قرآن و رمضان اور نبی کریم ﷺ کے فرمان
فرضیت: اے ایمان والو! تم پر روزے اسی طرح فرض کئے گئے ہیں جس طرح ان لوگوں پر فرض کئے گئے تھے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں تاکہ تم گناہوں سے بچو۔ (سورہ بقرہ 183)
تقوی: اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا اور دغا بازی کرنا (روزے رکھ کر بھی) نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔ (صحیح بخاری 1903)
مختلف واقعات
فدیہ منسوخ: وعلى الذين يطيقونه فدية طَعام مسكين» نازل ہوئی تو جو روزہ نہ رکھنا چاہتا تو فدیہ دے دیتا اور روزہ نہ رکھتا۔ البتہ ان آیات سے فدیہ منسوخ ہو گیا۔ سورہ بقرہ 184: فمن تطوع خيرا فهو خير له وأن تصوموا خير لكم ”پھر جو شخص نیکی میں سبقت کرے وہ اسی کے لیے بہتر ہے لیکن تمہارے حق میں بہتر کام روزہ رکھنا ہی ہے اور سورہ بقرہ 185فمن شهد منكم الشهر فليصمه ومن كان مريضا أو على سفر فعدة من أيام أخر ”تم میں سے جو شخص رمضان کے مہینے کو پائے تو وہ اس کے روزے رکھے، ہاں جو بیمار ہو یا مسافر ہو وہ دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرے (صحیح بخاری 1949، ابوداود 2316)
مکمل بیمار یا فوت کا فدیہ: جب آدمی رمضان میں بیمار ہو جائے پھر مر جائے اور روزے نہ رکھ سکے تو اس کی جانب سے کھانا کھلایا جائے گا اور اس پر قضاء نہیں ہو گی۔ (ابوداود 2401)
سحری کی سہولت: ماہ رمضان میں پہے اگر کوئی روزہ دارافطار سے پہلے بھی سو جاتا تو پھر دوسرے دن کا روزہ رکھ کر افطار کرتا تھا۔ حضرت قَيْسَ بْنَ صِرْمَةَ الْأَنْصَارِيَّ روزے سے تھے جب افطار کا وقت ہوا تو وہ اپنی بیوی کے پاس آئے اور ان سے پوچھا کیا تمہارے پاس کچھ کھانا ہے؟ انہوں نے کہا (اس وقت کچھ) نہیں ہے لیکن میں جاتی ہوں کہیں سے لاؤں گی، دن بھر انہوں نے کام کیا تھا اس لیے آنکھ لگ گئی جب بیوی واپس ہوئیں اور انہیں (سوتے ہوئے) دیکھا تو فرمایا افسوس تم محروم ہی رہے، لیکن دوسرے دن وہ دوپہر کو بیہوش ہو گئے جب اس کا ذکر نبی کریم ﷺ سے کیا گیا تو یہ آیت نازل ہوئی ”کھاؤ پیو یہاں تک کہ ممتاز ہو جائے تمہارے لیے صبح کی سفید دھاری (صبح صادق) سیاہ دھاری (صبح کاذب) سے۔“ (صحیح بخاری 1915)
ہمبستری: نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں عشاء پڑھتے ہی لوگوں پر کھانا، پینا اور عورتوں سے جماع کرنا حرام ہو جاتا، ایک شخص نے اپنی بیوی سے صحبت کر لی اور اس نے روزہ نہیں توڑا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «علم الله أنكم كنتم تختانون أنفسكم» ”اللہ کو خوب معلوم ہے کہ تم اپنے آپ سے خیانت کرتے تھے“ (سورۃ البقرہ: 187) اور اس کے بعد رات کو عورت سے صحبت جائز ہوئی۔ (ابو داود 2313)
دن رات کی تشریح: حضرت عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ نے کہا کہ جب یہ آیت اتری «َ(حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ» (البقرۃ: ۱۸۷) یعنی ”کھاتے پیتے رہو جب تک کہ ظاہر ہو جائے سفید دھاگہ کالے دھاگے سے صبح کے۔“ تو سیدنا عدی رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! میں اپنے تکیہ کے نیچے دو رسیاں رکھتا ہوں ایک سفید ایک کالی اسی سے میں پہچان لیتا ہوں رات کو دن سے، تب آپ ﷺ نے فرمایا: ”تمہارا تکیہ تو بہت چوڑا ہے (مزاح کی راہ سے فرمایا کہ اتنا چوڑا ہے کہ صبح اسی کے نیچے سے ہوتی ہے) اس آیت میں تو سیاہی رات کی اور سفیدی دن کی مراد ہے۔ (صحیح بخاری 1916، 1917صحیح مسلم 2533)
10 محرم: اسلام میں پہلے 10 محرم کا روزہ فرض تھا، جب روزے فرض ہو گئے تو 10 محرم کا روزہ نفل ہو گیا۔ (صحیح بخاری 1892، 1893)
فضائل
1۔ روزہ دوزخ سے بچنے کا ذریعہ، روزہ دار فخش اور جہالت کی باتیں نہیں کرتا بلکہ کوئی گالی دے تو کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں، روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک کستوری کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ، کھانا پینا اور شہوات چھوڑنے کی وجہ سے اللہ کریم کا فرمان ہے، روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور (دوسری) نیکیوں کا ثواب بھی اصل نیکی کے دس گنا ہوتا ہے۔ (صحیح بخاری 1894 ،1904)
2۔ جنت کا ایک دروازہ ہے جسے ریان کہتے ہیں قیامت کے دن اس دروازہ سے صرف روزہ دار ہی جنت میں داخل ہوں گے، ان کے سوا اور کوئی اس میں سے نہیں داخل ہو گا۔ (صحیح بخاری 1896)
3۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو اللہ کے راستے میں دو چیزیں خرچ کرے گا اسے فرشتے جنت کے دروازوں سے بلائیں گے۔۔ نمازی کو نماز کے دروازہ، زکوۃ دینے والے کو زکوۃ کے دروازے، مجاہد کو جہ ا د کے دروازے سے بلایا جائے گا، سیدنا ابوبکر نے پوچھا: کیا کوئی ایسا بھی ہو گا جسے ان سب دروازوں سے بلایا جائے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں اور مجھے امید ہے کہ آپ بھی انہیں میں سے ہوں گے۔ (صحیح بخاری 1897)
4۔ جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ (صحیح بخاری 1898)
5۔ جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان کے تمام دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں سے جکڑ دیا جاتا ہے۔ (صحیح بخاری 1899 صحیح مسلم 2495)
6۔ جو کوئی شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور حصول ثواب کی نیت سے عبادت میں کھڑا ہو اس کے تمام اگلے گناہ بخش دیئے جائیں گے اور جس نے رمضان کے روزے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رکھے اس کے اگلے تمام گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔ (صحیح بخاری 1901)
7۔ رمضان میں نبی کریم ﷺ حضرت جبرائیل علیہ السلام سے قرآن کا دور کرتے تھے اور حضور ﷺ رمضان میں بہت زیادہ سخاوت کرتے۔ (صحیح بخاری 1902)
ہلال (Moon)
جب رمضان کا چن دیکھو تو روزہ شروع کر دو اور جب شوال کا چن دیکھو تو روزہ افطار کر دو اور اگر ابر ہو تو اندازہ سے کام کرو۔ (یعنی تیس روزے پورے کر لو) (صحیح بخاری 1900 صحیح مسلم 2498)
مفہوم حدیث رمضان کا مہینہ 29 کا بھی ہو تو اجر 30 کا ہی ملے گا۔ (صحیح بخاری 1912)
اذان سے روزہ بند: حضور ﷺ نے فرمایا کہ حضرت بلال صبح صادق سے پہلے اذان دے دیتے ہیں، اسلئے تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ حضرت ابن ام مکتوم اذان نہ دیں کیونکہ وہ ٹھیک وقت پر اذان دیتے ہیں۔ (صحیح بخاری 1918، 1919صحیح مسلم 2336)
سحری
سحری آخری وقت میں کھانی چاہئے یعنی روزہ بندہ ہونے سے پانچ منٹ پہلے تک۔ (صحیح بخاری 1920)
نبی کریم ﷺ نے ”صوم وصال“ کے روزے رکھے تو صحابہ کرام نے بھی رکھے مگر کمزور ہونا شروع ہو گئے، نبی کریم ﷺ نے ان کو منع کیا ور فرمایا: میں تمہاری طرح نہیں ہوں۔ میں تو برابر کھلایا اور پلایا جاتا ہوں۔ (صحیح بخاری 1922)
سحری کھاؤ کہ سحری میں برکت ہوتی ہے۔ (صحیح بخاری 1923 صحیح مسلم 2549)
ہمارے اور اہل کتاب کے روزہ میں سحری کے لقمہ کا فرق ہے۔ (صحیح مسلم 2550)
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”کھجور مومن کی کتنی اچھی سحری ہے“۔(ابوداود 2345)
نیت کس وقت تک ہے
نبی کریم ﷺ نے عاشورہ کے دن ایک شخص کو یہ اعلان کرنے کے لیے بھیجا کہ جس نے کھانا کھا لیا وہ اب (دن ڈوبنے تک روزہ کی حالت میں) پورا کرے یا (یہ فرمایا کہ) روزہ رکھے اور جس نے نہ کھایا ہو (تو وہ روزہ رکھے) کھانا نہ کھائے۔ (صحیح بخاری 1924) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دن کے وقت بھی نیت کر سکتے ہیں۔
مسائل
سیدہ عائشہ اور ام سلمہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ روزہ رکھ لیتے حالانکہ غسل کرنا ہوتا، اُس کے بعد فجر ہوتی تو آپ ﷺ غسل کرتے۔ (صحیح بخاری 1926 صحیح مسلم 2589)
سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ روزہ سے ہوتے لیکن اپنی بیویوں کو چوم بھی لیتے اور گلے بھی لگا لیتے بغیر شہوت کے۔ (صحیح بخاری 1927 صحیح مسلم 2573)
ایک شخص نبی اکرم ﷺ سے روزہ دار کے بیوی سے چمٹ کر سونے کے متعلق پوچھا، آپ نے اس کو اس کی اجازت دی، اور ایک دوسرا شخص آپ ﷺ کے پاس آیا اور اس نے بھی اسی سلسلہ میں آپ سے پوچھا تو اس کو منع کر دیا، جس کو آپ ﷺ نے اجازت دی تھی، وہ بوڑھا تھا اور جسے منع فرمایا تھا وہ جوان تھا۔ (ابوداود 2387)
روزہ میں نہانا، باربار کُلی کرنا، زبان پر سالن رکھ کر چکھنا، صبح و شام مسواک کرنا سب جائز ہے، البتہ تھوک اندر نہ جانے دے۔ (صحیح بخاری 1929)
کسی روزہ دار کے گلے میں، ناک میں وضو کے دوران پانی چلا جائے، کسی کے منہ میں مکھی چلی جائے، کوئی بھولے سے بیوی سے صحبت کر لے یا بھولے سے کھا پی لے تو کوئی گناہ نہیں بلکہ اسے اللہ کریم نے کھلایا پلایا ہے۔ (صحیح بخاری 1933)
ناک میں (دوا وغیرہ) چڑھانے میں اگر وہ حلق تک نہ پہنچے تو کوئی حرج نہیں ہے اور روزہ دار سرمہ بھی لگا سکتا ہے۔ (صحیح بخاری 1935)
نبی کریم ﷺ نے روزہ کی حالت میں پچھنا لگوایا۔ (صحیح بخاری 1939)
جس نے قے کی اس کا روزہ نہیں ٹوٹتا، اور نہ اس شخص کا جس کو احتلام ہو گیا، اور نہ اس شخص کا جس نے پچھنا لگایا“ (ابوداود 2376) ہاں اگر اس نے قصداً قے کی تو قضاء کرے (ابوداود 2380)
اگر کسی نے رمضان میں بغیر کسی وجہ کے ایک دن روزہ نہ رکھا تو ساری عمر کے روزے بھی اس کا بدل نہیں ہو سکتے۔
کفارہ
ایک شخص نے عرضی کی یا رسول اللہ! میں تو تباہ ہو گیا، میں نے روزہ کی حالت میں اپنی بیوی سے جماع کر لیا ہے، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہارے پاس کوئی غلام ہے جسے تم آزاد کر سکو؟ اس نے کہا نہیں، کیا لگاتار دو مہینے کے روزے رکھ سکتے ہو؟ اس نے عرض کی نہیں، کیا تم کو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی طاقت ہے؟ کہا نہیں۔ تھوڑی دیر گذری کہ ایک بڑا تھیلا کھجوروں کا آیا تو آپ ﷺ نے اس کو بلا کر فرمایا: اسے لے لو اور صدقہ کر دو، اس شخص نے کہا یا رسول اللہ! کیا میں اپنے سے زیادہ محتاج پر صدقہ کر دوں، بخدا ان دونوں پتھریلے میدانوں کے درمیان کوئی بھی گھرانہ میرے گھر سے زیادہ محتاج نہیں ہے، اس پر نبی کریم ﷺ اس طرح ہنس پڑے کہ آپ کے آگے کے دانت دیکھے جا سکے۔ پھر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اچھا جا اپنے گھر والوں ہی کو کھلا دے۔ (صحیح بخاری 1936 صحیح مسلم 2595)
مسافر کا روزہ
حَمْزَةَ بْنَ عَمْرٍو الْأَسْلَمِيَّ نے پوچھا کہ سفر میں روزہ رکھوں تو آپ چنے فرمایا، رکھنا چاہے تو رکھ اور نہ رکھنا چاہے تو نہ رکھ۔ (صحیح مسلم 2609 صحیح بخاری 1943)
نفلی روزے نہ رکھے بلکہ فرض روزے قضا کرے
سعید بن مسیب نے کہا کہ (ذی الحجہ کے) دس روزے اس شخص کے لیے جس پر رمضان کے روزے واجب ہوں (اور ان کی قضاء ابھی تک نہ کی ہو) رکھنے بہتر نہیں ہیں بلکہ رمضان کی قضاء پہلے کرنی چاہئے۔ (صحیح بخاری 1950)
صحیح بخاری 1951: اور ابوالزناد نے کہا کہ دین کی باتیں اور شریعت کے احکام بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ رائے اور قیاس کے خلاف ہوتے ہیں اور مسلمانوں کو ان کی پیروی کرنی ضروری ہوتی ہے ان ہی میں سے ایک یہ حکم بھی ہے کہ حائضہ روزے تو قضاء کر لے لیکن نماز کی قضاء نہ کرے۔
ایک مرتبہ نبی کریم کے زمانہ میں بادل تھا۔ ہم نے جب افطار کر لیا تو سورج نکل آیا۔ اس پر ہشام (راوی حدیث) سے کہا گیا کہ پھر انہیں اس روزے کی قضاء کا حکم ہوا تھا؟ تو انہوں نے بتلایا کہ قضاء کے سوا اور چارہ کار ہی کیا تھا؟ (صحیح بخاری 1959)
افطاری
جب رات اس طرف (مشرق) سے آئے اور دن ادھر مغرب میں چلا جائے کہ سورج ڈوب جائے تو روزہ کے افطار کا وقت آ گیا۔ (صحیح بخاری 1954)
جب سورج غروب ہوا تو آپ نے ایک شخص سے فرمایا کہ اتر کر ہمارے لیے ستو گھول لاو، اس لئے روزہ کسی بھی چیز سے افطار کر سکتے ہیں۔ (صحیح مسلم 2559 صحیح بخاری 1956)
رسول اللہ ﷺ نماز (مغرب) پڑھنے سے پہلے چند تازہ کھجوروں، اگر تازہ کھجوریں نہ ملتیں تو خشک کھجوروں اور اگر خشک کھجوریں بھی نہ مل پاتیں تو چند گھونٹ پانی سے روزہ افطار فرماتے۔ (ابوداود 2356)
میری امت کے لوگوں میں اس وقت تک خیر باقی رہے گی، جب تک وہ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے۔ (صحیح بخاری 1957 صحیح مسلم 2554)
افطار کے وقت کی دعا ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ” پیاس ختم ہو گئی، رگیں تر ہو گئیں، اور اگر اللہ نے چاہا تو ثواب مل گیا (ابوداود 2357)
اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ” اے اللہ! میں نے تیری ہی خاطر روزہ رکھا اور تیرے ہی رزق سے افطار کیا ابوداود (ابوداود 2358)