حافظ قرآن کے فضائل
حافظ قرآن کو علم ہونا چاہئے کہ خود حضور ﷺ حافظ قرآن ہیں۔ صحیح بخاری 4997: رمضان کے مہینوں میں جبرائیل علیہ السلام آپ ﷺ کے ساتھ قرآن مجید کا دورہ کیا کرتے تھے۔ بخاری 4997Q: فاطمہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام مجھ سے ہر سال قرآن مجید کا دورہ کرتے تھے اور اس سال انہوں نے مجھ سے دو مرتبہ دورہ کیا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ میری موت کا وقت آن پہنچا ہے۔
ابو داود 1453:جس نے قرآن پڑھا اور اس کی تعلیمات پر عمل کیا تو اس کے والدین کو قیامت کے روز ایسا تاج پہنایا جائے گا جس کی چمک سورج کی اس روشنی سے بھی زیادہ ہو گی جو تمہارے گھروں میں ہوتی ہے اگر وہ تمہارے درمیان ہوتا، (پھر جب اس کے ماں باپ کا یہ درجہ ہے) تو خیال کرو خود اس شخص کا جس نے قرآن پر عمل کیا، کیا درجہ ہو گا“۔
ترمذی 2905: جس نے قرآن پڑھا اور اسے پوری طرح حفظ کر لیا، جس چیز کو قرآن نے حلال ٹھہرایا اسے حلال جانا اور جس چیز کو قرآن نے حرام ٹھہرایا اسے حرام سمجھا تو اللہ اسے اس قرآن کے ذریعہ جنت میں داخل فرمائے گا۔ اور اس کے خاندان کے دس ایسے لوگوں کے بارے میں اس (قرآن) کی سفارش قبول کرے گا جن پر جہنم واجب ہو چکی ہو گی۔
دارمی 3457: الله تعالی نے زمین و آسمان کی تخلیق سے ہزار برس پہلے سورة طہ اور سورة یسین کی تلاوت فرمائی،جب فرشتوں نے قرآن سنا تو انہوں نے کہا:اس امت کے لیے خوشخبری ہو جس پر یہ اتارا جائے گا،ان مبارک دلوں کے لیے خوشخبری ہو جو اسے یاد کریں گے،اور اسے پڑھنے والی زبان کے لیے خوشخبری ہو۔
حافظ قرآن کو رسول اللہ کی وجہ سے فائدے
1۔ امامت: صحیح مسلم 1534:لوگوں کی امامت وہ کرے جو قرآن زیادہ جانتا ہو اور خوب قرآن پڑھتا ہو اگر قرأت میں برابر ہوں تو جس نے پہلے ہجرت کی ہو۔ اگر ہجرت میں برابر ہوں تو جو عمر میں بڑا ہو۔ صحیح بخاری 692 و ابو داود 588: مہاجرین اول کی امامت سیدنا ابوحذیفہ کے آزاد کردہ غلام سالم کیا کرتے تھے کیونکہ انہیں قرآن سب سے زیادہ یاد تھا حالانکہ ان سیدنا عمر اور ابوسلمہ بن عبدالاسد بھی موجود ہوتے۔
2- قبر میں رکھنے کی فضیلت: صحیح بخاری 1343: نبی کریم ﷺ احد کے دو دو شہیدوں کو جب قبر میں رکھنے لگتے تو پوچھتےان میں قرآن کسے زیادہ یاد ہے اور جس کو قرآن زیادہ یاد ہوتا اسی کو آگے کرتے۔
3- سربراہ: صحیح مسلم 1897: سیدنا عمر نے مکہ کے تحصیلدار نافع بن عبدالحارث سے پوچھا کہ تم نے جنگل کے علاقے پر کس کو اور کیوں سربراہ بنایا، اُس نے کہا:ابن ابزی غلام کو بنایا ہے کیوںکہ وہ کتاب اللہ کا قاری یعنی حافظ ہے۔
4- اُخروی درجہ: ترمذی 2914، ابو داود 1464: ”(قیامت کے دن) صاحب قرآن سے کہا جائے گا: (قرآن) پڑھتا جا اور (بلندی کی طرف) چڑھتا جا۔ اور ویسے ہی ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جس طرح تو دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر ترتیل کے ساتھ پڑھتا تھا۔ پس تیری منزل وہ ہو گی جہاں تیری آخری آیت کی تلاوت ختم ہو گی۔ ترمذی 2913: ”وہ شخص جس کے دل میں قرآن کا کچھ حصہ یاد نہ ہو وہ ویران گھر کی طرح ہے“۔
5- فرشتوں کا ساتھ: صحيح مسلم 1864 ” قرآن کا مشاق (حافظ قرآن) ان بزرگ فرشتوں کے ساتھ ہے جو لوح محفوظ کے پاس لکھتے رہتے ہیں اور جو قرآن پڑھتا ہے اور اس میں اٹکتا ہے اور اس کو مشقت ہوتی ہے اس کو دوگنا ثواب ہے۔
6۔ صحیح مسلم 1863: رسول اللہ ﷺ نے قاری سیدنا ابی بن کعب سے فرمایا: کہ ”اللہ عزت والے، بزرگی والے نے مجھے حکم کیا کہ میں تمہارے آگے قرآن پڑھوں۔“ انہوں نے عرض کیا کہ کیا اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے میرا نام لیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں اللہ تعالیٰ نے تمہارا نام میرے آگے لیا۔“ تو سیدنا ابی بن کعب رونے لگے۔
7- معزز تاج: ترمذی 2915 "قرآن قیامت کے دن پیش ہو گا پس کہے گا: اے میرے رب! اسے (یعنی صاحب قرآن کو) جوڑا پہنا، تو اسے کرامت (عزت و شرافت) کا تاج پہنایا جائے گا۔ پھر وہ کہے گا: اے میرے رب! اسے اور دے، تو اسے کرامت کا جوڑا پہنایا جائے گا۔ وہ پھر کہے گا: اے میرے رب اس سے راضی و خوش ہو جا، تو وہ اس سے راضی و خوش ہو جائے گا۔ اس سے کہا جائے گا پڑھتا جا اور چڑھتا جا، تیرے لیے ہر آیت کے ساتھ ایک نیکی کا اضافہ کیا جاتا رہے گا۔
8- شفاعت : صحيح مسلم 1874″قرآن پڑھو اس لئے کہ وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کا سفارشی ہو کر آئے گا۔ اور دو سورتیں چمکتی پڑھو سورۂ البقرہ اور سورۂ ال عمران اس لئے کہ وہ میدان قیامت میں آئیں گی گویا دو بادل ہیں یا وہ سائبان یا دو ٹکڑیاں ہیں اڑتے جانور کی اور حجت کرتی ہوئی آئیں گی اپنے لوگوں کی طرف اور سورۃ بقرہ پڑھو کہ لینا اس کا برکت ہے اور چھوڑنا اس کا حسرت ہے اور جادوگر لوگ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
9۔ قیامت کے دن متغیر رنگت والے آدمی کی شکل میں قرآن مجید آ کر قرآن پڑھنے والے سے کہے گا: کیا تم مجھے جانتے ہو؟ میں ہی ہوں وہ جو تمہیں راتوں کو جگاتا تھا اور گرمی کے دنوں میں [روزے رکھوا کر ] پیاس برداشت کرواتا تھا۔ ہر تاجر کے سامنے اس کی تجارت ہوتی ہے اور میں آج تمہارے لیے کسی بھی تاجر سے پیش پیش ہوں گا، تو وہ حافظ قرآن کو دائیں ہاتھ میں بادشاہی دے گا اور بائیں ہاتھ میں سرمدی زندگی دے گا، اور اس کے سر پر وقار کا تاج رکھا جائے گا، اس کے والدین کو دو ایسے لباس پہنائے جائیں گے کہ دنیا و مافیہا بھی اس کے برابر نہیں پہنچ سکتے، تو والدین کہیں گے: پروردگار! یہ ہمارے لیے کہاں سے ؟ تو انہیں کہا جائے گا: تم نے اپنے بچوں کو قرآن کی تعلیم دی اس کے عوض ۔ : (طبرانی، معجم الاوسط 6/51)
10۔ جو شخص قرآن کریم پڑھے اور پھر اس کے احکام سیکھے نیز اس پر عمل بھی کرے تو اللہ تعالی اس کے والدین کو نور کا تاج پہنائے گا، اس کی روشنی سورج جیسی ہو گی، اس کے والدین کو دو ایسے لباس پہنائے جائیں گے کہ پوری دنیا بھی اس کے برابر نہ پہنچ سکے، تو والدین کہیں گے: پروردگار! یہ ہمیں کس کے عوض پہنایا گیا؟ تو انہیں کہا جائے گا: تمہارے بچوں کے قرآن سیکھنے کی وجہ سے۔ (حاکم 1/756)
کوشش: صحیح مسلم 1839 "قرآن یاد کرنے والے کی مثال اس اونٹ جیسی جس کا ایک پیر بندھا ہو کہ اگر اس کے مالک نے اس کا خیال رکھا تو رہا اور اگر چھوڑ دیا تو چل دیا۔“ 1840 "قرآن یاد کرنے والا جب اٹھ کر رات کو اور دن کو پڑھتا رہتا ہے تو یاد رکھتا ہے اور اگر نہ پڑھتا رہا تو بھول گیا۔”
خوفناک وعید: ابو داود 461 "مجھ پر میری امت کے ثواب پیش کئے گئے یہاں تک کہ وہ تنکا بھی جسے آدمی مسجد سے نکالتا ہے، اور مجھ پر میری امت کے گناہ پیش کئے گئے تو میں نے دیکھا کہ اس سے بڑا کوئی گناہ نہیں کہ کسی کو قرآن کی کوئی سورت یا آیت یاد ہو پھر وہ اسے بھلا دے“۔
مسئلہ: جمہور علماء اہل سنت والجماعت کے نزدیک اتنا قرآن کریم حفظ کرنا جس سے نماز ادا ہوجائے، ہر مسلمان عاقل بالغ پر فرض ہے اور مکمل قرآن کریم حفظ کرنا فرضِ کفایہ اور باعثِ اجر وثواب ہے۔ اگر کوئی بھی مسلمان حافظِ قرآن نہ رہے تو تمام عالم کے مسلمان گناہ گار ہوں گے۔
نتیجہ: احادیث میں جہاں نمازی، روزہ دار، زکاۃ دینے والا، حاجی، سخی، کاسب وغیرہ کے فضائل بیان ہوئے ہیں، وہاں حافظ قرآن کے فضائل ہیں۔ ہر ایک مسلمان کو چاہئے کہ ہر طرح کی نیکی کرنے کی اچھی صلاحیت اپنے اندر پیدا کرے، متقی بنے اور اپنے فرائض پورے کرے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد پورے کرے، تکبر نہ کرے اور نہ ہی اپنے اعمال پر مطمئن ہو بلکہ یہ سمجھے کہ نیک اعمال کرنا میرِی ڈیوٹی ہے مگر جنت میں اللہ کریم کی رحمت سے جانا ہے، اسلئے میرا کوئی بھروسہ اپنے اعمال پر نہیں ہے۔
رونا: عوام کو بے وقوف بنایا جاتا ہے یعنی یہ کہا جاتا ہے کہ دو مذاہب ہیں ایک یزیدی اور دوسرا حیسنی حالانکہ سوال یہ ہے کہ یزید اور سیدنا حسین کس دین پر تھے جو قرآن و سنت پر نہیں وہ یزید ہے اور جو قرآن و سنت پر ہے وہ سیدنا حسین ہیں۔ اہلتشیع کے پاس حضور، مولا علی، سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن و حسین کی کوئی احادیث کی کتابیں، احادیث اور تعلیم نہیں، اسلئے مسلمان نہیں۔
بریلوی اور دیوبندی کوئی دو مسالک نہیں، احمد رضا ہو یا اشرف علی تھانوی ان دونوں پر ایمان لانے کا حُکم نہیں مگر عوام کو دونوں کی تعلیمات نہیں سکھائی گئیں بلکہ دیوبندی اور بریلوی میں تقسیم کر دیا۔ اصولی اختلاف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کا ہو گا مگر پہلے جس تعلیم کی وجہ سے فتوی لگا اُس عقائد کا علم ہونا چاہئے۔ دیوبندی اور بریلوی کی تعلم اور عقائد ایک ہیں۔
اہلحدیث اور سعودی وہابی علماء کی تعلیم ایک ہے مگر تقیہ بازی یہ ہے کہ دونوں کے نزدیک بریلوی اور دیوبندی کی تعلم بدعت و شرک ہے۔ البتہ سعودی وہابی علماء دیوبندی کے ساتھ بھی بنا کر رکھتے ہیں اور اہلحدیث کو بھی چندہ ملتا رہتا ہے۔ اسلئے ساری دنیا جانتی ہے کہ اہلحدیث حضرات وہابی غیر مقلد ہیں اور سعودی حنبلی کہلاتے ہیں۔
نتیجہ: پہلے بریلوی اور دیوبندی کی تعلیم جو فتاوی رضویہ اور دیوبندی کی المہند کتاب میں ہے، اُس پر اہلسنت کو ایک ہونا چاہئے۔ دوسرا اہلحدیث اور سعودی وہابی علماء پہلے ایک ہو جائیں اور پھر بتائیں کہ بدعت و شرک کس نے سکھایا تو جھوٹ سمجھ میں آ جائے گا۔ بدعت و شرک کسی نے نہیں سکھایا، یہ سب اہلحدیث حضرات پلس سعودی وہابی علماء کا اہلسنت کے خلاف پراپیگنڈا ہے جس سے لبرلز، سیکولر، رافضیت کو فائدہ ہو رہا ہے۔ اصل اہلسنت وہی ہوں گے جو دیوبندی اور بریلوی کی تعلیم پر ہوں گے۔ جو دیوبندی سعودیہ کے ساتح ہیں وہ اپنے اکابر کو بدعتی و مشرک بنا رہے ہیں