سیدنا عبدالرحمن بن عوف
1۔ حضرت عبدُالرّحمٰن بن عَوْف عشرہ ٔ مُبَشِّرہ میں سے عظیم صحابی تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سیدنا ”ابوبکر جنتی، عمر جنتی، عثمان جنتی، علی جنتی، طلحہ جنتی، زبیر جنتی، عبدالرحمٰن بن عوف جنتی، سعد جنتی، سعید (سعید بن زید) جنتی اور ابوعبیدہ بن جراح جنتی ہیں۔ (ترمذی 3747)
2۔ آپ کا تعلق قریش کے خاندان بنو زُہرہ سے ہے۔ حضرت ابوبکرصدیق کی دعوت کے نتیجے میں ہی حضرت عبدالرحمن بن عوف مشرف باسلام ہوئے۔ زمانۂ جاہلیت میں آپ کا نام عَبْد عَمْرو یا عبدُ الکعبہ تھا، نبی کریم ﷺ نے آپکا تبدیل فرماکر عبدالرّحمٰن رکھا۔
3۔ ذریعۂ آمدن آپ بزّاز (یعنی کپڑے کے تاجر) تھے (المعارف لابن قتیبہ، ص575)
4۔ سیدنا عبد الرحمٰن بن عَوْف ہجرت کر کے مدینہ شریف پہنچے تو نبی کریم ﷺ نے آپ کو سیدنا سَعْد بن رَبیع انصاری کا بھائی بنا دیا۔ حضرت سعد بن ربیع امیر آدمی تھے انہوں نے اپنا آدھا مال پیش کیا اور کہا کہ میری دو بیویاں ہیں، ان میں سے جو پسند ہو اُس کو طلاق دے دیتا ہوں، آپ عدت کے بعد اس سے نکاح کر لیں، اس پر سیدنا عبدالرحمٰن نے کہا، مجھے ان کی ضرورت نہیں بلکہ بازار دکھا دیں تو ”سوق قَیْنُقَاع “ کا نام بتایا گیا تو آپ نے کاروبار شروع کیا اور چند دن بعد جب رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو زرد رنگ کا نشان (کپڑے یا جسم پر) تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا کیا نکاح کر لیا تو آپ نے ہاں کہا۔ کس سے؟ بولے ایک انصاری خاتون سے۔ پوچھا حق مہر کتنا دیا؟ بتایا ایک گٹھلی برابر سونا۔ پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا، اچھا تو ولیمہ کر خواہ ایک بکری ہی کا ہو۔ (صحیح بخاری 2048)
غزوات: بدر میں دشمن عمیر بن عثمان بن کعب کا سر تن سے جُدا کر دیا۔ اُحد والے دن آپ کے جسم پر 20 سے زائد زخم تھے، ان میں بعض زخم ایسے تھے جن میں پورا ہاتھ داخل ہو جاتا تھا۔ غزوہ تبوک میں بھی خوب مال دیا۔
5۔ نبی کریم ﷺ نے لوگوں کو صدقہ دینے کا فرمایا تو آپ نے آدھا مال گھر والوں کے لئے اور بقیہ آدھا مال راہِ خدا میں پیش کردیا جس پر نبیِّ کریم ﷺ دعا دی کہ اللہ کریم جو تم نے دیا اس میں اور جو گھر والوں کے لئے رکھا اس میں بھی برکت دے (تفسیر خازن، ج 2، ص 265)
6۔ ایسی برکت نصیب ہوئی کہ خود کہتے ہیں کہ میں جب کوئی پتھر اُٹھاتا ہوں تو مجھے اُمّید ہوتی ہے کہ اس کے نیچے سونا ہی ملے گا۔ ‘‘یہاں تک کہ اللہ پاک نے آپ پررِزْق کے دروازے اس قدر کھول دیئے تھے کہ انتقال کے بعد آپ کے چھوڑے ہوئے سونے (Gold) كو کلہاڑوں سے کاٹتے کاٹتے لوگوں کے ہاتھوں میں آبلے پڑ گئے تھے۔ (شفا شریف، ج 1، ص 326)
امام ابنِ عبد ُالبَرّ فرماتے ہیں: تجارت کے معاملے میں آپ بہت خوش قسمت واقع ہوئے ہیں، آپ نے اپنے پیچھےایک ہزار اُونٹ، تین ہزار بکریاں اور 100 گھوڑے چھوڑے۔ (سیر اعلام النبلاء، ج 3، ص 58)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ مِنْ تُجَّارِ الرَّحْمٰن عبد الرحمٰن بن عَوْف رحمٰن (اللہ پاک) کے تاجروں میں سے ہیں۔ (فردوس الاخبار 2789)
میری اُمّت کے مالداروں میں سب سے پہلے عبد الرحمٰن بن عوف جنّت میں داخل ہوں گے۔(کنز العمال 33495)
آپ ان چھ اراکین مجلسِ شوریٰ میں سے ایک ہیں جنہیں امیر المؤمنین عمر ؓ نے اپنے بعد خلافت کا مستحق چنا تھا(صحیح بخاری 3700)
مفتی: آپ ان جید صحابہ کرام میں سے ہیں جنہیں فتوی دینے کی اجازت تھی۔
سیدنا عمر نے اس وقت تک مجوسیوں سے جزیہ نہیں لیا جب تک (سیدنا) عبدالرحمن بن عوف نے گواہی نہ دے دی کہ رسول اللہ ﷺ نے ہجر (ایک علاقے) کے مجوسیوں سے جزیہ لیا تھا۔ (صحیح بخاری:3156، 3157)
سیدنا عمر نے عبدالرحمن بن عوف ﷺ سے فرمایا:فأنت عندنا عدل پس آپ ہمارے (تمام صحابہ کے ) نزدیک عادل (ثقہ، قابلِ اعتماد ) ہیں (مسند ابی یعلیٰ 839)
آپ کی فقاہت پر سب سے بڑی دلیل غزوہ تبوک کے سفرکا وہ واقعہ ہے جس میں آپ نے فجر کی نماز میں صحابہ کی امامت کرائی، اور آپ ﷺ نے آپ کے پیچھے نماز ادا کی( نسائی 82)۔ ایک دفعہ آپ ﷺ نے فرمایا: کوئی نبی اس وقت تک دار فانی سے کوچ نہیں کرتا جب تک اپنی امت کے کسی نیک آدمی کی اقتداء میں نماز نہ پڑھ لے۔ (الطبقات لابن سعد 3/129، بیروت، 1376ھ)
اہلبیت کا خیال: آپ ﷺ نے اپنے وصال کے بعد امہات المؤمنین کی ذمہ داری آپ کے سپرد فرمائی۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف اہلبیت کا بھی بہت خیال رکھتے تھے اور امہات المومنین کو ان پر بڑا اعتبار تھا۔ ایک واقعہ جیسے سیدہ عائشہ نے ایک دفعہ ان کے تجارتی قافلہ آنے پر ان کو دعا دی۔
ترمذی 3749: راوی سیدہ عائشہ، رسول اللہ ﷺ (اپنی بیویوں سے) فرماتے تھے: تم لوگوں کا معاملہ مجھے پریشان کئے رہتا ہے کہ میرے بعد تمہارا کیا ہو گا؟ تمہارے حقوق کی ادائیگی کے معاملہ میں صرف صبر کرنے والے ہی صبر کر سکیں گے۔ پھر سیدہ عائشہ نے (ابوسلمہ سے) کہا: اللہ تمہارے والد یعنی عبدالرحمٰن بن عوف کو جنت کی نہر سلسبیل سے سیراب کرے، انہوں نے آپ ﷺ کی بیویوں کے ساتھ ایک ایسے مال کے ذریعہ جو چالیس ہزار (دینار) میں بکا، اچھے سلوک کا مظاہرہ کیا۔
وفات: 31 یا 32ھ میں حضرت عثمانِ غنی کے دورِ خلافت میں 72 یا 75 سال کی عمرمیں وِصال فرمایااور مدینۂ منورہ کے قبرستان جنّتُ البقیع میں مَدْفون ہوئے۔ (سیر اعلام النبلاء، ج 3، ص43 ،44، 47،58، معجم کبیر، ج 1، ص128، رقم 262، معرفۃ الصحابہ، ج 3، ص 260)
آپ کے جسم کو قبر میں آپ ﷺ کے ماموں حضرت سعد بن ابی وقاص نے اتارا۔ آپ کی نماز جنازہ حضرت عثمان نے پڑھائی۔
تعریف: سیدنا عبدالرحمن بن عوف کی وفات پر سیدنا علی نے فرمایا: اذھب یا ابن عوف فقد أدرکت صفوھا و سبقت رنقھا اے ابن عوف !جاؤ، تم نے دنیا کا بہترین حصہ پا لیا اور گدلے (مٹی والے) حصے کو چھوڑ دیا (الم