
ماہِ شعبان اور شبِ برأت
رسول اللہ ﷺ کا ہمسفر بننے کے لئے لازم ہے کہ آپ کی احادیث پر عمل کیا جائے مگر سب سے پہلے فرض، واجب، سنت اور پھر نفلی عبادت کی جائے۔ فرض نمازیں چھوڑنے والوں کو اگر آسانی دی جائے کہ تم 27 رجب، 15 شعبان، 27 رمضان کو عبادت کر لو تو بخشے جاو گے تو یہ ایک دھوکہ ہے۔
نبی کریم ﷺ رمضان کے سوا اگر پورے ماہ کے روزے رکھتے تھے تو وہ ماہ شعبان تھا)
عبادت: آپ ﷺ شعبان کے مہینے میں تقریباً سارا مہینہ روزہ رکھتے مگر ان احادیث میں روزہ رکھنے کا کوئی ثواب بیان نہیں کیا گیا۔ اسلئے میڈیا پر اس کے متعلق سحری و افطاری نہیں دکھائی جاتی کیونکہ معلوم ہے عوام نے یہ نفلی روزے رکھنے ہی نہیں مگر اعلی و افضل وہ لوگ ہوں گے جو ماہ شعبان میں 5 یا 10 روزے رکھ جائیں۔
15 شعبان: شب برأت کی فضیلت کے متعلق تقریباً 17 صحابہ کرام سیدنا معاذ بن جبل، عبداللہ بن عمر، ابو موسی اشعری، ابوہریرہ، ابو ثعلبہ الخشنی، ابوبکر صدیق، علی، عوف بن مالک، کثیر بن مرہ، عثمان بن العاص، سیدہ عائشہ وغیرہ سے مختلف کتابوں البزاز، مجمع الزوائد، طبرانی والبیہقی، ابن ماجہ، ترمذی، در المنثور للسیوطی، حسن البیان وغیرہ میں احادیث بیان کی گئیں ہیں جس کا مفہوم یہ ہے:
مفہوم: اللہ کریم 15 ویں شب شعبان کو آسمان دنیا پر نزول اجلال فرماتا ہے تاکہ جو مغفرت، رزق، مصیبت سے چھٹکارا چاہتا ہو یا کوئی بھی سوالی ہو اس کو عطا کرے۔ البتہ ان گناہ گاروں کی بخشش نہیں ہوتی:
مشرک، زانی، دُشمنی، قطع تعلق یعنی رشتے داری توڑنے والا، تکبرانہ طور پر ٹخنوں سے نیچے کپڑا پہننے والے، والدین کا نافرمان، شرابی کی طرف اللہ تعالیٰ کی نظر کرم نہیں ہوتی۔
گناہ: اس کرپٹ معاشرے کی ماہ شعبان یا 15 شعبان کی رات عبادت پر بخشش نہیں بلکہ صرف گناہ چھوڑ دیں تو بخشش ہو جائے گی۔ یہ بھی یاد رہے کہ احادیث میں شب برات کا لفظ نہیں ہے بلکہ 15 شعبان کی رات کی عبادت کا فرمایا گیا ہے۔
لطیفہ: 15 شعبان کی رات کو ایک مولوی صاحب نے پوچھا کہ آج بخشش کی رات ہے کہنے لگے کہ ہاں تو انہوں نے پوچھا کہ بخشش تو ان کی ہوتی ہے جو گناہ گار ہوں تو کیا تم گناہ گار ہو، سب نے کہا کہ ہاں۔ مولوی صاحب نے کہا کہ کونسا گناہ چھوڑو گے تو کسی نے بھی کسی گناہ کو چھوڑنے کی ہامی نہ بھری۔ تمام بتائیں کہ کیا بخشش ہو جائے گی؟؟
افضل: عوام اگر صرف اپنی فرض نمازو روزے پوری کرنے کے ساتھ ساتھ گناہوں کی رفتار کم کر کے نیکیوں کی رفتار بڑھا دے تو سب سے افضل کام ہے۔ اگر اس ماہ شعبان میں کوئی نفلی عبادت نہ کریں تو کوئی گناہ نہیں مگر احادیث پر عمل کرنا ہے تو افضل ہے کہ روزے رکھیں سوائے شعبان کی 29 یا 30 کے جن کو شک کا روزہ کہتے ہیں۔ اس کے بعد افضل یہ ہے کہ صرف 15 شعبان کی رات کو عبادت اور دن کو روزہ رکھ کر 15 شعبان کے فضائل کی احادیث پر عمل کرے۔
کمینگی: کوئی ختم شریف، ایصال ثواب کرتا ہے تو کوئی گناہ نہیں، جو رات کو عبادت کرتے ہیں ان کو کھانا کھلاتا ہے تو کوئی گناہ نہیں، کوئی 15 شعبان کا روزہ رکھواتا ہے کوئی گناہ نہیں بلکہ ثواب ہے۔ البتہ جو شبرات اور معراج شریف پر بیٹیوں کو حلوہ پوری اور دیگر چیزیں رسما و مجبورا بھیجتے ہیں تاکہ مُنڈے والے ناراض نہ ہوں تو یہ عذاب ہے اور لینے والے والدین کی بھی کمینگی ہے۔
پٹاخے: جو پٹاخے چلاتے ہیں، رستے میں بیٹھ کر عوام پر آوازیں کستے ہیں، موم بتیاں دیواروں پر لگا کر لڑکیوں کا نظارہ کرتے ہیں ان کی یہ حرکت عبادت نہیں بلکہ گناہ ہے جس پر بخشش نہیں بلکہ عذاب ہے۔
تعلیم: دیوبندی، بریلوی اور اہلحدیث حضرات کے نزدیک 15 شعبان کی صحیح و ضعیف احادیث پر عمل انفرادی طور پر کرے تو جائز ہے سوائے یہ کہ کسی بھی حدیث میں مخصوص قسم کے نفل پڑھنے کی کوئی روایت نہیں ہے۔
ایک اسلام: دیوبندی و بریلوی کی تعلیم پر سب مسلمان اکٹھے ہو سکتے ہیں کیونکہ دیوبندی کی المہند اور بریلوی کے فتاوی رضویہ کی تعلیم ایک ہے سوائے چار کفریہ عبارتوں کے اختلاف کے۔ اہلحدیث غیر مقلد اپنے سعودی وہابی علماء کے ساتھ حنبلی ہو جائیں تو بہت بہتر ہے تاکہ فرق مٹ جائے یا سعودی وہابی نام نہاد حنبلیت چھوڑ کر غیر مقلد ہو جائیں ورنہ انتشار انہی کی وجہ سے ہے۔
غیر مسلم: اہلتشیع حضرات کو مسلمان نہیں کہا جا سکتا کیونکہ صحابہ کرام اور اہلبیت کا دین ایک تھا؟ دونوں نبوت کے فیضان سے منور ہوئے مگر دین میں پنجتن کی اصطلاح ڈال کر، امامت کو نبوت کے مقابل لا کر، رسول اللہ نے جن خلفاء کے فضائل بیان کئے ان کو نعوذ باللہ منافق بنا کر، سیدنا علی کے مخالف ایک دین ایجاد کرنے والے مسلمان نہیں ہو سکتے۔ اسلئے ان سے صرف ایک سوال ہے کہ نبوت نے کونسی تعلیم دے کر کونسے صحابہ کو مسلمان کیا اور امامت نے کونسی تعلیم دے کر کونسے صحابہ کو مسلمان کیا۔