات تو پیری مریدی، کشف، خوابات کے خلاف ہیں اور جس کو دل کرے ضعیف کہہ کر رد کر دیں، اسلئے اہلحدیث کے اس ؤاقعہ کو نہ ماننے کے حوالے بھی کمنٹ سیکشن میں موجود ہیں۔ دیوبندی اور بریلوی حضرات کے ماننے کے حوالے بھی کمنٹ سیکشن میں موجود ہیں۔ ر
مشن: محترم نورالدین زنگی رحمتہ اللہ علیہ کا مشن تھا کہ بیت المقدس کو آزاد کرانا وہ اپنی نیت میں کامیاب رہے، اسلئے ان کے بعد ان کا کام محترم صلاح الدین ایوبی نے پورا کیا۔ اسیطرح ہر ایک کو اپنے لئے کوئی مشن چننا چاہئے جیسے ہمارا مشن ہے۔
اتحاد امت: دیوبندی و بریلوی کی تعلیم ، عقائد اور اصول ایک ہیں سوائے دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کے اصولی اختلاف کے۔ دونوں جماعتوں کی تعلیم سعودی عرب کے وہابی علماء پلس اہلحدیث حضرات کے نزدیک بدعت و شرک ہے حالانکہ ایسا کہنا وہابی پلس اہلحدیث کے نزدیک زیادتی ہے۔
وہابی پلس اہلحدیث کو چاہئے کہ پاکستان اور سعودی عرب میں یا تو حنبلی ہو جائیں یا غیر مقلد مگر رافضیوں کی طرح اہلسنت پر اٹیک نہ کریں۔ اہلحدیث حضرات کو صحیح احادیث پر عمل اور ضعیف احادیث کا منکر ہونے کا فارمولہ کس نے دیا، یہ ہر گز نہیں بتاتے کیونکہ ہیں تو یہ بھی فارمولہ دینے والے کے مقلد۔ دیوبندی و بریلوی تعلیم پر اکٹھے ہو کر رافضیوں اور خارجیوں کو شکست دی جا سکتی ہے مگر پہلے دیوبندی و بریلوی الفاظ کی پہچان ہٹا کر۔
غیر مسلم: اہلتشیع بے بنیاد مذہب ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ مسلمان قرآن و سنت پر ایمان رکھنے سے بنتا ہے اور اہلتشیع کے علماء (زرارہ، ابوبصیر، محمد بن مسلم، جابر بن یزید، ابو بریدہ) اور بنیادی صحیح کتب (الکافی، من لا یحضر الفقیہ، تہذیب الاحکام، استبصار) کا سماع حضور ﷺ، حضرت علی، حسن و حسین وجعفر صادق و دیگر امام کے ساتھ ثابت نہیں ہے، اسلئے ان کی کتابیں سب منگھڑت ہیں اور اہلسنت کی کتابوں کو یہ مانتے نہیں تو پھر کون ہیں اہلتشیع؟