مسجد نبوی ﷺ اور ریاض الجنتہ
عمرہ پر بیان ہو رہا تھا اور لکھا تھا کہ پہلے مدینہ منورہ جانا بہتر ہے، جن کا پہلا مقام مدینہ منورہ ہو گا وہ ان باتوں کو سمجھیں:
صحیح بخاری 1190: میری اس مسجد میں ایک نماز کا ثواب ایک ہزار نماز کے برابر ہے سوائے مسجد حرام کے۔
ابن ماجہ 1413: مسجد نبوی میں ایک نماز ادا کرنے کا ثواب 50 ہزار نماز کے برابر اور خانہ کعبہ میں 1 لاکھ نمازوں کا ہے۔
البتہ یاد رہے کہ اس سے قضا نمازیں ادا نہیں ہوں گی۔ دوسرا مسجد میں نماز ادا کریں کیونکہ گنبد حضرا کے سائے میں یا ادھر اُدھر نماز مسجد میں نہیں ہوتی، باتھ روموں اور کار پارکنگ ایریا کے اوپر کا علاقہ مسجد نہیں ہوتا، مسجد وہی ہے جو چار دیواری کے اندر ہے۔ یہ خانہ کعبہ اور مسجد نبوی دونوں کے لئے بات ہے۔
حضورﷺ کے دور کا شہر اب مسجد نبوی بن چُکا ہے۔ مسجد میں ہر قدم پر برکتیں ہیں۔البتہ مسجد نبوی میں ریاض الجنتہ کی اہمیت اسلئے ہے کہ حضورﷺ کا فرمان ہے”جو جگہ میرے گھر اور منبر کے درمیان ہے وہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔“
2۔ حضورﷺ کے وصال کے بعد رسول اللہﷺ جہاں نماز ادا کرتے تھے، آپﷺ کے قدموں کی جگہ چھوڑ کر سجدے والی جگہ تک دیوار کر دی گئی تاکہ آپﷺ کے سجدے کے مقام پر کسی کے پاؤں نہ لگیں، محراب میں نفل پڑھنے والا”سجدہ“ رسول اللہﷺ کے قدموں پر کرتا ہے۔
اس محراب کے اوپر سورہ احزاب کی آیت نمبر56 لکھی ہوئی ہے جس میں درود پاک پڑھنے کا حکم مومنین کو دیا گیا ہے۔ اس منبر سے لے کر رسول اللہﷺ کی قبر انور جس گھر تک ہے وہ ٹکڑا جنت کا ٹکڑا کہلاتا ہے۔
صحیح مسلم 3368: میرے منبراور میرے گھر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔
3۔ جہاں آجکل اذان دی جاتی ہے یا امام اونچی سی سیڑھیوں پر آ کر بیٹھتا ہے وہ جگہ حضورﷺ کے دور میں نہیں بنائی گئی بلکہ اذان مسجد سے باہر ہوا کرتی تھی۔
4۔ ریاض الجنتہ میں نماز پڑھنے کا ثواب پچاس ہزار نمازوں کا نہیں ہے بلکہ مسجد نبوی میں کہیں بھی صف بندی کرکے نماز پڑھنے کا ثواب پچاس ہزار کا ہے۔ البتہ عوام کا ریاض الجنتہ میں نفل پڑھنا جائز ہے مگر عوام کو یہ بھی نہیں علم ہوتا کہ یہ مکروہ وقت ہے وہ بس نفل ادا کرنا شروع ہو جاتی ہے۔
5۔ ریاض الجنتہ میں داخل ہو تو روضہ رسول کی جالیوں کے اوپر اور اُس میں بنے ستوں دیکھے تو مختلف ستون پر یہ نام لکھے ہوں گے:
ستون حنانہ: یہ منبر رسول ﷺ کے نزدیک واقع ہے. جب کسی اونٹنی کے بچے کو ماں سے جدا کر دیا جائے تو وہ اپنی مادر کے فراق میں روتا اور بلکتا ہے، اس آواز کو عربی میں حنانہ کہتے ہیں. دراصل اس کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا جس کی وجہ سے اُسے حنانہ کا نام دیا گیا. منبر رسول ﷺ کے تیار ہونے سے قبل آقائے دوجہاں ﷺ اس جگہ پر کھڑے ہو کر اس تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر خطبہ دیا کر تے تھے لیکن جب منبر رسول ﷺ تیار ہوگیا تو آپ ﷺ منبر کے ساتھ کھڑے ہو کر خطبہ دینے لگے. تب جدائی میں کھجور کے درخت نے اس طرح رونا چلانا شروع کر دیا جس طرح اونٹنی کا بچہ روتا اور چلاتا ہے. اس درخت کی آہ و زاری اور شور سے سرور دوجہاں ﷺ نے آکر اس تنے کو پیار کیا اور جنت کے درخت ہو نے کی بشارت دی۔
ستون ابی لبابہ: روضہ رسول ﷺ کے بلکل سامنے واقع ہے، اسے ستون توبہ بھی کہا جاتا ہے. اس ستون کی وجہ تسمیہ کچھ اس طرح ہے کہ جب مسلمان ہجرت کر کے مدینہ آئے تو وہاں پہلے سے بہت زیادہ یہودی موجود تھے، مسلمانوں نے ان سے امن معاہدہ کر لیا لیکن یہودیوں نے امن معاہدے کی پاسداری نہ کی اور اسے تو ڑ دیا تو اللہ تعالی اور رسول کریم ﷺ نے سخت غصے اور بر ہمی کا اظہار کیا اور پھر اللہ تعالی کی طرف سے حکم نازل ہوا کہ معاہدے کی حدیں پامال کر نے والے یہودیوں کو قتل کر دیا جائے. حضرت ابولبابہ مدینے کے پرانے رہائشی تھے، ان کے یہودیوں کے ساتھ دوستانہ مراسم تھے. انھوں نے ہر چیز جا کر یہودیوں کو بتا دی اور ہاتھ کے اشارے سےگردن کی طرف اشارہ کیا کہ آپ سب کے گلے کاٹے جا ئیں گے، بعد میں انھیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا کہ اُنہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا. اپنی اس غلطی پر وہ اتنے زیادہ شرمندہ ہوئے کہ احساس ندامت سے زمین میں گڑے جا رہے تھے، انہوں نے اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا مجرم گردانتے ہوئے مسجد نبوی ﷺ میں ایک کجھور کے درخت کے ساتھ رسیوں سے باندھ لیا اور پھر اللہ کی بارگا ہ میں گڑ گڑا کر اپنی غلطی کی معا فی مانگنے لگے، ان کا کہنا تھا جب تک اللہ مجھے معاف نہیں کرے گا، میں اسی طرح اپنے آپ کو رسیوں سے باندھے رکھوں گا، پھر اللہ تعالی نے اُنہیں معاف کر دیا۔
ستون سریر: اس کا مطلب ہے سونے کی جگہ. یہ وہ جگہ ہے جہاں رسول اقدس ﷺ نے اعتکاف فرمایا، اس جگہ آپ کا بستر مبارک بچھا ہوتا، اس بستر پر اکثر سرورکائنات ﷺ آرام فرماتے۔
ستون وفود: اس جگہ مدینہ سے باہر آئے ہو ئے وفود آپ ﷺ سے ملاقات کرتے اور دین اسلام کے متعلق انہیں آقائے دوجہاں ﷺ تبلیغ فرماتے۔
ستون حضرت علی : اس جگہ حضرت علی اکثر نماز ادا کیا کر تے تھے نیز اس جگہ بیٹھ کر سرکار دوجہاں ﷺ کی پاسبانی کیا کر تے. محبوب خدا شافع محشر ﷺ جب حضرت عائشہ کے حجرہ مبارک سے نکل کر مسجد
🏆میں داخل ہوتے تو اسی جگہ سے ہو کر گزرتے. اکثر اوقات دیگر صحابہ کرام بھی حضرت علی کے ساتھ بیٹھ جایا کر تے، اس مناسبت سے اسے ستون علی کہتے ہیں۔
ستون تہجد: یہ ستون اصحاب صفہ کے چبوترے کے سامنے اور حضرت فاطمہ کے حجرے کے کو نے پر واقع ہے. اس جگہ نبی کریم ﷺ نماز تہجد ادا فرماتے، اِس لیے اس کا نام ستون تہجد ہے۔
ستون جبرائیل : اس جگہ حضرت جبرائیل داخل ہو کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے. آج کل یہ ستون روضہ مبارک کے اندر آنے کی وجہ سے نظروں سے اوجھل ہے۔
ستون عائشہ : رو ضہ رسول ﷺ کی جانب سے چلیں تو راستے میں آنے والا تیسرا ستون، ستون عائشہ کہلا تا ہے. پیارے آقا ﷺ نے اپنی حیات مبارکہ میں فرمایا تھا کہ اِس مسجد میں ایک ایسی متبرک جگہ موجود ہے، اگر لوگوں کو اُس کی فضیلت کا اندازہ ہو جائے تو وہ قطاروں میں کھڑے ہو کر اُس جگہ نماز پڑھیں، مگر آپ ﷺ نے وہ جگہ نہ بتائی. آپ ﷺ کے وصال کے بعد صحابہ نے اماں عائشہ سے درخواست کی کہ اُس جگہ کی نشاندہی کر دیں تو آپ ؓ نے انکار کر دیا لیکن بعد میں حضرت عبداللہ ابن زبیر ؓ کے اصرار پر اُس جگہ کی نشاند ہی کر دی۔
تجزیہ: کتاب لکھنے سے نہیں بلکہ مسجد نبویﷺ میں ان ستونوں کو دیکھنے کے بعد ان جگہوں کی ہسٹری پڑھنے کے بعدعلم والوں کوسمجھ آتی ہے، البتہ اگر یہ ستون، ممبر کا قصہ، ریاض الجنتہ کا حصہ، اصحابِ صفہ کا چبوترہ وغیرہ کسی کی سمجھ نہ آئے، تو کوئی گناہ بھی نہیں ہے کیونکہ ہماری عبادت پانچ وقت کی نماز ادا کرنا ہے اور اپنے اپنے فرائض پورے کرنے ہیں۔
دُکھ: ایک بندہ حضورﷺ کے روضے پر سلام کر کے باہر نکلا اور پوچھنے لگا کہ حضورﷺ کو سلام کرنے کے بعد نفل کہاں پڑھنے ہیں تو اُسے سمجھایا نفل نہیں پڑھے جاتے تو کہنے لگا تم وہابی ہو۔