
بخشش اور مغفرت
اپنے پیر و مرشد سے پوچھا کہ میں چاہتا ہوں کہ اللہ کریم مجھے معاف کر دے تو انہوں نے فرمایا کہ اگر تم اپنے اندر صفت پیدا کر لو کہ دوسروں کو بھی معاف کر دیا کرو تو امید کامل ہے کہ اللہ کریم تمہاری بخشش بھی فرما دے گا۔
اگر تمہارے اندر بدلہ لینے کی صفت موجود ہے اور دوسروں کو سبق سکھانے کا جذبہ ہے تو پھر اللہ کریم بھی واللہ عزیز ذوانتقام ہے۔ اسلئے اگر بخشش چاہتے ہو تو دوسروں کو معافی دو۔
معافی دینے کا مطلب بھی یہی ہے کہ یہ ارادہ ہے کہ کل قیامت والے دن بھی اللہ کریم کے سامنے عرض کروں گا کہ یا اللہ میں نے اسے معاف کر دیا تھا اور اے اللہ تو مجھے معاف کر دے۔
پیر و مرشد نے فرمایا کہ ایک اور بخشش کا طریقہ ہے کہ اپنی نیکی رب سے منسوب کرو اور برائی اپنے سے منسوب کرو۔ ہر برائی کرنے کے بعد یہ نہیں کہنا کہ کیا اگر اللہ کریم چاہتا تو مجھے اس برائی سے بچنے کی توفیق نہیں دے سکتا تھا، اسطرح برائی رب سے منسوب نہیں کرنی کہ جیسے برائی رب نے کروائی ہے۔
یہ بھی نہیں کہنا کہ جو تقدیر میں لکھا ہے وہی ہونا تھا، اسلئے میرا کوئی قصور نہیں ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ تقدیر رب نے لکھی ہے اور اُس کے حکم کے بغیر ذرہ بھی حرکت نہیں کر سکتا لیکن سیدنا آدم کر طرح عرض کرنی ہے “ربنا ظلمنا انفسنا” لیکن شیطان کی طرح یہ نہیں کہنا کہ “ربی بما اغویتنی” اے میرے رب تو نے مجھے گمراہ کیا ہے۔
برائی کر کے دنیا میں مُکر جانے والے سے بھی کل قیامت والے دن پوچھا جائے گا کہ تم نے یہ برائی کی تو جھوٹ بول دیں گے کیونکہ جو یہاں پر عادت ڈالو گے وہاں بھی وہی عادت ہو گی اور کہیں گے کہ یا اللہ ہم نے تو نہیں کی اور پھر اللہ کریم ان کے منہ پر مُہر لگا دے گا، اسلئے ان کے ہاتھ و پاوں بولیں گے جس پر سزا بھی دی جائے گی۔
یہ سچ ہے کہ اپنی برائی کسی پر ظاہر نہ کریں، کسی کو گواہ نہ بنائیں لیکن خود برائی کر کے دوسروں پر بھی نہ ڈالیں بلکہ عادت ڈالیں کہ اپنے گناہ کو بھی اپنے شریر بچے کی طرح سمجھ کر قبول کریں ورنہ دوسروں پر الزام لگا کر اُس کی زندگی کو عذاب بنانا بدترین گناہ ہے۔ اسلئے سمجھایا گیا ہے:
استغفار: معافی صرف استغفار پڑھنے کا نام نہیں اور نہ ہی صرف معافیاں مانگتے رہنے کا نام ہے بلکہ معافی اپنے آپ کو بدلنے کا نام ہے۔
قابلِ معافی: غلطی قابلِ معافی تو ہوتی ہے مگر محبت کے قابل نہیں ہوتی اور غلطی کرنے والا اگر بے شرمی کرتے ہوئے شریعت وطریقت کی حدوں کو بھی توڑدے تو اس کے لئے بد دعا نہ بھی نکلے مگر دل سے یہ دعا ہے کہ کبھی اس کا سامنا نہ ہو۔
جا تجھے معاف کیا: اگر کوئی کسی سے اپنی غلطی کی معافی مانگے اور ہماری زبان سے نکل جائے کہ”جا تجھے معاف کیا“ توانشاء اللہ قیامت والے دن بھی اس بندے کی غلطی کی پُوچھ معافی دینے کی وجہ سے نہیں ہو گی۔
انعام: واردات، گناہ اوربُرائی کے آثار کو اگر مجرم مٹا بھی دے تو روزِ قیامت راز کُھل جائے گا لیکن اگر اپنے جُرم کی معافی اپنے ربِ کریم سے مانگ لے تو ہر گناہ کے تمام آثار جب اللہ کریم مٹا دیتا ہے تو پھر ان آثار کا نام و نشان قیامت والے دن بھی نہیں ملے گا۔
معافی: وقت اس وقت واپس آ سکتا ہے جب انسان اپنی ساری زندگی میں کئے گئے ہر عمل کو واپس لے آئے یعنی اگر کسی کے ساتھ غلط کیا ہو تو معافی مانگ لے۔ اگر کسی کا نا جائز لیا ہوتو واپس کر دے۔ اگر اللہ کریم کے فرائض پورے نہیں کئے تو اس قضاء کو ادا کر دے۔ اسی کو توبہ اور محاسبہ کہتے ہیں اور اگر اس حالت میں موت آ جائے توانشاء اللہ مومن کی موت مرے گا۔
اصلاح: کسی کی غلطی پر لفظوں سے اس کو ذلیل کرنے سے بہتر یہ ہے کہ وہی کام اس سے بہتر انداز میں کر کے اس کی اصلاح کی جائے۔
خود غرضی: غلطی کی معافی مل جاتی ہے مگر خود غرضی کی سزا ملتی ہے۔ خود غرض اپنی غرض کے لئے بار بار غلطی کرتا ہے اس لئے کہ خود غرض کو اپنی غرض کے سوا کسی سے کوئی غرض نہیں ہوتی ۔غرض کی عبادت کرنے والوں کے سجدے غرض ختم ہو جانے پر ختم ہو جاتے ہیں یا غرض پوری نہ ہونے پر شکایت بن جاتے ہیں۔ غرض کی محبت میں غرض مروا دیتی ہے۔
ناراض: دو سرو ں کو معا ف کر نا اچھی با ت ہے مگر ایسے نہیں کہ وہ ہمیشہ ہی غلطی کرتے رہیں بلکہ انداز وہ اختیار کریں کہ ان کی اصلا ح ہو جا ئے اور وہ غلطی کر نا بھی چھو ڑ دیں۔ اگر وہ اصلاح کر نے کا برا مان کر تجھے چھوڑ دیں تو اُن سے ناراض نہ ہو نا کیونکہ ناراض اپنوں سے ہوا جا تا ہے۔
ایک اسلام: دیوبندی و بریلوی کی تعلیم پر سب مسلمان اکٹھے ہو سکتے ہیں کیونکہ دیوبندی کی المہند اور بریلوی کے فتاوی رضویہ کی تعلیم ایک ہے سوائے چار کفریہ عبارتوں کے اختلاف کے۔ اہلحدیث غیر مقلد اپنے سعودی وہابی علماء کے ساتھ حنبلی ہو جائیں تو بہت بہتر ہے تاکہ فرق مٹ جائے یا سعودی وہابی نام نہاد حنبلیت چھوڑ کر غیر مقلد ہو جائیں ورنہ انتشار انہی کی وجہ سے ہے۔
غیر مسلم: اہلتشیع حضرات کو مسلمان نہیں کہا جا سکتا کیونکہ صحابہ کرام اور اہلبیت کا دین ایک تھا؟ دونوں نبوت کے فیضان سے منور ہوئے مگر دین میں پنجتن کی اصطلاح ڈال کر، امامت کو نبوت کے مقابل لا کر، رسول اللہ نے جن خلفاء کے فضائل بیان کئے ان کو نعوذ باللہ منافق بنا کر، سیدنا علی کے مخالف ایک دین ایجاد کرنے والے مسلمان نہیں ہو سکتے۔ اسلئے ان سے صرف ایک سوال ہے کہ نبوت نے کونسی تعلیم دے کر کونسے صحابہ کو مسلمان کیا اور امامت نے کونسی تعلیم دے کر کونسے صحابہ کو مسلمان کیا۔