Iddat Ki Muddat

عدت کی مدت

1۔ زیادہ ترعورتیں طلاق یا خلع لینے کے بعد یا خاوند کے مر جانے کے بعد عدت یا سوگ نہیں کرتی بلکہ اُن کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ عدت کرنی کیسے ہے۔ عدت گذارنا "جوان اور بوڑھی عورت” پر فرض ہے اور جیسے ہی طلاق ہوئی یا خاوند مر گیا، عورت پر اُسی وقت عدت شروع ہو جاتی ہے۔ عدت کے دوران یہ کام نہیں کرتے:

نکاح کا پیغام کسی کو نہیں دیا جا سکتا۔ اگر نکاح کر لیا تو نکاح نہیں زنا ہوا۔ غیر محرم سے پردہ عدت کے وقت نہیں بلکہ پردہ بالغ ہونے کے بعد ہی غیر محرم سے حرام ہے۔ عدت میں خوبصورت بننے والا کوئی کام نہیں کرنا جیسے میک اپ، خوبصورت کپڑے، جیولری بلکہ سوگ اور غم والی کیفیت رکھنی ہے۔عدت میں بغیر ضرورت کے گھر سے باہر نہیں نکل سکتی اور مجبوری میں نکل سکتی ہے جیسے کمائی کا کوئی ذریعہ نہیں تو دن کو کما سکتی ہے اور اُس کے علاوہ گھر سے باہر نہیں نکلے گی۔ اسی طرح کوئی سودا لا کر دینے والا نہیں تو لا سکتی ہے۔ عدت میں کسی شادی یا مرگ پر پردہ کر کے بھی نہیں جا سکتی چاہے کوئی قریبی ہی مر گیا ہو۔

قرآنی حکم

1۔ عدت کے دوران نہ تم انہیں گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود نکلیں (طلاق1) عدت عورت مرد کے گھر گذارے گی۔ مرد بھی اسے نہیں نکالے گا اور عورت بھی نہیں نکلے گی۔ اگر مرد نے نکال دیا یا عورت خود والدین کے گھر آ گئی تو عدت پھر بھی پوری کرے گی۔

2۔ مطلقہ عورتوں کو عدت میں اسی جگہ رکھو جہاں تم رہتے ہو، جیسی کچھ بھی جگہ تمہیں میسر ہو۔ اور انہیں تنگ کرنے کے لئے نہ ستاؤ۔ اور اگر وہ حاملہ ہوں تو ان پر اُس وقت تک خرچ کرتے رہو جب تک ان کا وضع حمل نہ ہو جائے۔ پھر اگر وہ تمہارے بچے کو دُودھ پلائیں تو ان کی انہیں اُجرت دو۔(الطلاق :6)۔ عدت کے دوران مطلقہ کا خرچہ خاوند کے ذمہ ہے اور بچے کو دودہ پلانا پڑے تو خاوند اُس کے بھی پیسے اپنی طلاق یافتہ بیوی کو دے گا۔

3۔ شوہر کے مرنے کے بعد بیوہ اپنے آپ کو چار مہینے دس دن تک روکے رکھے۔ (البقرۃ:234) یعنی اس کے بعد نکاح کر سکتی ہے۔

4۔ بیوہ عورتوں کو ایک سال تک شوہر کے گھر سے نہ نکالا جائے (البقرۃ:240)

5۔ جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو، وہ تین حیض تک اپنے آپ کو روکے رکھیں (بقرۃ:228) یعنی تین مہینے کی عدت طلاق کے بعد ہے اور طلاق کے بعد جب حیض آئے اُس کے بعد تین ماہ شروع ہوں گے۔

6۔ اللہ نے مطلقہ عورتوں کے رحم میں جو کچھ خلق فرمایا ہو، اُسے چھپانا جائز نہیں ہے (البقرۃ:228) یعنی بچہ ہونے والا ہو تو خاوند کو ضرور بتائے۔

7۔ جو کچھ تم اپنی بیوی کو دے چکے تھے، طلاق کے بعد اُسے واپس لینا جائز نہیں (البقرۃ:229) یعنی حق مہر اور جو تحفے تحائف بیوی کو دئے وہ لینے جائز نہیں۔

8۔ عورتوں کو طلاق دے چکو تو بعد از عدت اُن کے نکاح کرنے میں رکاوٹ نہ ڈالو (البقرۃ:232) یعنی طلاق دینے کے بعد عورتوں کو نکاح کرنے دو۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایک طلاق دی اور بیوی اپنے والدین کے گھر چلی گئی، اُس کو خرچہ بھی نہ دیا، وہاں وہ سالوں سے بیٹھی ہے لیکن یونین کونسل کے ذریعے طلاق نامہ بھی نہیں بھجوایا۔ ایسا کرنے والے گناہ گار ہیں۔

9۔ عدت پوری ہونے تک عقد نکاح باندھنے کا فیصلہ نہ کرو (البقرۃ:235) یعنی عورت عدت گذارنے کے بعد نکاح کرے گی اُس سے پہلے نکاح نہیں بلکہ نکاح کا پیغام دینا بھِ جائز نہیں۔

10۔ بعد از نکاح عورت کو ہاتھ لگانے سے قبل طلاق دینے میں کوئی گناہ نہیں (البقرۃ:236) یعنی ایسی صورت حال کہ مرد نے عورت سے صحبت نہیں کی لیکن پھر بھی طلاق دی تو ہو جائے گی۔

11۔ ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دینے کی صورت میں نصف مہر دینا ہو گا (البقرۃ:237) آجکل کے عورت اور مرد کو حق مہر کا علم ہی نہیں بلکہ زیادہ تر مرد حق مہر دیتے نہیں اور عورتیں لیتی نہیں۔ بعض مرد کو مجبور کرتے ہیں کہ حق مہر زیادہ لکھ دیں، چاہیں نہ دیں کیونکہ مقصود یہی ہے کہ طلاق نہیں دے گا۔

12۔ جنہیں طلاق دی جائے انہیں مناسب طور پر کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کیا جائے (البقرۃ:261) مطلقہ سے اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

13۔ اے مومنو!اگر تم مومن عورتوں سے نکاح کے بعد انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو تو ان پر کوئی عدت لازم نہیں ہے (الاحزاب:49)میاں بیوی ایک کمرے میں اکٹھے ہی نہیں ہوئے تو عدت کیسی؟ عورت کی رخصتی نہیں ہوئی اور طلاق دی تو عدت نہیں۔

14۔ عورتوں کو طلاق دو تو اُنہیں اُن کی عدت کے لیے طلاق دیا کرو اور عدت کا ٹھیک ٹھیک شمار کرو (الطلاق :1) عدت فرض ہے اسلئے ایک دن بھی کم نہیں ہونا چاہئے۔

عدت کا ذکر احادیث میں​

صحیح بخاری 5318، 5319: خاوند کے مرنے کے بعد جس وقت بچہ پیدا ہو جائے عورت کی عدت ختم ہو جاتی ہے اور وہ نکاح کر سکتی ہے۔ صحیح بخاری 5336: حضور نے عورت کو تکلیف کے باوجود سرمہ لگانے سے منع کیا۔ 5337: خوشبو اور خوبصورت کپڑے عدت میں نہیں ہیں۔ 5341 خوشبو، سرمہ، رنگا کپڑا نہ پہنتے۔ تین دن سے زیادہ سوگ منع ہے۔ شوہر کے انتقال پر چار مہینے دس دن سوگ کا حکم ہے۔
تعلیمات اور شخصیات: عوام کو بے وقوف بنایا جاتا ہے یعنی یہ کہا جاتا ہے کہ دو مذاہب ہیں ایک یزیدی اور دوسرا حیسنی حالانکہ سوال یہ ہے کہ یزید اور سیدنا حسین کس دین پر تھے جو قرآن و سنت پر نہیں وہ یزید ہے اور جو قرآن و سنت پر ہے وہ سیدنا حسین ہیں۔ اہلتشیع کے پاس حضور، مولا علی، سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن و حسین کی کوئی احادیث کی کتابیں، احادیث اور تعلیم نہیں، اسلئے مسلمان نہیں۔

بریلوی اور دیوبندی کوئی دو مسالک نہیں، احمد رضا ہو یا اشرف علی تھانوی ان دونوں پر ایمان لانے کا حُکم نہیں مگر عوام کو دونوں کی تعلیمات نہیں سکھائی گئیں بلکہ دیوبندی اور بریلوی میں تقسیم کر دیا۔ اصولی اختلاف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کا ہو گا مگر پہلے جس تعلیم کی وجہ سے فتوی لگا اُس عقائد کا علم ہونا چاہئے۔

اہلحدیث اور سعودی وہابی علماء کی تعلیم ایک ہے مگر تقیہ بازی یہ ہے کہ دونوں کے نزدیک بریلوی اور دیوبندی کی تعلم بدعت و شرک ہے۔ البتہ سعودی وہابی علماء دیوبندی کے ساتھ بھی بنا کر رکھتے ہیں اور اہلحدیث کو بھی چندہ ملتا رہتا ہے۔ اسلئے ساری دنیا جانتی ہے کہ اہلحدیث حضرات وہابی ہیں مگر سعودی حنبلی کہلاتے ہیں اور اہلحدیث غیر مقلد۔ اس فرق کو ختم کرکے وہابی اور اہلحدیث کو ایک ہونا چاہئے۔

نتیجہ: پہلے بریلوی اور دیوبندی کی تعلیم جو فتاوی رضویہ اور دیوبندی کی المہند کتاب میں ہے، اُس پر اہلسنت کو ایک ہونا چاہئے۔ دوسرا اہلحدیث اور سعودی وہابی علماء پہلے ایک ہو جائیں اور پھر بتائیں کہ بدعت و شرک کس نے سکھایا تو جھوٹ سمجھ میں آ جائے گا۔ بدعت و شرک کسی نے نہیں سکھایا، یہ سب اہلحدیث حضرات پلس سعودی وہابی علماء کا اہلسنت کے خلاف پراپیگنڈا ہے جس سے لبرلز، سیکولر، رافضیت کو فائدہ ہو رہا ہے

 

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general