شب برأت کو قبرستان جانا
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ بیان کرتی ہیں: فَقَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لَيْلَةً فَخَرَجْتُ فَإِذَا هُوَ بِالْبَقِيعِ فَقَالَ ” أَكُنْتِ تَخَافِينَ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْكِ وَرَسُولُهُ ” . قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي ظَنَنْتُ أَنَّكَ أَتَيْتَ بَعْضَ نِسَائِكَ . فَقَالَ ” إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَنْزِلُ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا فَيَغْفِرُ لأَكْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ كَلْبٍ” ایک رات میں نے رسول اللہ ﷺ کو (بستر سے) غائب پایا۔ (میں نے تلاش کیا) آپ ﷺ بقیع الغرقد میں تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہیں یہ خطرہ محسوس ہوا کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر ظلم کریں گے؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرا یہ گمان تھا کہ آپ کسی دوسری اہلیہ کے ہاں چلے گئے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "بلاشبہ اللہ تعالیٰ نصف شعبان (15 شعبان) کی رات کو آسمانِ دُنیا پر نزول فرماتا ہے اور بنوکلب کی بکریوں کے بالوں کی مقدار (لوگوں) کو معاف فرما دیتا ہے۔ (ترمذی، الصوم، باب ماجاء فی لیلة نصف الشعبان (739)، ابن ماجه (1389)، احمد (26546)، والبیھقی فی شعب الایمان (3724)، والمعجم الاوسط لطبرانی (199)، وجمع الجوامع (1737) نے فرمایا: "بلاشبہ اللہ تعالیٰ نصف شعبان (15شعبان) کی رات کو آسمانِ دُنیا پر نزول فرماتا ہے اور بنوکلب کی بکریوں کے بالوں کی مقدار (لوگوں) کو معاف فرما دیتا ہے۔
پہلی بات: جو بخشش چاہتا ہے وہ گناہ چھوڑے گا۔
دوسری بات: جس کی بخشش ہو جاتی ہے وہ گناہ چھوڑ دیتا ہے کیونکہ کنجری نے کتے کو پانی پلایا بخشی گئی پھر کنجری نہ رہی۔
تیسری بات: جس کو اللہ کریم بخش دیتا ہے، اس کی نشانی ہے کہ اسے اپنے محبوب ﷺ کا دیوانہ بنا دیتا ہے۔
چوتھی بات: قبرستان جانا جائز ہے، جب مرضی جاو مگر عبرت حاصل کرنے کے لئے ہو، اگر نہیں تو پھر عبرت کے لئے ہسپتالوں کا چکر لگاو۔
پانچویں بات: اسلئے کام نہ کرو کہ دیوبندی یا وہابی نہیں کرتا ہم کریں گے۔
چھٹی بات: جس رات تمہاری بخشش ہو جائے وہی رات شب برات ہے