
صحیح بخاری اور سیدنا حمزہ کا عمل
صحیح بخاری میں کتاب مساقات (کسی کام کرنے والے کو پھلدار درختوں کا قبضہ دینا اور اسے کہنا کہ ان کی دیکھ بھال کر پانی لگا حتی کہ یہ پھل دینے لگیں تو اس کی آمدنی میں سے اتنا حصہ تیرا اور باقی مالک کا ہوگا)اورباب: لکڑی اور گھاس بیچنا میں حدیث 2375 بیان کی : سیدنا علی بن ابی طالب نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ بدر میں ایک اونٹنی غنیمیت میں اور ایک دوسری اونٹنی تحفے میں دی تھی جو میں نے ایک انصاری صحابی کے دروازے پر بندھی ہوئی تھی۔
میں نے اس اونٹںی پر اذخر گھاس لاد کر بنی قینقاع کا یک سنار کے ساتھ اذخر گھاس بیچنے جانا تھا تاکہ میں سیدہ فاطمہ کے ولیمہ کا بندوبست کر سکوں۔ اس وقت شراب حرام نہیں تھی اور سیدنا حمزہ بن عبدالمطلب اسی (انصاری کے) گھر میں شراب پی اور گانا سُن رہے تھے، ایک شعر پر جوش میں آ کر دونوں اونٹنیوں کے کوہان چیر اور پیٹ پھاڑ ڈالے۔ سیدنا علی نے اس تکلیف کی شکایت حضور ﷺ کی تو آپ ﷺ سیدنا کے ساتھ سیدنا حمزہ کے پاس پہنچ کر خفگی کا اظہار کیا تو سیدنا حمزہ نے نظر اٹھا کر کہا ”تم سب میرے باپ دادا کے غلام ہو۔“ جس پر نبی کریم ﷺ واپس تشریف لے آئے۔
بنیاد: اہلسنت کی بنیاد حضور ﷺ کی احادیث ہیں جن سے مسائل سمجھ میں آتے ہیں اور یہ احادیث کی شرح من و عن نہیں کی جاتی چاہے صحیح بخاری کی ہی کیوں نہ ہوں۔ اسلئے اس حدیث سے بہت کچھ علم ہوا وگرنہ کئی ایسے واقعات تو صفحہ قرطاس میں آئے ہی نہ ہوں گے کیونکہ ہر صحابی کی زندگی میں بہت سے اُتار چڑھاو ہوئے ہیں۔
1۔ شراب کا حکم آہستہ آہستہ نازل ہوا، ابو داود 3671: میں سیدنا علی فرماتے ہیں "اے ایمان والو نشے کی حالت میں نماز کے پاس نہ جانا” قرآن کی یہ آیت میرے بارے میں نازل ہوئی جب پی کر نماز پڑھا دی۔ صحیح بخاری 5600: سیدنا انس بن مالک ”میں ابوطلحہ ، ابو دجانہ ، سہیل بن بیضا کو کھجوروں کی شراب پلاتا تھا، شراب کی حرمت نازل ہوئی تو میں اسے پھینک دیا ، میں ان کا ساقی اور عمر میں ان سے چھوٹا تھا۔ اسطرح کی بہت سی احادیث ہیں۔
2۔ اب کوئی شر اب ان ہستیوں اور ان احادیث کو سامنے رکھ کر پڑھے اور جائز سمجھے تو مسلمان نہیں رہتا۔ شراب کی حرمت کے بعد اب شر اب پینے والے کو مارا پیٹا جاتا ہے، درے لگائے جاتے ہیں۔
3۔ گھاس کی سودا بازی اور کسی کو معاوضے پر ساتھ رکھنا جائز ہے۔
4۔ نبی کریم ﷺ نے سیدنا حمزہ سے کوئِ مواخذہ نہیں کیا اور سیدنا علی نے بھی تاوان معاف کر دیا۔
5۔ سیدنا علی کی شان میں 88 احادیث کے راوی حضرات زید بن ارقم، انس بن مالک، عبداللہ بن عباس، حبہ عرنی، سلمان فارسی، سعد بن ابی وقاص، جابر، ابوسعید خدری، ام عطیہ، حبشی بن جنادہ، عبداللہ بن عمر، بریدہ، جمیع بن عمیر تمیمی، حنش، عبداللہ بن نجی، ام سلمہ، اسامہ، ابو رافع، صفیہ بنت شیبہ، عمر بن ابی سلمہ، ابو ہریرہ، عمران بن حصین، براء بن عازب، عمرو بن میمون، عمار بن یاسر رضی اللہ عنھم ہیں جن میں سے چند ایک احادیث یہ ہیں:
ترمذی 3735: سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ ایمان لائے۔ ترمذی 3728: پیر کو حضور ﷺ کی بعثت ہوئی اور منگل کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی۔ترمذی 3734: سب سے پہلے نماز حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پڑھی۔ بخاری 2942 مسلم 6222: کل جھنڈا اُس کو دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ فتح دے گا، وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول اُس سے محبت کرتے ہیں۔ صبح حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نام پکارا گیا، لعاب شریف لگا کر آنکھیں ٹھیک، جھنڈا دے کر فرمایا کہ تیری وجہ سے ایک آدمی بھی ہدایت پر آ جائے تو تیرے لئے یہ مال غنیمت کے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے اور خیبر فتح ہوا۔ صحیح مسلم 4678: سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرا نام میری ماں نے حیدر رکھا ہے، میں وہ (حیدر/شیر) ہوں اور مرحب کو قتل کرکے فتح ہوئی۔
بخاری 3706 مسلم 6217: تیری میرے ساتھ وہی منزلت ہے جو ہارون کی موسی (علیہ السلام) سے ہے لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ صحیح مسلم کتاب الایمان، حدیث 240: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت مومن کرے گا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض صرف منافق رکھے گا۔ بخاری 3700: نبی کریم ﷺ نے اس حالت میں وفات پائی کہ آپ ﷺ علی، عثمان، زبیر، طلحہ، سعد (بن ابی وقاص) اور عبدالرحمن (بن عوف) رضی اللہ عنھم سے راضی تھے۔
ترمذی 3712: بے شک علی مجھ سے ہیں اور میں اُن سے ہوں اور وہ ہر مومن کے ولی ہیں۔ ترمذی 3713: من کنت مولاہ فعلی مولاہ جس کا میں مولا ہوں تو علی اس کے مولی ہیں۔ ترمذی 3564: حضور ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لئے دعا فرمائی کہ اے اللہ اسے عافیت یا شفا عطا فرما۔ اُس کے بعد کبھی آپ بیمار نہ ہوئے۔ صحیح بخاری 3713: حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور ﷺ کی رضا مندی آپ کے اہلبیت (کی محبت) میں تلاش کرو۔ صحیح مسلم 6427: رسول اللہ ﷺ، ابوبکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ اور زبیر (رضی اللہ عنھم) حراء پہاڑ پر تھے کہ وہ ہلنے لگا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: رک جا، اس وقت تیرے اوپر نبی، صیدق اور شہید کھڑے ہیں۔
مستدرک الحاکم جلد 3 صفحہ 152: حضرت علی رضی اللہ عنہ کا چہرہ دیکھنا بھی عبادت ہے۔کنزالعمال جلد 11 صفحہ 601 حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر عبادت ہے۔ ترمذی 3727 راوی ابو سعید حضور ﷺ نے فرمایا کہ اے علی میرے اور تیرے علاوہ کسی کے لئے جائز نہیں کہ حالت جنابت میں اس مسجد میں رہے۔ ترمذی 3719 میں علی سے ہوں اور علی مجھ سے ہے، میری طرف سے عہد و پیمان میرے اور علی کے سوا کوئی دوسرا (ذمہ دار) نہیں ہو گا۔ ابو داود 2790 حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کے فرمان کے مطابق ایک قربانی حضور ﷺ کی طرف سے کرتے۔
6۔ اس کے باوجود انبیاء کرام کے سوا صحابہ کرام و اہلبیت کے میں سے بھی کوئی معصوم نہیں اور جن کا نام قرآن و احادیث میں ہے وہ ہمارے ایمان میں شامل ہیں، اُن کا نقص بیان کرنا جائز نہیں۔
نتیجہ: اہلسنت کے پاس تمام مسائل کا حل حضور ﷺ کی احادیث سے نکلے گا، قرآن کی شان نزول احادیث سے معلوم ہو گی اور قرآن کی تفسیر احادیث کے بغیر ناممکن ہے۔ اہلتشیع کے پاس حضور ﷺ کی کوئی احادیث کی کتاب نہیں ہیں۔ صحابہ کرام کی اکٹھی کی ہوئی احادیث کو وہ مانتے نہیں اور پنجتن کی کوئی احادیث کی کتابیں ان کے پاس نہیں، اسلئے بے بنیاد دین ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
اہلحدیث حضرات صحیح احادیث کی شرح کا اصول بتائیں، کیا رفع یدین کی صحیح احادیث کے ساتھ ساتھ ایسی احادیث کو من و عن مان لینا چاہئے یا کسی اصول کے مطابق شرح کرنی چاہئے۔ وہ اصول کس مجتہد نے اہلحدیث کو دیا اس کا نام بتا کر ثواب دارین حاصل کریں۔
اتحاد امت: دیوبندی اور بریلوی کی تعلیم ایک ہے۔ اہلحدیث اور سعودی وہابی علماء کی تعلیم ایک ہے اور بدعت و شرک کس عالم نے نہیں سکھایا۔ البتہ سعودی وہابی علماء جو اپنے سوا کسی کو مسلمان نہیں سمجھتے، کا پراپیگنڈا ہے کہ اہلسنت علماء بدعتی و مشرک ہیں، لیکن اہلسنت علماء سے ملکر بات نہیں کرتے۔ دیوبندی اور بریلوی کی تعلیم پر مسلمان اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ اہلحدیث اور سعودی وہابی ایک ہو جائیں تو بڑی بات ہے، ان کا فرق ہی مسلماںوں کے لئے ایک تفرقہ ہے جس سے اہلتشیع بے بنیاد دین پروموٹ ہوتا ہے، اہلتشیع وہ جس کے پاس حضور ﷺ کی کوئی احادیث کی کتابیں نہیں ہیں، اسلئے منکر رسول اور ختم نبوت کے منکر ہیں۔