Chumna Shirk Hai?

چومنا اور بوسہ دینا

ہر مسلمان کی محبت حضور ﷺ، صحابہ کرام اور اولیاء کرام سے ہے، اسلئے ان کا اور ان سے نسبت رکھنے والی ہر چیز کا بھی ادب و احترام کرتے ہیں۔ اگر کسی سے کوئی پیار کرتا ہے تو اُس کو بوسہ دیتا ہے، البتہ کسی کم ظرف، دو نمبر پیر، فاسق و گمراہ علماء سوء کے ہاتھ چُومے جائیں تو عذاب ہے مگر اس عمل کو شرک نہیں کہہ سکتے بلکہ ضعیف احادیث پر عمل جائز ہے۔

اللہ عزوجل کو چوم نہیں سکتے اور جس کو چوما جائے وہ اللہ نہیں ہوتا، اسلئے بزرگوں، قبر، مزار، جالیوں کو چومنا شرک نہیں کہہ سکتے، البتہ اس دور میں دو نمبر پیر اور علماء زیادہ ہیں، اگر کوئی یہ عمل نہ کرے اور نہ کروائے تو بہتر ہے کیونکہ عقیدے سے کسی مزار پر لب لگانا یا چُومنا فرض، واجب، سنت موکدہ نہیں بلکہ مندرجہ ذیل احادیث کے مطابق جائز ہے:

1۔ ترمذی 2733، ابن ماجہ 3705: دو یہودیوں نے نبی اکرم ﷺ کی خدمت ِاقدس میں حاضر ہو کر نو آیات ِبینات کے متعلق سوال کیا تو آپ ﷺ نے ان کے سوال کا جواب دیا تو انہوں نے آپ ﷺ کے دونوں ہاتھوں اور دونوں پاؤں مبارک کو (فَقَبَّلَا یَدَیْہِ وَرِجْلَیْہِ) بوسہ دیا۔

2۔ ابو داود 5225: صحابی رسول، سیدنا زارع بن عامر، جو وفدِ عبدالقیس میں شامل تھے، ان کی طرف منسوب ہے کہ ’’جب ہم مدینہ منورہ پہنچے، تو ہم جلدی کرتے ہوئے اپنے کجاووں سے نکلے اور نبی اکرم ﷺ کے ہاتھ اور پاؤں مبارک کو چومنے لگے۔ (لَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِینَۃَ، فَجَعَلْنَا نَتَبَادَرُ مِنْ رَّوَاحِلِنَا، فَنَتَقَبَّلُ یَدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَرِجْلَہٗ)

3۔ ایک دیہاتی نبی اکرم ﷺ کی خدمت ِ اقدس میں حاضر ہو کر کہنے لگا: اللہ کے رسول! میں یقینا مسلمان ہوں۔ مجھے کوئی ایسی چیز دکھائیں، جس سے میرا ایمان بڑھ جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : کیا چاہتے ہو؟ اس نے کہا: آپ اس درخت کو بلائیں، وہ آپ ﷺ کے پاس آئے۔ آپ ﷺ نے درخت کو بلایا اور وہ آپ ﷺ کے پاس آیا اور سلام کہا۔ آپ ﷺ نے اسے واپس اپنی جگہ جانے کا کہا، تو وہ چلا گیا، تب اس دیہاتی نے کہا ’’مجھے اجازت دیجیے کہ میں آپ کے سر اور دونوں پاؤں مبارک کو چوموں (اِئْذَنْ لِي أَنْ أُقَبِّلَ رَأْسَکَ وَ رِجْلَیْکَ) آپ ﷺ نے اسے اجازت دی، تو اس نے ایسا کر لیا۔ (مسند الدارمي: 1472، القبل لابن الأعرابي: 42، تقبیل الید لأبي بکر بن المقري: 5، المستدرک علی الصحیحین للحاکم: 172/4، دلائل النبوّۃ لأبي نعیم الأصبہاني: 291)

4۔ سیدنا عامر بن طفیل رضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام کے واقعہ میں بیان کیا گیا ہے کہ ’’وہ آئے اور آپ ﷺ کے دونوں قدموں (أَتٰی، فَقَبَّلَ قَدَمَیْہِ) کو چوم لیا۔‘‘ (الرخصۃ في تقبیل الید لابن المقري: 14، المعجم لأبي یعلی الموصلي: 89)

5۔ ابو بُردہ ،یسار،مولیٰ عبد اللہ بن سائب مخزومی سے مروی ہے: میں اپنے مولیٰ عبد اللہ بن سائب کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں آپ ﷺ کی طرف گیا اور آپ ﷺ کا سر، ہاتھ اور پاؤں مبارک چوم لیا۔‘‘ (الرخصۃ في تقبیل الید لابن المقري: 24)

6۔ مشہور مفسر، امام، اسماعیل بن عبد الرحمن بن ابوکریمہ، سدی، تابعی رحمہ اللہ (م : 127ھ) سورۂ مائدہ کی آیت 111 کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ’’ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا : میرا باپ کون ہے؟ جواب میں آپ ﷺ نے فرمایا : فلاں۔ اس پر سیدنا عمر بن خطاب، آپ ﷺ کی طرف بڑھے اور آپ کا پاؤں مبارک چوم لیا۔‘‘ (تفسیر الطبري: 17/9، طبعۃ ہجر، 102/11، ح : 12801، طبعۃ شاکر)

7۔ صہیب مولیٰ عباس کا بیان ہے: ’’میں نے دیکھا کہ سیدنا علی، سیدنا عباس کے ہاتھ اور دونوں پاؤں کو چومتے ہوئے کہہ رہے تھے : چچا جان ! مجھ سے راضی ہو جائیے۔‘‘(رَأَیْتُ عَلِیًّا یُّقَبِّلُ یَدَ الْعَبَّاسِ وَرِجْلَیْہِ، وَیَقُولُ : یَا عَمِّ ! ارْضَ عَنِّي) (الأدب المفرد للبخاري: 976، الرخصۃ في تقبیل الید لابن المقري: 15، تاریخ دمشق لابن عساکر: 372/26)

8۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیشانی کو بوسہ دیا اور فرمایا: ’’مجھے اجازت دیجیے کہ میں آپ کے دونوں پاؤں کو چوم لوں۔‘‘(دَعْنِي حَتّٰی أُقَبِّلَ رِجْلَیْکَ) (تاریخ دمشق لابن عساکر : 68/52، التقیید لمعرفۃ رواۃ السنن و المسانید لابن نقطۃ: 331)

9۔ صحیح بخاری 1597 و مسلم 1270: سیدنا عمر نے حجر اسود کو بوسہ دیا، تو فرمایا : وَلَوْلَا أَنِّي رَأَیْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقَبِّلُکَ، مَا قَبَّلْتُکَ ’’اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا، تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا۔‘‘ البتہ اگر بے جان چیز کو چومنا شرک ھوتا تو نبی کریم ﷺ صحابہ کرام حجر اسود کو نہ چومتے معلوم ھوا متبرک چیز کو چومنا سنت ھے۔)

10۔ ابو داؤد بن ابی صالح سے روایت ھےکہ ایک دن مروان نبی کریم ﷺ کے روضے پر آیا تو دیکھا ایک صاحب اپنا چہرہ قبر انور پر رکھے ھوئے ھیں۔ مروان نے کہا تمہیں معلوم ھو تم کیا کر رھے ھو؟ ان صاحب نے جب اپنا چہرہ قبر انور سے اٹھایا تو وہ حضرت ابو ایوب انصاری تھے انہوں نے فرمایا: ھاں میں جانتا ھوں میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا ھوں کسی پتھر کے پاس نہیں آیا۔ (مسند احمد جلد 5 صفحہ 422، مجمع الزوائد جلد 4 صفحہ 5، مستدرک امام حاکم جلد 4 صفحہ 515، امام حاکم نے فرمایا: ھذاحدیث صحیح الاسناد)
11۔ نبی کریم ﷺ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا دونوں ایک دوسرے کے ھاتھ چوما کرتے تھے۔ (مستدرک حاکم)
12۔ سیدنا اقرع بن حابس نے نبی اکرم ﷺ کو حسین (حسین بن علی رضی اللہ عنہما) کو بوسہ لیتے دیکھا تو کہنے لگے: میرے دس لڑکے ہیں لیکن میں نے ان میں سے کسی سے بھی ایسا نہیں کیا، یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے کسی پر رحم نہیں کیا تو اس پر بھی رحم نہیں کیا جائے گا“ (ابو داود 5218، صحیح مسلم 2318، ترمذی 1911)
13۔ نبی اکرم ﷺ سیدنا جعفر بن ابی طالب سے ملے تو انہیں سینے سے لگایا اور دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا۔ (ابوداود 5220)
14۔ سیدنا براء نے سیدنا ابوبکر کو سیدہ عائشہ کے رخسار کو چُوم کر یہ پوچھتے دیکھا کہ کیا حال ہے کیونکہ وہ بخار میں تپ رہی تھیں۔ (ابوداود 5222)
15۔ نبی کریم ﷺ کے وصال ظاھر کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ کی پیشانی کوچوما۔ (صحیح بخاری 4452، 4453)
16۔ نبی کریم ﷺ کےرضائی بھائی حضرت عثمان بن مظعون کاوصال ھوا تو نبی کریم ﷺ نے وصال کےبعد انکی پیشانی کوچوما۔ (ابوداؤد 3163)
مُشرک: مجھے تم پر ایک ایسے آدمی کا اندیشہ ہے جو قرآن پڑھے گا حتیٰ کہ اس کی روشنی اس پر دکھائی دینے لگے گی، اور اس کی چادر (ظاہری روپ) اسلام ہوگا۔ یہ حالت اس کے پاس رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا، پھر وہ اس سے نکل جائے گا اسے پس پشت ڈال دے گا، اور اپنے (مسلمان) ہمسائے پر تلوار اٹھائے گا اور اس پر شرک کا فتویٰ جڑ دے گا، راوی کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا: یا نبی اللہ ﷺ! دونوں میں شرک کا حقدار کون ہوگا؟ جس پر فتویٰ لگا یا فتویٰ لگانے والا؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: فتویٰ لگانے والا (مشرک ہوگا) یعنی وہ فتویٰ مسلمان پر چسپاں نہیں ہوگا بلکہ جدھر سے صادر ہوا تھا واپس اسی کی طرف لوٹ جائے گا اور وہ مسلمان کو مشرک کہنے والا خود مشرک بن جائے گا۔ (اس روایت کو حافظ ابن کثیر نے پارہ نمبر۹، سورۃ الاعراف ،آیت نمبر ۱۷۵ کی تفسیر میں نقل کیا اور لکھا ہے: ھذا اسناد جید یعنی اس روایت کی سند جید،عمدہ اور کھری ہے۔)
اتحاد امت: دیوبندی اور بریلوی کی تعلیم پر سب مسلمان اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ اگر وہابی اور اہلحدیث ایک ہو کر، چاہے حنبلی ہوں یا غیر مقلد ہوں، اہلسنت سے مذاکرات کر لیں تو دین کو فائدہ ہو گا ورنہ 100 سالوں میں جو سیاست ہو رہی ہے اُس کا انجام لبرلز، سیکولر، غیر مسلم اور دیگر جماعتوں کا پروموٹ ہونے سے نکل رہا ہے۔
غیر مسلم: اہلتشیع حضرات کو مسلمان نہیں کہا جا سکتا کیونکہ صحابہ کرام اور اہلبیت کا دین ایک تھا؟ دونوں نبوت کے فیضان سے منور ہوئے مگر دین میں پنجتن کی اصطلاح ڈال کر، امامت کو نبوت کے مقابل لا کر، رسول اللہ نے جن خلفاء کے فضائل بیان کئے ان کو نعوذ باللہ منافق بنا کر، سیدنا علی کے مخالف ایک دین ایجاد کرنے والے مسلمان نہیں ہو سکتے۔ اسلئے ان سے صرف ایک سوال ہے کہ نبوت نے کونسی تعلیم دے کر کونسے صحابہ کو مسلمان کیا اور امامت نے کونسی تعلیم دے کر کونسے صحابہ کو مسلمان کیا۔

حقیقت: اہلسنت علماء کرام جیسے جناب احمد رضا خاں صاحب فرماتے ہیں: بلا شبہ غیرکعبہ معظمہ کا طوافِ تعظیمی ناجائز اور غیر خدا کو سجدہ ہماری شریعت میں حرام ہے اور بوسہ قبر میں علماء کا اختلاف ہے اور احوط منع ہے خصوصاً مزارات طیبہ اولیاء کرام کو کہ ہمارے علماء نے تصریح فرمائی ہے کہ کم از کم چار ہاتھ کے فاصلے پرکھڑا ہو یہی ادب ہے( فتاوی رضویہ جلد 22 ص 382)

سوال: اہلحدیث حضرات سے صرف ایک سوال ہے کہ کس مجتہد نے اہلحدیث جماعت کے لئے قانون بنایا تھا کہ تقلید بدعت و شرک ہے اور ضعیف احادیث پر عمل کرنا ناجائز ہے، اسلئے اہلحدیث جماعت اب صحیح احادیث کے مطابق میری اتباع یا تقلید کرے گی؟

خوف: مجھے تم پر ایک ایسے آدمی کا اندیشہ ہے جو قرآن پڑھے گا حتیٰ کہ اس کی روشنی اس پر دکھائی دینے لگے گی، اور اس کی چادر (ظاہری روپ) اسلام ہوگا۔ یہ حالت اس کے پاس رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا، پھر وہ اس سے نکل جائے گا اسے پس پشت ڈال دے گا، اور اپنے (مسلمان) ہمسائے پر تلوار اٹھائے گا اور اس پر شرک کا فتویٰ جڑ دے گا، راوی کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا: یانبی اللہﷺ! دونوں میں شرک کا حقدار کون ہوگا؟ جس پر فتویٰ لگا یا فتویٰ لگانے والا؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: فتویٰ لگانے والا (مشرک ہوگا) یعنی وہ فتویٰ مسلمان پر چسپاں نہیں ہوگا بلکہ جدھر سے صادر ہوا تھا واپس اسی کی طرف لوٹ جائے گا اور وہ مسلمان کو مشرک کہنے والا خود مشرک بن جائے گا۔ (اس روایت کو حافظ ابن کثیر نے پارہ 9، سورۃ الاعراف 175 کی تفسیر میں نقل کیا اور لکھا ہے: ھذا اسناد جید یعنی اس روایت کی سند جید،عمدہ اور کھری ہے۔)

اہلسنت : دیوبندی اور بریلوی ایک مکتبہ فکر کے ہیں کیونکہ دیوبندی و بریلوی دونوں خلافت عثمانیہ والے اہلسنت ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مُشرک کہا، البتہ دیوبندی اور بریلوی کا اصولی اختلاف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کا ہے۔

البتہ سعودیہ کے وہابی علماء کے ساتھ دیوبندی علماء اور اہلحدیث علماء اس وقت تقیہ بازی کر رہے ہیں حالانکہ اگر دونوں جماعتیں وہابی علماء کے ساتھ متفق ہیں تو پاکستان میں ان کے عقائد و اعمال پر ایک ہو جائیں مگر ایک سوال کا جواب دے دیں کہ بدعت و شرک کس کتاب میں کس اہلسنت عالم نے سکھایا؟

تحقیق: ہم خلافت عثمانیہ والے عقائد پر ہیں جن کو وہابی علماء نے بدعتی و مُشرک بغیر ریفرنس کے کہا، اسلئے ہم نے دیوبندی، بریلوی، وہابی یا اہلتشیع نہیں بلکہ قرآن و سنت پر چلنے والا مسلمان بننا ہے۔ چار مصلے اجماع امت اہلسنت اہلسنت

مکار: اہلتشیع حضرات کے پاس پنجتن (حضور، مولا علی، سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن و حسین) کی احادیث کی کوئی کتاب نہیں ہے۔ امام جعفر کا قول ان کے لئے حدیث ہے البتہ وہ بھی اہلسنت کی کتابوں کا چربہ ہے یعنی چوری کیا ہے۔

موازنہ: اہلسنت کی صحاح ستہ سے پہلے 81 چھوٹی بڑی احادیث کی کتابیں ملتی ہیں اور صحاح ستہ کے محدثین نے تبع تابعین علماء سے روایات لیں جنہوں نے تابعین علماء سے سُنا تھا اور تابعین نے صحابہ کرام سے سُنا تھا اور صحابہ کرام نے حضور ﷺ سے سُنا تھا : امام محمد بن اسماعیل (194 ۔ 256 بخاری)، امام مسلم بن حجاج (204 ۔ 261)، امام ابو داؤد (202 ۔ 275)، امام محمد بن عیسی (229 ۔ 279 ترمذی)، امام محمد بن یزید (209 ۔ 273 ابن ماجہ)، امام احمد بن شعیب (215 ۔ 303 نسائی)

اہلتشیع کے پاس بارہ امام کی زندگی تک کوئی ریکارڈ نہیں ہے بلکہ امام جعفر صادق کی ”احادیث“ کی کتابیں (1) الکافی ابو جعفر کلینی 330ھ نے یعنی امام جعفر صادق سے 180 برس بعد (2) من لا یحضرہ الفقیہ جو محمد بن علی ابن یایویہ قمی 380ھ تقریباً 230سال بعد (3) تہذیب الاحکام اور (4) استبصار جو محمد بن طوسی 460ھ تقریباً 310 برس بعد لکھی گئی ہیں۔

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general