مباہلہ اور معاہدہ (عید مباہلہ)
ہر آیت کی شان نزول مستند احادیث سے ملتی ہے، اہلتشیع منگھڑت دین کے پاس پنجتن کی روایات کی کوئی احادیث کی کتب نہیں، اسلئے 14 اور 12 کے تبرا تقیہ بدا عقیدے والے اہلتشیع حضرات کا تعلق پنجتن سے نہیں لیکن اہلبیت کے لبادے میں دین اسلام کے دشمن ہیں اور اسلام کو متنازعہ بنانا ان کا مشن ہے۔
9 ہجری میں نجران سے عیسائی میشنری کا بڑا وفد آیا جو کہتا تھا کہ سیدنا عیسی علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں اور ان کا عقیدہ تثلیث پر تھا۔ حضورﷺ نے ان کو تبلیغ کی مگر وہ نہ مانے۔
حضورﷺ نے فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَاَبْنَآئَکُمْ وَنِسَآئَناَ وَنِسَآئَکُمْ وَاَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَکُمْ ’’پھر اے محبوب جو تم سے عیسی کے بارے میں حجت کریں بعد اس کے کہ تمہیں علم آ چکا تو ان سے فرما دو آؤ ہم بلائیں اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں اور اپنی جانیں اور تمہاری جانیں پھر مباہلہ کریں تو جھوٹوں پر اللہ کریم کی لعنت ڈالیں ( آل عمران 61) سُنا کر مباہلے کی دعوت دی۔
مشورہ: یہ آیت سننے کے بعد انہوں نے مشورہ کیا کہ آخری نبی کے آنے تذکرہ تو ہماری کتابوں میں موجود ہے، اسلئے اگر یہ وہی نبی ہیں تو ہمارا دین اُجڑ جائے گا، اسلئے انہوں نے فیصلہ کیا کہ ہم مباہلہ نہیں کریں گے بلکہ معاہدہ کریں گے۔
سوال؛ اہلتشیع کے پاس کتب اربعہ کے منگھڑت راویوں کی تعلیم چھوڑ کر اگر نبوت کی تعلیم اگر ہے تو اہلسنت کی احادیث چھوڑ کر یہ بتا دیں کہ آل عمران 61 میں کون کونسی ہستیاں شامل ہیں؟ جیسے سورہ توبہ 100 کی اآیت شامل نام اوَالسّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الْمُہٰجِرِیۡنَ وَالۡاَنۡصَارِ ترجمہ: اور سب میں اگلے پہلے مہاجر اور انصار اور جو بھلائی کے ساتھ ان کے پیرو ہوئے اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے۔ (توبہ 100) ان کے نام یہ ہیں؛
السابقین الاولین: (1) حضرات خدیجہ بنت خویلد (2) علی بن ابی طالب (3) ابوبکر صدیق (4) زید بن حارثہ (5) عثمان بن عفان (6) الزبیر بن عوام (7) سعد بن ابی وقاص ( طلحہ بن عبیداللہ (9) عبدالرحمن بن عوف (10) ابوعبیدہ بن جراح (11) ابو سلمہ بن عبدالاسد مخزومی (12) ارقم بن ابی ارقم (13) عثمان بن مظعون (14) عبیدہ بن حارث (15) سعید بن زید بن عمرو (16) اسماء بنت ابو بکر (17) خباب بن ارت (18) عمیر بن ابی وقاص (19) عبداللہ بن مسعود (20)مسعود بن ابی ربیعہ (21) سلیط بن عمرو بن عبدشمس (22) عیاش بن ابی ربیعہ (23) ان کی بیوی اسماء بنت سلامتہ (24) خُنیس بن حذافہ (25) عامر بن ربیعہ (26) عبداللہ بن جحش (27) جعفر بن ابی طالب (28) ان کی بیوی اسماء بنت عمیس (29) حاطب بن حارث (30) اور ان کی بیوی فاطمہ بنت المجلل (31) اور بھائی خطاب بن حارث (32) اور اس کی بیوی فکیہہ بنت یسار (33) اور بھائی معمر بن حارث (34) سائب ولد عثمان بن مظعون (35) مطلب بن ازھر (36) اور ان کی بیوی رملہ بنت ابی عوف (37) نحام نعیم بن عبداللہ (38) عامر بن فہیرہ مولی صدیق اکبر (39) خالد بن سعید بن العاص (40) اور ان کی بیوی امیمہ بنت خلف (41) حاطب بن عمرو (41) ابو خذیفہ بن عتبہ (42) واقد بن عبداللہ (43) خالد بن البکیر (44) اور بھائی عامر بن البکیر (45) بھائی عاقل بن البکیر (46) بھائی ایاس بن البکر (47) عمار بن یاسر (48) صہیب بن سنان (49) ابو ذر جندب (50) ابو نجیح عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنھم۔ یہ پچاس پہلے ایمان لانے والوں سے ہیں ان پر سلام ہو۔
معاہدہ: وفد نجران کے دو عیسائی سرداروں نے مباہلہ سے انکار کر کے کہا کہ ہم آپ سے صلح کرتے ہیں۔۔آپ ہمارے ساتھ ایسا شخص بھیجیں جو بہت امین ہو (تاکہ وہ ہم سے جزیہ لے، ہم پر ایمانداری سے حکومت کرے احکام نافذ کرے اور کوئی مسلمان ہم سے جنگ نہ کرے)۔ آپﷺنے فرمایا کہ میں بہت ہی امین شخص کو تمہارے ساتھ بھیجوں گا۔۔تمام ا صحاب اس منصف کے شرف کو حاصل کرنے کی خواہش کرنے لگے۔۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: اے ابو عبیدہ کھڑے ہو جاؤ۔ جب ابو عبیدہ کھڑے ہوئے تو آپﷺ نے فرمایا کہ یہ میرے امت کے امین ہیں۔ (صحیح بخاری 4380)
کاتب: سیدنا علی نے فرمایا آپ ﷺ اور عیسائی حضرات کے ساتھ جو معاہدہ ہوا وہ میں نے لکھا (ابوداود 3040) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل نجران سے اس شرط پر صلح کی کہ وہ کپڑوں کے دو ہزار جوڑے مسلمانوں کو دیا کریں گے، آدھا صفر میں دیں اور باقی رجب میں، اور تیس زرہیں، تیس گھوڑے اور تیس اونٹ اور ہر قسم کے ہتھیاروں میں سے تیس تیس ہتھیار جس سے مسلمان جہاد کریں گے بطور عاریت دیں گے اور مسلمان ان کے ضامن ہوں گے اور ضرورت (پوری ہو جانے پر) انہیں لوٹا دیں گے اور یہ عاریتاً دینا اس وقت ہو گا جب یمن میں کوئی فریب کرے یا مسلمانوں سے غداری کرے اور عہد توڑے، اس شرط پر کہ ان کو کوئی گرجا نہ گریا جائے گا اور کوئی پادری نہ نکالا جائے گا اور ان کے دین میں مداخلت نہ کی جائے گی، جب تکہ کہ وہ کوئی نئی بات نہ پیدا کریں یا سود نہ کھانے لگیں۔۔ (ابوداود 3041)
ابو داود کی دونوں روایات ضعیف ہیں مگر امام بخاری کے استاد کتاب المصنف روایت 37017 سے یہ ضعف دور ہو گیا کہ حضورﷺ نے ان سے معاہدہ کیا تھا جو لکھوایا بھی، اس میں لکھا تھا کہ عیسائیوں کو جلا وطن نہیں کیا جائے گا۔۔ اہل نجران سیدنا عمر کے پاس آئے اور کہا کہ ہم میں بہت انتشار و حسد پیدا ہو گیا ہے، ہمیں جلا وطن کر دیں۔۔ حضرت عمر نے موقعہ غنیمت جان کر جلا وطن کر دیا۔