محاسبہ

1۔ عمومی طور پر ہم اپنا محاسبہ نہیں کرتے بلکہ دوسروں کا محاسبہ کرتے ہیں۔ دوسروں کی کمائی، عیب، گناہ، گھر، بچوں، رزق، کپڑوں وغیرہ پر تبصرہ کرتے ہیں۔ یہ بھی خیال ہوتا ہے کہ اس کے پاس ہر شے کہاں سے آئی اور اس میں سے ہمیں حصہ کیوں نہیں دے رہا۔ غریب امیر سے توقعات لگاتا ہے اور امیر اپنے سے زیادہ امیر پر توقعات لگاتا ہے اور غریبی کا یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔

2۔ اگر کوئی اپنا محاسبہ کرنا چاہتا ہے تو نہیں کر سکتا جب تک کہ اُس کے پاس علم، علم پر عمل کرنے کی جرات اور معاشرتی رسم و رواج سے ٹکرانے کی ہمت یا بغاوت کرنے کا حوصلہ نہ ہو۔

3۔ سب سے اہم کام اپنے شر (حسد، کینہ، بغض، لالچ، تکبر، انا) سے دوسروں کو بچانے کا ہے اور دوسروں کے شر سے ہمیں صرف اللہ کریم کی ذات محفوظ رکھ سکتی ہے۔ اسلئے اپنے شر سے دوسروں کو بچانا عبادت ہے، اس عبادت کی جزا میں رب کریم اس بندے کو اپنی حفاظت میں رکھتا ہے۔

غورو فکر: کیا ہم دوسروں کا محاسبہ اور اصلاح کرنے والے ہیں یا اپنا احتساب اور اصلاح کرنا چاہتے ہیں؟

کرپٹ حکومت کسی کا احتساب نہیں کرتی کیونکہ اُس کو ڈر ہوتا ہے کہ کل میرا بھی احتساب کیا جائے گا، اسلئے وہ دوسروں کو چوری، ڈاکہ، کرپشن، قرضوں کی معافی دیتی رہتی ہے جس سے ملک کا نقصان ہوتا ہے۔

گناہ گار انسان کسی کا احتساب نہیں کر سکتا بلکہ وہ چاہے گا دوسرے بھی گناہ گار ہوں تاکہ میں ان کے گناہوں کو آڑ بنا کر اپنے گناہوں کو جائز قرار دے سکوں۔

گناہ گار کی تبلیغ نیکوکاروں سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے کیونکہ شیطان ان کو لاکھوں حیلے سکھاتا ہے جب کہ نیکوکار ایک قانون و ضابطے کے ہوتے ہیں جس سے عوام کے ذائقے کا چسکا پورا نہیں ہوتا۔

حقیقت: کسی دوسرے کا تزکئیہ نفس بھی وہی کر سکتا ہے جو خود اصلاح یافتہ ہو ورنہ گمراہ کرے گا۔

ذاتی احتساب

1۔ ذاتی احتساب بہت مشکل کام ہے لیکن احتساب کرنے پر معلوم ہوا کہ لالچ دل کے اندر موجود ہے مگر رب کریم کے ڈر کی وجہ سے دوسروں کو نقصان کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ اسلئے آجتک کسی نے یہ نہیں کہا کہ اس نے ہمارا پیسہ کھایا ہے۔ دوسرا رب کریم اپنے بندوں کی آزمائش کرتا ہے اسلئے آزمائش آنے پر بھی رب کریم پر توکل مضبوط ہوا اور کسی امیر غریب سے گلہ نہیں کیا۔ باقی اللہ کا شکر ہے کہ بہت سے دوستوں کے احسانات بھی مجھ پر ہیں جن کا حق اللہ کریم ہی ادا کرے گا۔

2۔ لفظوں کا استعمال ذرا سخت ہوتا ہے جس سے بہت سے دوستوں کے دل زخمی ہو جاتے ہیں۔ ایک طرف تو عوام کہتی ہے کہ سچ بتائیں اور جب سچ کا علم ہو جائے تو مانتی بھی نہیں۔ دوسری طرف شریعت پر چلنے والا نرم نہیں ہو سکتا اور کسی کی مرضی پر نہیں چل سکتا۔

3۔ کبھی کسی نے گالی نکالتے نہیں دیکھا، برائی ضرور ہو جاتی ہو گی مگر کسی نے برائی کرتے نہیں دیکھا۔ وعدہ خلافی کبھی نہیں کی سوائے اللہ کریم سے کیونکہ اس کی عبادت میں دیر سویر ہو جاتی ہے جس پر دل بڑا کُڑھتا ہے کہ یا اللہ غفلت سے نجات دلا کر معرفت کا مقام عطا فرما۔

4۔ دوستوں سے قرضہ مانگ لیتا ہوں جب یہ ارادہ ہو کہ مجھے معاف نہ کریں بلکہ مجھے سے مقررہ وقت پر لے لیں۔ اسلئے چند دوستوں کو بینک سمجھتا ہوں، اُن سے لے کر اُن کو واپس بھی کر دیتا ہوں۔

5۔ جتنا علم ہے اُس پر عمل نہیں ہو پاتا، البتہ فرائض و واجبات وسنت موکدہ اعمال پورے کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہوں۔

6۔ رشتے داروں میں وراثت کے حق ادا کئے ہوئے ہیں۔ والدین و مرشد راضی گئے، اس کی بڑی خوشی ہے۔ باقی سب کو خوش نہیں کیا جا سکتا بلکہ اللہ کریم کو راضی کرنے کے لئے کام کیا جا سکتا ہے۔ یہ طریقہ معاشی، معاشرتی اور روحانی و ایمانی احتساب کا ہے کہ ہر مسئلے میں شریعت کے مطابق عمل ہو۔

جماعتی احتساب

مسلمان وہی ہوتا ہے جو قرآن و سنت پر ہو، اسلئے کوئی فرقہ یا جماعت بنانے کی کوشش نہیں کی بلکہ دیوبندی اور بریلوی کی تعلیم کو ایک سمجھا ہے جس پر سب کو چلنے کی دعوت دی جاتی ہے۔ البتہ دیوبندی اور بریلوی کا اصولی اختلاف چار کفریہ عبارتیں ہیں۔ اسلئے یہ خیال ہے:

1۔ اس پیج پر اپنا احتساب کیا اور ثابت کیا کہ دیوبندی اور بریلوی کی تعلیم ایک ہے، دونوں کے عقائد ایک ہیں، دونوں 600 سالہ خلافت عثمانیہ، اجماع امت، کے دور کے اہلسنت علماء کرام حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی کے متفقہ عقائد پر ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا؟ اگر ہم غلط ہیں تو بتائیں ہمیں کونسے عقائد و اعمال پر ہونا چاہئے؟

2۔ اہلحدیث غیر مقلد اور سعودی عرب کے وہابی حنبلی مقلد علماء ایک عقائد کے ہیں مگر پاکستان میں یہ غیر مقلد اور سعودیہ میں حنبلی مقلد ہیں، یہ ان کی تقیہ بازی ہے۔ اگر دونوں ایک نہیں ہوتے تو جھوٹے ہیں، اگر ایک ہو جاتے ہیں تو بتا دیں کہ کس اہلسنت علماء نے بدعت و شرک سکھایا اور کس نے کہا کہ تقلید بدعت و شرک ہے۔ اسلئے زیادہ تر “مار” اہلسنت کو سعودی عرب کے وہابی علماء پلس اہلحادیث کی وجہ سے ہے، جس کی وجہ سے رافضیت پروموٹ ہوتی ہے۔

3۔ پیری پریدی، دم درود، تعویذ دھاگے، میلاد، عرس، ایصال ثواب، قل و چہلم، تیجہ دسواں، مزارات پر حاضری، قبے، حرف ندا، توسل، استمداد، استغاثہ وغیرہ اصول و قانون کے مطابق صرف جائز ہیں لیکن فرض نہیں۔ اگر یہ سب اعمال نہ بھی کئے جائیں تو کوئی گناہ نہیں بلکہ دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث، وہابی میں لڑائی بند ہو جائے گی سوائے ایک مسئلے پر کہ اہلحدیث حضرات کوصحاح ستہ کی صحیح احادیث کے مطابق نماز کس نے سکھائی، اہلحدیث جماعت بتا کر ثواب دارین حاصل کریں۔

4۔ اہلتلشیع حضرات کا اسلام کوئی اور ہے کیونکہ ان کی بنیاد میں حضور کے فرمان شامل نہیں ہیں بلکہ ان کا سب سے بڑا مسلمانوں پر حملہ شیطان کی طرح شک پیدا کرنا ہے جس کی وجہ سے وہ اہلسنت کی احادیث کو مشکوک بناتے ہیں اور اہلسنت کی احادیث کی اپنی مرضی کی تشریح کر کے عوام کو گمراہ کرتے ہیں۔ اپنے امام کو نبی کا درجہ دیتے ہیں، اگر ایسا نہیں تو بتا دیں کہ نبی اور امام میں کیا فرق ہے اور نبی کی تعلیم موجود ہو تو امام نے کونسا دین سکھایا؟

بدقسمتی: ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم ایک دوسرے کو مسلمان نہیں سمجھتے۔ دوسرا اگر کسی میں کوئی غلطی ہے تو صرف غلطی نہیں بتاتے بلکہ ساری کی ساری جماعت کو غیر مسلم بنا دیتے ہیں۔

مسلمان: اگر ہمارا عقیدہ ٹھیک ہے تو ہمیں مسلمان کہا جائے، اگر نہیں تو اصلاح کی جائے۔

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general