Sahaba Karam (صحابہ کرام)

صحابہ کرام


علامہ ابن عبدالبر نے "الاستیعاب فی اسماء الاصحاب” میں 3500، علامہ ابن اثیر نے "اسد الغابہ” میں 7554 اورعلامہ حافظ ابن حجر نے "الاصابہ” میں 12436 صحابہ کرام کے نام اور کام کو لکھ کر عوام کے علم میں اضافہ کیا۔

عقیدت: سیدنا سلمان سے عقیدت کی وجہ بھی یہی ہے کہ انہوں نے عقیدے کی تلاش میں اپنا مُلک، والدین، غلط دین کوچھوڑ کر صرف حق کی تلاش کی۔ یہاں تو مسلمان کو اپنی ذات و جماعت کی غلطیوں کا علم بھی ہو جائے تو غلط کی پیروی کرتے ہیں اور حق چھوڑ دیتے ہیں۔ حق کو پانے کا سبق ان سے ملا۔

سلسلۂ نسب: مابہ ابن بوذخشان بن مورسلان بن یہوذان بن فیروز ابن سہرک۔ "سیدنا سلمان فارسی فرماتے کہ میں رام ہرمز (فارس میں ایک مقام ہے) کا رہنے والا ہوں۔” (صحیح بخاری 3947) باپ دادے آگ کی پوجا کرنے والے تھے، مجوسیت چھوڑنی چاہی تو باپ نے بیڑیوں سے باندھ دیا۔

سفر در سفر: شام سے قافلہ آیا تو سیدنا فارسی بیڑیاں توڑ، مجوسیت چھوڑ، شام پہنچ کر عیسائیت قبول کی، عیسائیت میں مال کے پُجاری راہب کو دیکھا اُس کے مرنے کے بعد نیکوکار راہب سے تعلق جوڑا اور پھر اس نیک کے مرنے کے بعد شام سے موصل، موصل سے نصیبین، نصیبین سے عموریہ نیک عیسائی راہبوں سے علم پاتے رہے۔ عموریہ والے عیسائی راہب نے حضور ﷺ کے ظہور اور نشانیوں کا بتا کر سیدنا فارسی کو مدینے کا راستہ دکھایا۔

آزاد سے غلام: راستے میں قافلے والوں کی نیَّت بدل گئی اور انہوں نے سیدنا فارسی کو ایک یہودی کے ہاتھ بیچ دیا، یوں آپ کو غلامی کی زنجیر وں میں جکڑ دیا گیا۔(طبقاتِ ابنِ سعد، ج 4، ص 56) "تقریباً دس بار بیچے گئے” (صحیح بخاری 3946) بالآخر بکتے بِکاتے مدینۂ مُنَوَّرہ پہنچ گئے۔

منزل: نبی کریم ﷺ جب مدینہ منورہ ہجرت کر کے تشریف لائے تو آپ کھجور کے درخت پر چڑھ کر کھجور توڑ رہے تھے، نیچے یہودی مالک کی اپنے چاچا زاد کے ساتھ باتوں سے علم ہوا کہ نبی کریم ﷺ کا ظہور ہوا ہے، عاشق رسول نے دلچسپی لی تو تھپڑ کھانا پڑا لیکن جونہی موقع ملا چند تازہ کھجوریں لے کر حضور ﷺ کی خدمت میں پہنچ گئے اور راہب نے نشانی بتائی تھی کہ صدقہ قبول نہیں کریں گے، سیدنا سلمان نے حضور ﷺ کو عرض کی کہ یہ آپ کے لئے صدقہ ہے تو حضور ﷺ نے صحابہ کرام کو دے دیں۔

اگلی مرتبہ پھر کھجوریں لائے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ ہدیہ قبول فرمائیں تو نبی اکرم ﷺ نے خود بھی کھائیں اور جب سیدنا فارسی نے حضور ﷺ کے دونوں شانوں کے درمیان’’مُہر ِنَبُوَّت‘‘کو دیکھنا چاہا، حضور ﷺ کو بھی علم ہوا، چادر ہٹا کر مہر نبوت دکھا دی، خوشی سے مہر نبوت کے بوسے لئے اوراسلام قبول کر لیا۔ (طبقاتِ ابنِ سعد ،ج 4، ص 58)

آزادی: سیدنا فارسی رضی اللہ عنہ کو آزادی کے لئے شرط 300 کھجور کے درخت اور چالیس اوقیہ سونا تھا۔ تمام صحابہ کرام نے ملکر 300 پودے دئے جو نبی کریم ﷺ نے اپنے ہاتھوں سے لگائے اور جب ایک غزوہ سے ایک مرغی کے انڈے کے برابر سونا ملا تو سیدنا سلمان فارسی کو حضور ﷺ نے آزادی دلوائی۔ (تاریخ ِابنِ عساکر، ج 21، ص 388 – 389) غزوۂ خندق میں خندق کھودنے کا مشورہ بھی سیدنا فارسی ہی کا تھا ۔(طبقاتِ ابنِ سعد، ج 2، ص 51)

اہلبیت: غزوہ خندق کے موقع پر خندق کی کھدائی میں حضرت سلمان سب سے زیادہ سرگرم تھے۔ اس پر مہاجرین نے کہا کہ "سلمان ہمارا ہے” انصار نے یہ سنا تو کہا "سلمان ہمارا ہے”۔ رسول اللہ ﷺ تک یہ بات پہنچی تو آپ ﷺ نے فرمایا "”سلمان منا اہل البیت” یعنی سلمان ہمارے اہل بیت میں سے ہے، اس لئے سلمان کو مہاجرین یا انصار کے بجائے (بطور ِتکریماً) اہل بیت میں شمار کیا گيا۔ (مستدرک علی الصحیحین:6539/معجم الکبیر:6040، مسند بزار 6534)

فضائل: صحیح مسلم 6498: سورہ جمعہ کی آیت 3 ”پاک ہے وہ اللہ جس نے پیغمبر بھیجا عرب کی طرف اور اوروں کی طرف جو ابھی عرب سے نہیں ملے۔“ نازل ہوئی توایک شخص نے پوچھا: یہ لوگ کون ہیں جو عرب کے سوا ہیں یا رسول اللہ؟۔۔ اس وقت ہم لوگوں میں سیدنا سلمان فارسی بھی بیٹھے ہوئے تھے، آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ ان پر رکھا اور فرمایا: ”اگر ایمان ثریا پر ہوتا تو بھی ان کی قوم میں سے کچھ لوگ اس تک پہنچ جاتے۔“

ابن ماجہ 149: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ نے مجھے چار افراد سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے، اور مجھے بتایا ہے کہ وہ بھی ان سے محبت رکھتا ہے“، عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! وہ کون لوگ ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”علی انہیں لوگوں میں سے ہیں اور ابوذر، سلمان اور مقداد ہیں“۔ ترمذی 3797: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جنت تین آدمیوں کی مشتاق ہے: علی، عمار، اور سلمان رضی الله عنہم کی“۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سَلْمَانُ الْخَیْر(سنن الکبری للنسائی 9849) اور سَلْمَانُ مِنَّا اَہْلَ الْبَیْت (سلمان ہمارے اَہلِ بیت سےہیں) جب کوئی پوچھتا کہ آپ کے والد کون ہیں؟ تو ارشاد فرماتے: میں دینِ اِسلام کا بیٹا سلمان ہوں۔(الاستیعاب، ج 2، ص 194)

گورنر: سیدنا عمر فاروق نے آپ کو مدائِن کا گورنرمقرر کردیا۔ سادہ اتنے تھے کہ ایک دن مدائن کے بازار میں جارہے تھے کہ ایک ناوَاقِف شخص نے آپ کو مزدور سمجھ کر اپنا سامان اٹھانے کے لئے کہا، سیدنا سلمان نے چپ چاپ سامان اٹھا لیا، لوگوں نے دیکھا تو فکر مند ہوئے، سامان کا مالک ہَکَّا بَکَّا اور شرمسار ہوا، معافی مانگی اور سامان اُتروانا چاہا لیکن آپ نے فرمایا:میں نے تمہارا سامان اٹھانے کی نیّت کی تھی، اب اِسے تمہارے گھرتک پہنچا کر ہی دَم لوں گا۔(طبقاتِ ابنِ سعد، ج 4، ص 66) ساری تنخواہ غریبوں میں تقسیم فرما کر خود کھجور کے پتوں سے ٹوکریاں بناکر چند درہم کماتے اور اسی پر اپنا گزر بسر کرتےتھے ۔(طبقاتِ ابنِ سعد، ج 4 ، ص 65)

وصال:سیدنا سلمان فارسی 10 رَجَبُ المُرَجَّب 33 یا 36 ہجری میں وصال کر گئے، مزارِ مبارک عراق کے شہر مدائن میں ہے۔ (تاریخ ابنِ عساکر،ج 21، ص 376) آپ نے ساڑھے تین سو سال (جبکہ بعض روایات کے مطابق اڑھائی سو سال) کی طویل عمر پائی۔ (معرفۃ الصحابہ، ج 2، ص 455)

ایک اسلام: صحابہ کرام، صحابیات، ان کے والدین و اولادوں کو ملا کرحضور ﷺ نے کم و بیش 124000 کو ایمان کی دولت سے نوازا۔ حضور ﷺ کے بعد صحابہ کرام نے سیدنا ابوبکر کو اپنا امام بنایا، اسلئے اہلبیت کے امام سیدنا ابوبکر ہیں۔ کسی صحابی کا عقیدہ 14 معصوم اور 12 امام کا نہیں تھا۔ دین سب کا ایک تھا، کسی کا نعرہ گھر والے اور در والے کا نہیں تھا بلکہ سب نے حضور ﷺ سے علم حاصل کیا۔ اگر اہلتشیع کہتے ہیں کہ ہم نے گھر والوں سے سیکھا حالانکہ در والوں اور گھر والوں سب نے حضور ﷺ سے سیکھا۔

غیر مسلم: اہلتشیع حضرات کو مسلمان نہیں کہا جا سکتا کیونکہ صحابہ کرام اور اہلبیت کا دین ایک تھا؟ دونوں نبوت کے فیضان سے منور ہوئے مگر دین میں پنجتن کی اصطلاح ڈال کر، امامت کو نبوت کے مقابل لا کر، رسول اللہ نے جن خلفاء کے فضائل بیان کئے ان کو نعوذ باللہ منافق بنا کر، سیدنا علی کے مخالف ایک دین ایجاد کرنے والے مسلمان نہیں ہو سکتے۔ اسلئے ان کے پاس رسول اللہ کی کوئی احادیث نہیں ہیں بلکہ امام جو کہہ دے یعنی یہ جو کچھ امام سے منسوب کر دیں وہی دین ہے مگر وہ دین اسلام نہیں ہے۔

تجزیہ: ہم لوگ قرآن و احادیث پر عمل کرنے کی پریکٹس نہیں کرتے، اسلئے جب کوئی انہونی ہوتی ہے تو سوچتے ہیں کہ یہ کیوں ہوا۔ نبی کریم کے فرمان بالکل حق ہیں، کماو، کھاو، کھلاو اور آخرت کی فکر میں زندگی لگاو، ہر وہ کام کرو جس سے مسلمان اور اسلام کو فائدہ ہو۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ تم نے سچ بولنا شروع کیا ہو تو تمہیں برا بھلا نہ کہا ہو۔ ہم اس پیج پر سمجھاتے ہیں کہ فرقہ واریت تب ختم ہو گی جب ہر فرقے کا بندہ اپنی جماعت کی تحقیق کرے گا:

اہلسنت: اہلسنت کہلانے والی دیوبندی و بریلوی کی کیا تعلیم ایک نہیں ہے؟ دونوں کی تعلیم سعودی عرب کے وہابی علماء پلس اہلحدیث حضرات کے نزدیک بدعت و شرک نہیں ہے؟ کیا دیوبندی و بریلوی کا اصولی اختلاف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتیں نہیں ہیں؟

وہابی: سعودی عرب پلس اہلحدیث کی تعلیم کیا ایک نہیں ہے؟ سعودی وہابی نے حنبلی مقلد ہونا کیوں پسند کیا اور اہلحدیث حضرات غیر مقلد کس کے کہنے پر بنے؟ دونوں میں فرق کیوں ہے؟ اس فرق کو مٹائیں اور ایک ہو جائیں۔

اتحاد امت: دیوبندی و بریلوی علماء یا جماعتوں پر نہیں بلکہ دیوبندی کی المہند کتاب اور بریلوی کی فتاوی رضویہ پر اکٹھے ہوا جا سکتا ہے کیونکہ کسی بھی اہلسنت عالم نے بدعت و شرک نہیں سکھایا۔

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general