واحدانیت
ایک مرید نے اپنے پیر سے پوچھا اے پیر و مرشد تنہائی کا شکار ہو گیا ہوں، جب سے دین پر چلنا شروع ہوا ہوں کوئی منہ ہی نہیں لگاتا بلکہ آپ کے مریدین بھی دیکھتے ہیں کہ یہ کس کام کا ہے، اگر کسی کام کا نہیں تو وہ بھی کام نہیں آتے۔
پیر و مرشد نے جواب دیا کہ تم ابھی اپنی قبر میں داخل ہی نہیں ہوئے، اسلئے ایسی باتیں کر رہے ہو، اگر تم اپنی قبر میں داخل ہوئے ہوتے تو کبھی ایسی باتیں نہ کرتے۔
اُس نے پوچھا کہ اپنی قبر سے کیا مراد ہے۔ پیر و مرشد نے جواب دیا کہ تمہارا جسم تمہاری روح کی قبر ہے، مرنے کے بعد جس قبر میں تم نے داخل ہونا ہے وہاں تو تمہارا جسم رہنا ہی نہیں، البتہ روح ہمیشہ زندہ رہتی ہے کیونکہ یہ روح امر ربی ہے۔
وَ یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِؕ-قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا(بنی اسرائیل 85)اور تم سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں ۔ تم فرماؤ : روح میرے رب کے حکم سے ایک چیز ہے اور (اے لوگو!) تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔
اُس مرید نے پوچھا کہ میں اپنی جسم کی قبر میں داخل ہو کر اپنی روح سے کیسے ملاقات کر سکتا ہوں؟ پیر و مرشد نے جواب دیا کہ جب تم اپنی تنہائی میں ایک اللہ کریم کو داخل کر لو اور ایسے عبادت کرو جیسے تم اللہ کریم کو دیکھ رہے ہو۔ کسی سے کوئی امید نہ لگاو، البتہ تعلق سب سے نبھانے کی کوشش کرنی ہے۔ اپنی حیثیت اور قانون و اصول کے مطابق کام کرو تو اپنی روح اور جسم میں رابطہ کر کے اس روح کو نفس مطمئنہ بنا سکتے ہو۔
یہ یاد رکھنا کہ گلے اور شکوے بیمار روحیں کرتی ہیں جیسے کوئی مجھے سمجھا ہی نہیں۔ اگر کسی کو ملو تو کہے گا کہ دنیا داری کرتا ہے، اگر نہ ملو تو کہتا ہے ملنے ہی نہیں آتا، یہ تمام لوگ نفسیاتی مریض ہیں جو اپنی اپنی خواہش کے مطابق لوگوں سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں جیسے غریب آدمی کہتا ہے کہ میرا فلاں رشتے دار میرے کام ہی نہیں آتا، اگر اُسی سے پوچھا جائے کہ تم اپنے سے زیادہ غریب کے کام آتے ہو تو جواب نہیں میں ہو گا۔
روح اور جسم کا تعلق جوڑنے کے لئے اپنے اللہ کریم کے حضور یکسو ہو کر تمام گناہوں سے معافی مانگ کر بیٹھنا ہوتا ہے اور اللہ کریم کا ذکر کرتے ہوئے عرض کرنی ہوتی ہے یا اللہ تو ہی میرا مقصود ہے اور تو ہی میرا مطلوب ہے۔
پیرو مرشد نے سمجھایا کہ جب کوئی دنیا کو چھوڑ کر دین کی طرف آتا ہے تو سب سے پہلے اُس کے دوست یار اُس کو چھوڑتے ہیں کہ اب یہ ہمارے ساتھ ہماری خوشیوں میں شامل ہو کر ہلہ گلہ نہیں کر سکتا۔ اسلئے وہ اس کو تنہا کرتے ہیں۔
اُس کے بعد وہ چاہتا ہے کہ اپنے دنیا دار والدین سے اپنے دین کی تصدیق کروائےمگر وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ ابھی تو تیرا وقت ہی نہیں ہوا داڑھی رکھنے کا اور نماز حج کرنے کا، یہ کام تو بڑھاپے میں جا کر شروع کئے جاتے ہیں۔ اس سے وہ مزید تنہا ہو جاتا ہے۔
پھر اُس سے پوچھا جاتا ہے کہ کس جماعت میں ہو کیونکہ سب یہی سمجھتے ہیں کہ اس پر کس جماعت کے مُلا کا اثر ہو گیا ہے۔ اگر وہ اپنے پیر یا جماعت کا نام لے تو پھر اُس کو باقی جماعتوں والے مسلمان ہی نہیں مانتے وہ مزید تنہا ہو جاتا ہے۔
نتیجہ: اس لئے ہر کوئی بھیڑ میں ہو یا محفل میں، دنیا دار ہو یا دین دار، کسی بھی پیشے سے تعلق رکھتا ہو، ہمیشہ اپنی پہچان کی خاطر مر مر جائے گا اور سمجھے گا کہ وہ تنہائی کا شکار ہے۔ کچھ ڈرامے فلمیں شاعری ناول گانے سُن کر تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں مگر وہ لوگ جن کی روح پر اللہ کریم کی انوار و تجلیات کا اثر ہوتا ہے، وہ ہمیشہ ایک کے ساتھ ایک ہوتے ہیں، اسلئے ہر ایک کا ساتھ اللہ واسطے نبھاتے ہیں۔
جب تک کوئی مسلمان اپنی قبر میں داخل ہو کر، اپنے جسم کے اندر کی روح کو سمجھ کر کہ یہ روح "امر ربی” ہے، اس کو اللہ کریم کی انواروتجلیات سے آشنا نہیں کرتا، اُس وقت تک ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بندہ اپنی جسمانی خواہش کو پورا کرنے کے چکر میں ہے اور مرنے کے بعد اپنی قبر میں بھی پریشان رہے گا۔
البتہ کسی جماعت میں شامل ہونے والا عقلمند ہو تو تحقیق کرے کہ وہ اپنی جماعت میں کسی کو کس طرح داخل کرے گا، اصول و قانون کیا ہیں وہ جان کر دوسروں کو اپنی جماعت کی طرف راغب کرے گا جیسے اس پیج پر سب سے بے نیاز ہو کر اپنی تحقیق بیان کی جا رہی ہے تاکہ کوئی غلط ثابت کر دے یا اپنا ایمان بچا لے۔
تعلیم: دیوبندی و بریلوی کی تعلیم ایک ہے کیونکہ دیوبندی کی المہند اور بریلوی کے فتاوی رضویہ کی تعلیم ایک ہے سوائے چار کفریہ عبارتوں کے اختلاف کے۔ تمام اہلسنت دونوں جماعتوں کی تعلیم پر اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ اس پر ہر عام و خاص کوشش کریں۔
اہلحدیث غیر مقلد اپنے سعودی وہابی علماء کے ساتھ حنبلی ہو جائیں تو بہت بہتر ہے تاکہ فرق مٹ جائے یا سعودی وہابی نام نہاد حنبلیت چھوڑ کر غیر مقلد ہو جائیں ورنہ انتشار انہی کی وجہ سے ہے۔
غیر مسلم: اہلتشیع حضرات کو مسلمان نہیں کہا جا سکتا کیونکہ صحابہ کرام اور اہلبیت کا دین ایک تھا؟ دونوں نبوت کے فیضان سے منور ہوئے مگر دین میں پنجتن کی اصطلاح ڈال کر، امامت کو نبوت کے مقابل لا کر، رسول اللہ نے جن خلفاء کے فضائل بیان کئے ان کو نعوذ باللہ منافق بنا کر، سیدنا علی کے مخالف ایک دین ایجاد کرنے والے مسلمان نہیں ہو سکتے۔ اسلئے ان سے صرف ایک سوال ہے کہ نبوت نے کونسی تعلیم دے کر کونسے صحابہ کو مسلمان کیا اور امامت نے کونسی تعلیم دے کر کونسے صحابہ کو مسلمان کیا۔