گرمی و سردی
ہمیں حضور ﷺ نے فرمایا کہ یہ سردی اور گرمی اس وجہ سے ہیں:
1۔ صحیح بخاری 3260 اور صحیح مسلم 1403: ’’دوزخ نے اپنے رب سے شکایت کی کہ اے میرے رب! آگ کی شدت کی وجہ سے) میرےبعض حصہ نے بعض حصہ کو کھا لیا ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے اسے دو سانس لینے کی اجازت دی ، ایک سانس جاڑے میں اور ایک سانس گرمی میں اب انتہائی سخت گرمی اور سخت سردی جو تم لوگ محسوس کرتے ہو وہ اسی سے پیدا ہوتی ہے۔ ‘‘
2۔ یہ نبی کریم ﷺ نے ایک غیبی خبر دی کہ جہنم میں سردی بھی ہے اور جہنم میں گرمی بھی ہے۔ دُنیا میں جو گرمی اور سردی پڑتی ہے وہ جہنم کی سانس کی وجہ سے ہے۔ اعتراض کرنے والا کر سکتا ہے کہ گرمی سردی کے علاقے مختلف ہیں اور سردی گرمی کی یہ تقسیم سمجھ سے بالا تر ہے کیونکہ کچھ علاقے بہت ٹھنڈے اور کچھ بہت گرم ہیں لیکن یہ تقسیم ربی دکھائی نہیں دیتی۔
3۔ اسلئے ان احادیث پر ہم ایمان لا سکتے ہیں کیونکہ جیسے ہم سورج اور چاند کا مشاہدہ کر سکتے ہیں، سائنسدان اُس پر ورکنگ کر کے بتا سکتے ہیں کہ یہ زمین سے کتنا دور ہیں اور راستے میں کون کونسے سیارے موجود ہیں، اگر گرمی کی شدت اتنی ہو جائے تو کیا نقصان ہو گا اورسردی کی شدت اتنی ہو جائے تو کیا فرق پڑے گا، اس پر محکمہ موسمیات بھی پیش گوئیاں کرتا ہے۔ البتہ جہنم اور جنت یہ دونوں نظر نہیں آتے اور ان پر ایمان لانا غیب پر ایمان لانا ہے جیسا ان احادیث پر بھی ہم ایمان لاتے ہیں:
صحيح بخاری، كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ باب: آیت «والشمس تجري لمستقر لها ذلك تقدير العزيز العليم» کی تفسیر، حدیث 4802: سیدنا ابوذر نے بیان کیا کہ آفتاب غروب ہونے کے وقت میں مسجد میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ موجود تھا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ابوذر! تمہیں معلوم ہے یہ آفتاب کہاں غروب ہوتا ہے؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے «والشمس تجري لمستقر لها ذلك تقدير العزيز العليم» کہ ”اور آفتاب اپنے ٹھکانے کی طرف چلتا رہتا ہے، یہ زبردست علم والے کا ٹھہرایا ہوا اندازہ ہے۔“ صحیح بخاری 3199: مزید لکھا ہے کہ سجدہ کرنے کے بعد پھر (دوبارہ آنے) کی اجازت چاہتا ہے اور اسے اجازت دی جاتی ہے اور وہ دن بھی قریب ہے، جب یہ سجدہ کرے گا تو اس کا سجدہ قبول نہ ہو گا اور اجازت چاہے گا لیکن اجازت نہ ملے گی بلکہ اس سے کہا جائے گا کہ جہاں سے آیا تھا وہیں واپس چلا جا۔ چنانچہ اس دن وہ مغرب ہی سے نکلے گا یعنی مشرق سے نہیں۔ اسی طرح صحیح بخاری حدیث 7424 میں بھی لکھا ہے۔
4۔ عوام کے علم میں یہ بات شاید نہ ہو کہ جہنم میں جہاں آگ ہے جو اس دنیا کی آگ سے بھی ستر گناہ زیادہ گرم ہے وہاں شدید ٹھنڈ بھی ہے اور برفانی پہاڑوں پر شدید برفانی طوفان کی طرح جہنم میں شدید سردی بھی ہے اور -40 پر جسم کے ساتھ کیا ہوتا ہے اُس سے 70 گنا شدید ٹھنڈ جہنم میں ہے۔ جہنم میں اگر جسم کی کھال ایک مرتبہ میں 70 مرتبہ پیدا ہو گی وہاں سردی میں جسم باربار شدید برفانی ہواؤں کی چوٹ سے پُرزے پُرزے ہو کر جُڑے گا اور ٹوٹے گا۔
5۔ شدید آگ کی لپٹوں میں جہاں جہنمی قید کئے جائیں گے وہاں شدید برف کے بلاک میں جہنمیوں کو قید کیا جائے گا جہاں اُن کا کوئی پُرسان حال نہیں ہو گا۔ جہاں ڈبل نمونیہ میں مریض گرم لحاف مانگتا ہے وہاں ڈبل نمونیے کو بھی 70 سے ضرب دیں مگر لحاف نہیں ہو گا۔ ایسا سمجھیں کہ کبھی گرمی سے تنگ ہو گا تو سردی کا عذاب سہے گا اور کبھی سردی سے جان چُھڑانا چاہے گا تو گرمی کا عذاب سہے گا۔
6۔ ایک دوست کو نمونیہ ہو گیا اور اُس نے کافی برداشت کیا مگر اُس سے اُس کے اندر اس قدر شدید انفیکشن ہو گئی جس سے اُس کا جگر، پھیپھڑے، گُردے اور دل کی ارد گرد سب کچھ ختم ہو گیا۔ اسلئے جہاں گرمی کا عذاب جسم کی بیرونی کھال کو جلائے گا تو سخت سردی کا عذاب جہنمی کے اندر کو ختم کر دے گا لیکن ایک اور مسئلہ وہاں ہو گا کہ وہاں موت نہیں ہو گی۔
7۔ اسی طرح وہاں پر ایک بڑا مسئلہ ہو گا کہ دُنیا میں تو بڑے سے بڑے غم پر صبر آ جاتا ہے یا کچھ دیر کے لئے بندہ مسائل میں گُم ہو کر غم بھول جاتا ہے لیکن وہاں اللہ معاف کرے ”صبر“ جہنمیوں کے اندر سے کھینچ لیا جائے گا اور بس اندازہ کر سکتے ہیں کہ جہاں صبر بھی نہیں، کوئی والی وارث بھی نہیں ہے اور یہاں کے لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ کوئی نہیں ایک پھیرا لگا کر ہم مسلمانوں کو جنت مل جائے گی، اُن کے آگے عرض ہے کہ ایسا نہ کہیں ورنہ مستقل ڈیرا وہاں لگ گیا تو کیا ہوگا۔
شکایت: ایک بزرگ سے کسی نے گرمی کی شکایت کی تو انہوں نے جواب دیا کہ گرمی کی شکایت رب کی شکایت ہے، ہمیشہ غم پریشانی، دُکھ سُکھ، گرمی سردی کو اللہ کریم سے منسوب کرو ورنہ غیر سے منسوب کریں تو غم اور اگر رب سے منسوب کریں تو ہر غم محبوب ہوتا ہے۔
دُعا: اسلئے دُعا ہے کہ یا اللہ جس وقت ہمیں موت آئے اُس سے پہلے ہمارے گناہ معاف ہو چکے ہوں۔ کراما کاتبین نے جو گناہ لکھے ہوں وہ سلیٹ بھی صاف ہو چکی ہو۔ جہاں جہاں زمین پر آثار گناہ کے تھے وہ زمین سے بھی صاف ہو چکے ہوں۔ جو جو ہمارے گناہوں کا گواہ تھا اُس کی سوچ سے بھی نکل چُکے ہوں۔ ہمارے ہاتھ پاوں بھی ہمارے گناہوں کی گواہی نہ دے سکیں اُن کو بھی رب کی بخشش سے صرف اچھے اعمال کی گواہی کی توفیق مل جائے۔