Waswasa (وَسوَسَہ)

وَسوَسَہ

1۔ ایک مرید اپنے پیر کامل کے پاس گیا اور شکایت کی کہ حضرت مجھے بہت زیادہ بُرے خیال آتے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ یہ خیالات آنا بند ہو جائیں کیونکہ یہ میرے لئے بہت تکلیف کا باعث ہیں۔ پیر کامل نے فرمایا کہ یہ خیالات آنا کبھی بند نہیں ہو سکتے کیونکہ اچھا یا برا خیال ہی تو ہمارا امتحان ہے۔

البتہ یہ بتاو کہ تمہیں کیا خیال آتے ہیں، اُس نے کہا کہ مجھے ز نا اور بد کاری کے خیالات بہت تنگ کرتے ہیں بلکہ بعض اوقات میں ان کا مزہ بھی لے لیتا ہوں، جس سے بعض اوقات میں بے وضو بھی ہو جاتا ہوں تو پیر کامل نے فرمایا کیا تم نے خیالات آنے کے باوجود کوئی بدکاری کی تو مرید نے کہا حضرت نہیں تو انہوں نےفرمایا:

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے میری امت کے سینوں میں پیدا ہونے والے وسوسوں کو معاف کر دیا ہے جب تک وہ ان پر عمل نہ کریں یا زبان پر نہ لے آئیں۔ (صحیح بخاری 2528) اسلئے پریشان نہ ہو۔

دوسرا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”شیطان تم میں سے ہر ایک کے پاس آتا ہے پھر کہتا ہے کس نے آسمان پیدا کیا؟ کس نے زمین پیدا کی؟ تو وہ کہتا ہے اللہ نے پیدا کیا۔ پھر شیطان کہتا ہے: اللہ کو کس نے پیدا کیا، جب ایسا شبہ تم میں سے کسی کو ہو تو کہے: میں ایمان لایا اللہ پر اور اس کے رسولوں پر۔“ (صحیح مسلم 344) اسلئے یہ پڑھ لیا کر۔

تیسرا رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’تَفَکَّرُوا فِي خَلْقِ اللهِ، وَلَا تَفَکَّرُوا فِي اللهِ‘‘ ’’تم لوگ اللہ کی مخلوق میں غور و فکر کرو، اور اللہ کے بارے میں غور و فکر نہ کرو۔‘‘(جامع الصغیر 1/76)

2۔ اُس نے کہا کہ حضرت بعض اوقات اللہ کریم کے بارے میں بھی آتے ہیں، رسول اللہ ﷺ کے بارے میں آتے ہیں لیکن میں پھر بھی کسی کو کچھ نہیں بتاتا تو پیر کامل نے فرمایا:

کچھ صحابہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور آپ ﷺ سے پوچھا کہ ہمارے دلوں میں وہ وہ خیال گزرتے ہیں، جن کا بیان کرنا ہم میں سے ہر ایک کو بڑا گناہ معلوم ہوتا ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا تم کو ایسے وسوسے آتے ہیں؟“ لوگوں نے کہا: ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ تو عین ایمان ہے۔“ (صحیح مسلم 340)

3۔ مرید نے پوچھا کہ حضرت یہ خیال پیدا کیوں ہوتے ہیں تو پیر کامل نے فرمایا کہ اللہ کریم نے انسانوں کے امتحان لینے کے لئے ان کے ساتھ نفس شیطان اور جن لگائے ہیں جو اُس کے اندر بُرے خیال پیدا کرتے ہیں:

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی نہیں مگر اس کے ساتھ ایک شیطان اس کا ساتھی نزدیک رہنے والا مقرر کیا گیا ہے۔“ لوگوں نے عرض کیا: کیا آپ ﷺ کے ساتھ بھی یا رسول اللہ شیطان ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں میرے ساتھ بھی ہے لیکن اللہ نے اس پر میری مدد کی ہے تو میں سلامت رہتا ہوں اور نہیں بتلاتا مجھ کو کوئی بات سوائے نیکی کے۔“(صحیح مسلم 7108)

اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے شیطان انسانوں اور شیطان جنوں کو ان کا دشمن بنایا ہے، وہ ایک دوسرے کو دھوکا دینے کے لیے ملمع کی ہوئی باتیں ڈالتے ہیں، اور اگر آپ کا رب چاہتا تو وہ یہ کام نہ کرتے، پس آپ انھیں اور جو کچھ وہ افتراء پردازی کرتے ہیں چھوڑیے۔(سورہ الانعام 112)

اور ہم انسان کے دل میں ابھرنے والے وسوسوں کو بھی جانتے ہیں۔(سورہ ق 16)

سیدنا ابوذر کہتے ہیں کہ میں مسجد میں داخل ہوا، رسول اللہ ﷺ اندر تھے، میں آپ کے پاس بیٹھ گیا، آپ نے فرمایا: ”ابوذر! جن اور انس کے شیاطین کے شر سے (اللہ کی) پناہ مانگو“، میں نے عرض کیا: کیا انسانوں میں بھی شیطان ہوتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں“۔ (نسائی 5509)

4۔ مرید نے کہا کہ کیا ان بُرے خیالات سے چھٹکارا مل جاتا ہے تو پیر کامل نے فرمایا کہ جتنا تجھے علم ہے اُس پر عمل کر کیونکہ اللہ کریم فرماتا ہے:

’’بے شک اس (یعنی شیطان) کا زور ان لوگوں پر نہیں چلتا جو ایمان لائے ہیں اور اللہ پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ اس کا زور تو صرف انھیں لوگوں پر چلتا ہے جو لوگ اسے اپنا سرپرست بناتے ہیں اور ایسے ہی لوگ اسے اللہ کا شریک بناتے ہیں۔‘‘(النخل 99 – 100)

اور جو شخص رحمٰن کی یاد سے غفلت برتتا ہے، ہم اس پر ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں وہی اس کا ساتھی ہوجاتا ہے۔‘‘ (سورہ زخرف 36)

دوسرا اللہ کریم سے برا خیال آنے پر پناہ مانگا کر جیسے رسول اللہ ﷺ یہ دُعا سکھاتے: یا اللہ میں تیری ذات کے ذریعہ اپنے نفس کے شر سے، شیطان کے شر سے، اور اس کے شرک سے پناہ مانگتا ہوں“ آپ نے فرمایا: ”جب صبح کرو اور جب شام کرو اور جب سونے چلو تب اس دعا کو پڑھ لیا کرو“۔ (ابوداود 5067)

تیسرا قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس سورتیں پڑھکر رات کو اپنے اوپر دم کر لیا کرو۔

چوتھا اپنے آپ کو نیکی کے کاموں میں مصروف رکھا کرو۔

5۔ مرید نے پوچھا کہ حضرت وسوسے اور الہام میں کیا فرق ہے تو پیر کامل نے فرمایا کہ دلوں میں پیدا ہونے والے برے خیالات و احساسات کو ’’وسوسہ‘‘ کہتے ہیں۔ البتہ دلوں میں ابھرنے والے خیالات اگر نیک ہوں، اللہ کی اطاعت و فرماں برداری کی طرف ابھارنے والے ہوں تو اسے وسوسہ کے بجائے ’’الہام‘‘ کہا جاتا ہے۔

ترمذی 2988: ”آدمی پر شیطان کا اثر (وسوسہ) ہوتا ہے اور فرشتے کا بھی اثر (الہام) ہوتا ہے۔ شیطان کا اثر یہ ہے کہ انسان سے برائی کا وعدہ کرتا ہے، اور حق کو جھٹلاتا ہے۔ اور فرشتے کا اثر یہ ہے کہ وہ خیر کا وعدہ کرتا ہے، اور حق کی تصدیق کرتا ہے۔ تو جو شخص یہ پائے، اس پر اللہ کا شکر ادا کرے۔ اور جو دوسرا اثر پائے یعنی شیطان کا تو شیطان سے اللہ کی پناہ حاصل کرے۔”

بدگمانی: صحیح بخاری 3281: رسول اللہ ﷺ اعتکاف میں تھے سیدہ صفیہ ملنے آئیں، واپس جانے لگیں اور حضور ﷺ ان کو چھوڑنے جانے لگے، اسی وقت دو انصاری صحابہ (اسید بن حضیر، عبادہ بن بشیر) گزرے۔ جب انہوں نے آپ ﷺ کو دیکھا تو تیز چلنے لگے۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا، ذرا ٹھہر جاؤ یہ صفیہ بنت حیی ہیں۔ ان دونوں صحابہ نے عرض کیا، سبحان اللہ: یا رسول اللہ! (کیا ہم بھی آپ کے بارے میں کوئی شبہ کر سکتے ہیں) آپ ﷺ نے فرمایا کہ شیطان انسان کے اندر خون کی طرح دوڑتا رہتا ہے۔ اس لیے مجھے ڈر لگا کہ کہیں تمہارے دلوں میں بھی کوئی وسوسہ نہ ڈال دے۔

6۔ مرید نے کہا کہ مجھے بہت ڈر لگتا ہے تو پیر کامل نے فرمایا کہ جتنے مرضی برے خیال آئیں لیکن جب تک تیری زبان سے کفریہ کلمات نہ نکلیں اور کوئی برا عمل نہ ہو تو معافی ہی معافی ہے کیونکہ "اللہ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ مکلف نہیں بناتا، جو نیکی وہ کرے گا وہ اسی کے لیے ہے اور جو برائی وہ کرے گا اس کا وبال اسی پر ہے۔‘‘(سورہ البقرہ 286)

7۔ مرید نے کہا کہ بعض اوقات تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں غلط کام کر ہی جاوں گا تو پیر کامل نے فرمایا کہ گناہ کے ارادے سے اُٹھے ہوئے قدم جب گناہ کئے بغیر واپس آ جاتے ہیں تو وہ بھی ثواب بن جاتے ہیں۔

رسول اللہ ﷺ نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ”اللہ تعالیٰ نے نیکیاں اور برائیاں مقدر کر دی ہیں اور پھر انہیں صاف صاف بیان کر دیا ہے۔ پس جس نے کسی نیکی کا ارادہ کیا لیکن اس پر عمل نہ کر سکا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے ایک مکمل نیکی کا بدلہ لکھا ہے اور اگر اس نے ارادہ کے بعد اس پر عمل بھی کر لیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے اپنے یہاں دس گنا سے سات سو گنا تک نیکیاں لکھی ہیں اور اس سے بڑھ کر اور جس نے کسی برائی کا ارادہ کیا اور پھر اس پر عمل نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے اپنے یہاں نیکی لکھی ہے اور اگر اس نے ارادہ کے بعد اس پر عمل بھی کر لیا تو اپنے یہاں اس کے لیے ایک برائی لکھی ہے۔(صحیح بخاری 6491)

ایک آدمی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آیا اور عرض کی: ’’اے اللہ کے رسول ﷺ! ہم میں سے کسی کے دل میں ایسا وسوسہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اسے زبان پر لانے کے بجائے جل کر کوئلہ بن جانا پسند کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا: ہر طرح کی حمد و ثنا اللہ کے لیے ہے جس نے شیطان کے مکر کو وسوسے کی طرف پھیر دیا۔‘‘(ابو داؤد 5112)

نتیجہ: ہر مسلمان کو چاہئے کہ وسوسوں سے پریشان نہ ہوں اور اگر کبھی کوئی بری بات یا بڑے سے بڑا گناہ ہو بھی جائے تو اللہ کریم معاف کرنے والا ہے، اُس سے معافی مانگے اور جسقدر ہو دین پر عمل کرے تاکہ شیطان کا توڑ ہو، نیک صحبت اور نیک تحریر پڑھنا کبھی نہ چھوڑے کیونکہ ہم وسوسوں سے نکل کر یقین پر آ گئے ہیں جس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ ہر ایک کو کہہ رہے ہیں کہ اس پر غوروفکر کر کے امت کو ایک کرو۔
اہلسنت: اہلسنت کہلانے والی دیوبندی و بریلوی کی کیا تعلیم ایک نہیں ہے؟ دونوں کی تعلیم سعودی عرب کے وہابی علماء پلس اہلحدیث حضرات کے نزدیک بدعت و شرک نہیں ہے؟ کیا دیوبندی و بریلوی کا اصولی اختلاف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتیں نہیں ہیں؟

وہابی: سعودی عرب پلس اہلحدیث کی تعلیم کیا ایک نہیں ہے؟ سعودی وہابی نے حنبلی مقلد ہونا کیوں پسند کیا اور اہلحدیث حضرات غیر مقلد کس کے کہنے پر بنے؟ دونوں میں فرق کیوں ہے؟ اس فرق کو مٹائیں اور ایک ہو جائیں۔

اتحاد امت: دیوبندی و بریلوی علماء یا جماعتوں پر نہیں بلکہ دیوبندی کی المہند کتاب اور بریلوی کی فتاوی رضویہ پر اکٹھے ہوا جا سکتا ہے کیونکہ کسی بھی اہلسنت عالم نے بدعت و شرک نہیں سکھایا۔

ایک اسلام: صحابہ کرام، صحابیات، ان کے والدین و اولادوں کو ملا کرحضور ﷺ نے کم و بیش 124000 کو ایمان کی دولت سے نوازا۔ حضور ﷺ کے بعد صحابہ کرام نے سیدنا ابوبکر کو اپنا امام بنایا، اسلئے اہلبیت کے امام سیدنا ابوبکر ہیں۔ کسی صحابی کا عقیدہ 14 معصوم اور 12 امام کا نہیں تھا۔ دین سب کا ایک تھا، کسی کا نعرہ گھر والے اور در والے کا نہیں تھا بلکہ سب نے حضور ﷺ سے علم حاصل کیا۔ اگر اہلتشیع کہتے ہیں کہ ہم نے گھر والوں سے سیکھا حالانکہ در والوں اور گھر والوں سب نے حضور ﷺ سے سیکھا۔

غیر مسلم: اہلتشیع حضرات کو مسلمان نہیں کہا جا سکتا کیونکہ صحابہ کرام اور اہلبیت کا دین ایک تھا؟ دونوں نبوت کے فیضان سے منور ہوئے مگر دین میں پنجتن کی اصطلاح ڈال کر، امامت کو نبوت کے مقابل لا کر، رسول اللہ نے جن خلفاء کے فضائل بیان کئے ان کو نعوذ باللہ منافق بنا کر، سیدنا علی کے مخالف ایک دین ایجاد کرنے والے مسلمان نہیں ہو سکتے۔ اسلئے ان کے پاس رسول اللہ کی کوئی احادیث نہیں ہیں بلکہ امام جو کہہ دے یعنی یہ جو کچھ امام سے منسوب کر دیں وہی دین ہے مگر وہ دین اسلام نہیں ہے۔

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general