Farq Dar or Ghar ka (فرق در کا اور گھر کا)

فرق در کا اور گھر کا

درس قرآن دے رہا تھا کہ کسی نے سوال کیا کہ جناب یہ گھر والوں اور در والوں میں کیا فرق ہے۔ جواب ملا کہ کوئی فرق نہیں ہے، اُس نے کہا کہ کچھ میڈیا پر علماء یہ رولا ڈالتے ہیں کہ اہلبیت گھر والے ہیں اور صحابہ کرام در والے ہیں۔

اُس کو ہنس کر جواب دیا گیا کہ تعلیم گھر والوں کو اور در والوں کو کس نے دی اور کیا نماز، روزے، معاشرتی و معاشی مسائل کی احادیث ایک نہیں تھیں؟ اُس نے کہا کہ دونوں صحابہ کرام و اہلبیت کو تعلیم حضور ﷺ نے دی اور دونوں کی تعلیم ایک تھی مگر سوال یہ ہے کہ یہ فرق ڈالنے والے کون ہیں؟

اُس کو سمجھایا گیا کہ کہ صحابہ کرام اور اہلبیت کا دین ایک تھا، اگر کوئی کہے کہ در والے اور گھر والوں میں فرق تھا تو اُس سے پہلے پوچھ لو کہ تمہارا دین کونسا ہے۔ زیادہ تر یہ رولا اہلتشیع حضرات کا ہے، ان سے پوچھ لو کہ اہلتشیع حضرات آپ اپنی احادیث کی کتابوں سے بتا دیں کہ نبی کریم ﷺ نے اپنی 23 سالہ زندگی میں تبلیغ کر کے کتنوں کو مسلمان کیا اور کسطرح نماز، روزے، حج، زکوۃ کی تعلیم سب کو دی؟

کہنے لگا اس سوال سے کیا ہو گا، سمجھایا گیا کہ اس سوال سے اہلتشیع حضرات اپنی احادیث کی کتابوں کا حوالہ کبھی نہیں دیں گے کیونکہ ان کے پاس رسول اللہ ﷺ کی احادیث کی کتابیں ہی نہیں ہیں ورنہ 23 سالہ زندگی میں نبی اکرم کے جانثاروں کے فضائل صرف اہلسنت بیان کرتے ہیں اور اہلتشیع تو ان کے خلاف بولتے ہیں۔

کہنے لگا کہ حضور ﷺ کی احادیث کی کتاب میں فرق کیوں ہے؟ اُس کو سمجھایا گیا کہ اہلسنت کے پاس صحیح اسناد و راویوں کے احادیث کی کتابیں موجود ہیں جو سب کی سب اہلبیت اور صحابہ کرام دونوں سے مروی ہیں جن میں صحابہ کرام اور اہلبیت دونوں کے فضائل موجود ہیں مگر اہلتشیع حضرات کی کتابیں ان کے بقول رسول اللہ ﷺ نے سیدنا علی، سیدنا علی نے حسن و حسین اور اس کے بعد سیدنا حسین نے سیدنا زین العابدین، سیدنا زین العابدین نے سیدنا باقر اور سیدنا باقر نے سیدنا جعفر کو سکھایا۔

اس کے علاوہ اگرغور کرو تو ایک طرف 123999 صحابہ کرام نبی کریم ﷺ سے فیض پانے والے ہوں اور دوسری طرف اہلتشیع حضرات نبی کریم ﷺ کو چھوڑ کر اپنا دین سیدنا علی کواپنا امام مان کر کرتے ہوں حالانکہ اہلتشیع سیدنا علی کے بھی پیروکار نہیں ہیں کیونکہ سیدنا علی نے امامت و خلافت 35ھ میں شروع کی، اُس سے پہلے وہ امام تھے ہی نہیں بلکہ ان کے امام و خلیفہ سیدنا ابوبکر، عمر، عثمان رضی اللہ عنھم تھے۔

فرق: اس نے سوال کیا کہ خلافت و امامت میں کیا فرق ہے تو سمجھایا گیا کہ امامت و خلافت ایک ہی بات ہے یعنی خلیفہ یا امام اپنی رعایا کا خیال رکھے گا۔ اس نے سوال کیا کہ جو 12 امام مانے جاتے ہیں کیا انہوں نے امامت و خلافت کا حق ادا کیا؟ جواب دیا گیا کہ 12 میں سے صرف دو امام یا خلیفہ سیدنا علی و حسن رضی اللہ عنھم بنے۔ باقی کو تو امام یا خلفیہ بنایا ہی نہیں گیا، اسلئے یہ عقیدہ ہی جھوٹ پر مبنی ہے۔ اسلئے 14 معصوم اور 12 امام کا عقیدہ کسی بھی صحابی، تابعی و تبع تابعین کا نہیں ہے۔

کتابیں: سوال کرنے والے نے پوچھا کہ کتابیں تو اہلتشیع کی بھی ہیں۔ اُس کو جواب دیا گیا کہ اہلتشیع اہلسنت کی احادیث کے چور ہیں کیونکہ اہلسنت کی 81 کتابیں پہلی صدی میں موجود تھیں اور صحیح اسناد و روایات سے صحاح ستہ مندرجہ ذیل دور میں اکٹھی کی گئیں جبکہ اہلتیشع کی چار معتبر کتابیں جس دور میں اکٹھی ہوئیں اس میں یہ فرق ہے:

اہلسنت: امام محمد بن اسماعیل (194۔256 بخاری)، امام مسلم بن حجاج (204۔261)، امام ابو داؤد (202۔275)،امام محمد بن عیسی (229۔279 ترمذی)،امام محمد بن یزید(209۔273 ابن ماجہ)، امام احمد بن شعیب (215۔303 نسائی) ھجری۔ یہ سب کتابیں محدثین نے اپنے دور سے تبع تابعین، تابعین، صحابہ کرام سے ہو کر رسول اللہ تک پہنچے ہیں۔

اہلتلشیع: کی کتاب الکافی ابو جعفر کلینی 330ھ نے لکھی یعنی امام جعفر صادق سے 180برس بعد، من لا یحضرہ الفقیہ جو محمد بن علی ابن یایویہ قمی 380ھ تقریباً 230سال بعد اور تہذیب الاحکام اور استبصار جو محمد بن طوسی 460ھ تقریباً 310برس بعد ہے۔ یہ کتابیں اہلتشیع محدثین نے اپنے دور سے امام جعفر تک ہیں اس سے پیچھے کوئی اسناد و راوی نہیں ہیں۔

دعوی: اسلئے اہلسنت کا دعوی ہے کہ اہلتشیع سے پوچھیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سیدنا علی، حسن و حسین کو کونسا دین سکھایا جو باقی اصحاب کو نہیں سکھایا؟ امام جعفر نے 300000 روایات کہاں سے سُن لیں جو ان کتابوں میں ان سے منسوب ہیں؟؟ اسی سے سمجھ آ جائے گی کہ اسلام کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والے مسلمان نہیں ہو سکتے اور ان کے پیروکاروں کی زبردست برین واشنگ کی گئی ہے۔

اصول: اُس نے سوال کیا کہ اہلتشیع حضرات تو بخاری و مسلم میں غلطیاں بھی نکالتے ہیں، اس کو سمجھایا کہ محدثین نے صرف احادیث اکٹھی کیں ہیں اور کہا کہ یہ صحیح اسناد و راویوں سے ہیں لیکن یہ نہیں کہا کہ اس کو من و عن مانو بلکہ صحیح احادیث کی شرح کے اصول بھی ہیں۔

سوال: اس کو کہا گیا کہ جب بھی اہلتشیع حضرات سے بات ہو تو ان سے کہو کہ پہلے تو اپنی کتابیں ثابت کریں کہ رسول اللہ ﷺ کی احادیث ہیں؟ دوسرا کیا ان احادیث کو من و عن مان لیتے ہیں یا ان کی احادیث کی بھی شرح کے اصول ہیں؟ اگر احادیث کی شرح کے اصول ہیں تو احادیث کی شرح کے اصول بتا دیں اور اہلسنت کی احادیث کی شرح کس اصول سے کرتے ہیں؟

ورکنگ: جب اس سوال پر ورکنگ کرو گے تو اہلتشیع حضرات نہ تو اپنی احادیث کی کتابوں کے نام بتائیں گے ، نہ احادیث کی شرح کے اصول بتائیں گے بلکہ اپنی کتابوں کے بھی منکر ہو جائیں گے۔ اس کے بعد پھر کبھی غدیر خم، کبھی حدیث ثقلین، حدیث قرطاس، بنو ثقیفہ، فدک، جمل و صفین، سیدنا معاویہ اور آخر پر یزید پر بحث کر کے ادھر ادھر کی ماریں گے کیونکہ ان کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

نتیجہ: در والے اور گھر والوں کا دین ایک تھا، تعلیم ایک تھی، عقیدہ ایک تھا۔ اگر اہلسنت بھی گھر والوں اور در والوں کا نعرہ لگائیں تو سمجھ لیں کہ یہ بھی ۔۔۔ اہلتشیع جن اہلسنت کی ویڈیو بھیجے تو اس اہلتشیع کو کہیں کہ ان اہلسنت نے کب 14 معصوم اور 12 امام کا عقیدہ جائز قرار دیا ہے اُس کا لنک بھیج دو، اپنی قرآن کی تفسیر کا لنک بھیج دو۔ کبھی نہیں بھیجیں گے۔ اللہ کریم ہم سب کو سمجھنے کی توفیق عنایت فرمائے۔

اہلسنت: اس کے بعد مزید ورکنگ کرنی ہو اور مسلمانوں کو ایک عقیدے پر کھڑا کرنا ہو تو دیوبندی و بریلوی علماء سے سوال کر لو کہ کیا اہلسنت کہلانے والی دیوبندی و بریلوی کی تعلیم ایک نہیں ہے؟ دونوں کی تعلیم سعودی عرب کے وہابی علماء پلس اہلحدیث حضرات کے نزدیک بدعت و شرک نہیں ہے؟ کیا دیوبندی و بریلوی کا اصولی اختلاف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتیں نہیں ہیں؟

وہابی: اسی طرح اہلحدیث حضرات سے پوچھ لو کہ کیا سعودی عرب پلس اہلحدیث کی تعلیم ایک نہیں ہے؟ سعودی وہابی نے حنبلی مقلد ہونا کیوں پسند کیا اور اہلحدیث حضرات غیر مقلد کس کے کہنے پر بنے؟ دونوں میں فرق کیوں ہے؟

اتحاد امت: دیوبندی و بریلوی علماء یا جماعتوں پر نہیں بلکہ دیوبندی کی المہند کتاب اور بریلوی کی فتاوی رضویہ پر اکٹھے ہوا جا سکتا ہے کیونکہ کسی بھی اہلسنت عالم نے بدعت و شرک نہیں سکھایا۔

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general