ذی الحج کے 10 دن اور ایام تشریق

ذی الحج کے 10 دن اور ایام تشریق

 

بارہ مہینوں میں حرمت والے مہینوں میں عبادت کا اپنا ایک مقام ہے۔ عشرہ ذی الحجہ کے باقی ایام سے امتیاز کا ایک سبب یہ معلوم ہوتاہے کہ اس میں بڑی بڑی عبادات جمع ہو جاتی ہیں جیسے روزہ، قربانی اور حج۔
اللہ کریم فرماتا ہے: قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی۔ (الفجر: 1۔ 2) سیدنا عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں:اللہ تعالیٰ نے جن دس راتوں کی قسم کھائی ہے، یہ ذوالحجہ کی پہلی (دس) راتیں ہیں۔‘‘ (تفسیر طبری) دس راتوں سے مراد ذوالحجہ کی دس (راتیں) ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر)
فضیلت: سورہ فجر ”قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی“ سے مُراد ذی الحج کے پہلے 10دن رات کی قسم ہے (شعب الایمان 3740)۔ شعب الایمان 3479 ”ذی الحج سب سے عظیم مہینہ ہے“۔ شعب الایمان 3481 اور مسند احمد 5446 ”دس دن بھی مبارک اور ان میں کئے گئے نیک اعمال بھی اللہ کے ہاں محبوب ہیں“۔
کسی دن کا عمل (اللہ تعالیٰ) کے ہاں ان (دس) دنوں کے عمل سے افضل نہیں۔ صحابہ نے پوچھا: کیا ج ہا د بھی نہیں؟ تو آپ نے فرمایا: ’’ج ہا د بھی نہیں۔ مگر وہ شخص جو دشمنوں سے لڑتے ہوئے اپنی جان و مال کی بازی لگا دی اور (ان میں سے) کسی چیز کے ساتھ واپس نہ لوٹے۔‘‘ (صحیح البخاری 969)
عبادت: شعب الایمان 3473: ان 10دنوں میں تہلیل، تحمید، تکبیر اور تسبیح کرو۔ابو داؤد 2438 ”ج ہاد سے افضل ان 10 دنوں کی عبادت ہے“۔ ترمذی 758 ”ذی الحجہ کے ابتدائی 9 دن کے ایک روزے کا ثواب ایک سال کے روزے کے برابر ہے اور رات کو قیام لیلتہ القدر کے برابر ہے“۔ابو داود 2437 ”حضورﷺ بھی ذی الحج کے 9 دن کے روزے رکھتے“۔
ممانعت: مسلم 5117: ”حضور ﷺ نے فرمایا جس کا قربانی کرنے کا ارادہ ہو تو چاند نظر آنے کے بعد نا خن اور با ل وغیرہ نہ کٹو ائے“۔ ابوداود 2789: اگر غریب آدمی بھی چاند دیکھنے سے پہلے با ل اور نا خن کٹوا لے اور اُس کے بعد عید کی نماز کے بعد کٹوائے تو قربانی کا ثواب پائے۔
حماقت: مندرجہ بالا قرآن و سنت پر عمل کرنا مستحب ہے لیکن ان کا درجہ ایک فرض کے برابر نہیں ہے، اسلئے کوئی یہ نہ سمجھے کہ فرض چھوڑ کر ان اعمال کو کرے بلکہ فرائض کے ساتھ ساتھ مستحبات پر عمل کرے۔
عرفہ کے دن کی فضیلت
1۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: قسم ہے حاضر ہونے والے کی اور جس کے پاس حاضر ہوا جائے۔ (البروج: 3) اکثر مفسرین کا موقف ہے کہ آیت کریمہ میں ’’شاھد‘‘ سے مراد ’’جمعہ‘‘ کا دن اور ’’مشھود‘‘ سے مراد عرفات کا دن ہے۔ (تفسیر طبری)
2۔ یوم عرفہ یعنی 9 ذی الحج کے روزے کا ثواب ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔ (ترمذی 749)
3۔ ایک یہودی نے ان سے کہا: اے امیر المومنین! تمھاری کتاب میں ایک آیت ہے جسے تم پڑھتے ہو، اگر ہم یہودیوں پر اترتی تو ہم ضرور اس دن کو عید کا دن بنا لیتے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کونسی آیت ہے؟ وہ کہنے لگا: الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا (المائدۃ: 3) تو عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے: ہم اس دن اور جگہ کو جانتے ہیں جس میں یہ نبی ﷺپر اتری، اس وقت آپ عرفات (کے میدان) میں جمعہ کے دن کھڑے تھے۔‘‘ (صحیح البخاري: 45، 7268، صحیح مسلم: 3017)
4۔ بے شک یہ آیت دو عید کے دنوں میں اتری، جمعہ اور عرفہ کا دن۔ (ترمذی 3044 )
5۔ یوم عرفہ، قربانی کا دن اور ایام تشریق ہم اہل اسلام کے لیے عید ہیں اور یہ ایام کھانے پینے کے ہیں۔ (ابو داود 2419، ترمذی 773، نسائی 3007)
6۔ عرفہ کے دن کے روزے کے بارے میں مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ یہ گزشتہ اور آئندہ (دو) سالوں کے (گناہوں) کا کفارہ ہو گا۔ (صحیح مسلم: 1162)
7۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے نزدیک سب سے عظیم دن قربانی کا دن، پھر ’’یوم القر‘‘ہے۔ (ابوداود 1765) یَوْمُ الْقَرّ: عید الأضحی کا دوسرا دن مراد ہے۔
ایام تشریق
پہلی بات: ایام “یوم“ کی جمع ہے اور یوم دن کو کہتے ہیں جیسے یوم پاکستان وغیرہ۔ عید الاضحی کے بعد کے تین دنوں (11,12,13 ذی الحج)کو ”ایام تشریق“ کہتے ہیں۔
دوسری بات: ایام تشریق کو "ایام تشریق” کہنے کے متلعق یہ قول ہیں:
1۔ تشریق کا معنی ہے گوشت کے پارچے (ٹکڑے) بنا کر ان کو دھوپ میں سکھانا اور عربوں میں گوشت خشک کرنے کو”تشریق“ کہتے ہیں۔
2۔ قربانی کے جانور کو اس وقت تک ذبح نہیں کیا جاتا جب تک سورج طلوع نہیں ہوتا اور عید کی نماز سورج کے طلوع ہونے(شروق الشمس)پر ادا کی جاتی ہے، لہذا پہلے روز کے بعد آنے والے ان تمام دنوں کو ایام تشریق کہتے ہیں۔
3۔ سورہ بقرہ کی آیت 203 (وَاذْكُرُوا اللّٰهَ فِيْ اَ يَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ) کے مطابق ایام تشریق کو ”ایام معدودات“ بھی کہا جاتا ہے۔
تیسری بات: حقیقی ایام تشریق 11,12,13 ذی الحج کے تین ایام کو کہتے ہیں۔ 9 تا 13 ذی الحج (5 دن) کو مجازاً ایام تشریق اسلئے کہتے ہیں کہ 9 ذوالحجہ کی فجر سے 13 ذوالحجہ کی عصرتک (5 دن) تکبیر تشریق (الله اکبر الله اکبر لا الہ الا الله والله اکبر الله اکبر ولله الحمد) پڑھی جاتی ہیں (ہدایہ 420/4) حقیقی تین دن اور مجازی پانچ دن ایام تشریق کے ہیں۔
چوتھی بات: ان تین حقیقی ایام تشریق (11,12,13 ذی الحج) کے متعلق رسول کریمﷺ کا فرمان ہے کہ یہ کھانے پینے کے دن ہیں۔ البتہ یومِ نحر(قربانی کا دن) بھی کھانے پینے کا ہے اور یہ تین دن اس کے تابع ہیں لہذا ان چار دنوں اور عید الفطر(کل پانچ دن پورے سال) میں روزہ کھنا حرام ہے۔
پانچویں بات: ایام تشریق میں روزے رکھنے کی ممانعت آئی ہے تو اس سے مراد ایام تشریق کے حقیقی معنی ہیں کیونکہ اگرتکبیر تشریق والے ایام بھی مراد لیں گے تو پھر روزے کے ممنوع ایام پانچ نہیں بلکہ چھ ہو جائیں گے جو کہ خلاف شریعت ہے۔
پانچ دن: ابوداود 2416 "حضورﷺ نے عید الفطر اور عید الاضحی کے دن روزے رکھنے سے منع فرمایا”۔ مسلم 2677 "ایام تشریق یعنی ذوالحجہ کے 11, 12, 13 تاریخ کے ایام کے بارے میں حضورﷺنے فرمایا : ایامِ تشریق کھانے پینے کے دن ہیں۔
چھٹی بات: یہ دن خوشی کے دن ہیں لیکن پھر بھی فرمایا گیا کہ وَاذْكُرُوا اللّٰهَ فِيْ اَ يَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ (اور یاد کرو اللہ تعالی کو گنتی کے چند دنوں میں) اس آیت سے مراد ایام تشریق میں نمازوں کے بعد پڑھی جانے والی تکبیرات، قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت کی تکبیرات اور حج کرنے والوں کے لئے رمی جمار کی تکبیرات وغیرہ ہیں۔
تکبیرات تشریق: ہر مرد کے لئے اونچی آواز میں اور عورت کے لئے آہستہ آواز میں 9 ذوالحجہ کی فجر سے لے کر13ذوالحجہ کی عصر تک تکبیرات تشریق کا ایک مرتبہ کہنا واجب ہے۔ سلام کے فوری بعد یہ تکبیرات کہنی چاہئیں۔
اہم بات: یہ تکبیریں ہر نماز کے فورا بعد قبلہ رُخ رہتے ہوئے، کسی سے بات چیت کئے بغیر کہنی ہیں۔
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general