نماز جنازہ
نماز یا نماز جنازہ کا کسی کو انکار نہیں ہے بلکہ اختلاف نماز ادا کرنے کے طریقے پر ہوتا ہے کیونکہ قرآن و احادیث کو سمجھ کراپنی فقہ کے اصول بنانے والے چار ائمہ کے نزدیک نماز جنازہ میں یہ امر ضروری ہیں:
امام شافعی: ان کے نزدیک نماز جنازہ میں دیگر فرائض نماز کی طرح قیام اور سورت فاتحہ کا پڑھنا فرض ہے اور سورت ملانے کے بارے میں ایک قول ہے کہ چھوٹی سورت ملائی جائے اور دوسرا قول ہے کہ سورت نہ ملائی جائے۔ دوسری تکبیر میں درود پڑھنا اور تیسری تکبیر کے بعد میت کے لئے دعا کرنا بھی فرض ہیں اور چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھیرنا بھی باقی نمازوں کی طرح فرض/واجب ہے۔ (شیخ ابو اسحاق شیرازی شافعی متوفی 455، المذہب ج 5 ص 239 – 232، مطبوعہ دارالفکر بیروت)
امام حنبل: نماز جنازہ کے واجبات/فرائض یہ ہیں: نیت، تکبیرات، قیام، سورۃ فاتحہ کا پڑھنا، نبی کریم پر درود، میت کے لئے دعا اور ایک طرف سلام پھیرنا اور وقت کے سوا اس میں فرض نماز کی تمام شرائط ہیں۔ (علامہ عبداللہ بن احمد بن قدامہ حنبلی متوفی 620ھ، المغنی ج 2 ص 184، مطبوعہ دار الفکر بیروت، الطبقہ الاولی 1405ھ)
امام مالک: امام مالک اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک نماز جنازہ میں قرآن مجید کی قرآت نہیں ہے کیونکہ نماز جنازہ صرف "دعا” ہے اور امام مالک نے فرمایا، ہمارے شہر میں نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنے کا معمول نہیں ہے اور فرمایا کہ نماز جنازہ میں پہلی تکبیر کے بعد صرف اللہ تعالی کی حمد و ثناء کرے اور دوسری تکبیر کے بعد نبی کریم پر درود پڑھے اور تیسری تکبیر کے بعد میت کے لئے شفاعت کرے اور چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھیر دے۔ (قاضی ابو الولید ابن رشد مالکی متوفی 595ھ، ہدایتہ المجتہد ج 1 ص 171، مطبوعہ دارالفکر بیروت)
امام ابو حنیفہ: امام محمد لکھتے ہیں کہ میں نے امام ابو حنیفہ سے پوچھا کہ میت پر نماز جنازہ کس طرح پڑھی جائے؟ امام ابو حنیفہ نے فرمایا: جب جنازہ رکھ دیا جائے تو امام آگے بڑھے اور لوگ پیچھے صفیں باندھ لیں۔ امام رفع یدین کر کے تکبیر کہے اور لوگ بھی اس کے ساتھ رفع یدین کر کے تکبیر کہیں۔ پھر اللہ تعالی کی حمد و ثناء کرے۔ پھر امام دوسری تکبیر کہے اور لوگ بھی بغیر رفع یدین کے اس کے ساتھ تکبیر کہیں اور نبی کریم پر درود پڑھیں، پھر امام تیسری تکبیر کہے اور لوگ بھی اس کے ساتھ بغیر رفع یدین کے تکبیر کہیں اور میت کے لئے استغفار اور اس کی شفاعت کریں، پھر امام چوتھی تکبیر کہے اور لوگ بھی اس کے ساتھ بغیر رفع یدین کے تکبیر کہیں اور امام دائیں بائیں جب سلام پھیر دے تو لوگ بھی سلام پھیر دیں۔۔ امام محمد نے کہا میں نے پوچھا: کیا حمد و ثناء، درود شریف اور میت کی دعا با آواز بلند پڑھی جائے، امام ابوحنیفہ نے فرمایا: نہیں ان میں سے کسی چیز کو با آواز بلند نہ پڑھیں بلکہ آہستہ پڑھیں۔ میں نے پوچھا کیا امام اور اس کے پیچھے مقتدی قرآن مجید پڑھیں، امام ابو حنیفہ نے فرمایا: امام قرات کرے اورنہ اس کی اقتدا میں مقتدی قرات کریں اور چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھیر دے۔ ( امام محمد بن حسن شیبانی متوفی 179ھ، المبسوط، ج 1، ص 422، 423، مطبوعہ ادارۃ القرآن کراچی)
نماز جنازہ پڑھنے کے طریقے میں اہلسنت احناف کا موقف
نماز جنازہ میں قیام اور چار تکبیریں فرض ہیں اور ان کی فرضیت اجماع امت سے ثابت ہے۔
پہلی تکبیر کے بعد ثناء، دوسری تکبیر کے بعد درود شریف اور تیسری تکبیر کے بعد میت کے لئے دعا کرنا مستحب ہے۔
ثناء، درود شریف اور استغفار کے لئے احادیث میں متعدد کلمات اور صیغے آئے ہیں ان میں سے جونسے مرضی کلمات بھی پڑھ سکتے ہیں کیونکہ چار تکبیریں لازم ہیں جس سے نماز جنازہ ادا ہو جائے گا، باقی اس میں پڑھنا پڑھانا مستحب ہے۔ تاہم برصغیر میں یہ رواج ہو گیا ہے کہ ثناء ، درود اور دعا ایک مخصوص طریقے سے مانگتے ہیں، ہے وہ بھی جائز مگر لاز نہیں۔
غیر مقلد یا اہلحدیث : غیر مقلد یا اہلحدیث جو صحیح احادیث بیان کرتے ہیں، اُس کا مسئلہ نہیں ہے، نہ ہی ان کی نماز جنازہ کے طریقے پر اختلاف ہے۔ ان سے ایک ہی سوال ہے کہ ان کو کس "مجتہد” نے کس دور میں صحیح احادیث کے ساتھ اہلحدیث جماعت کو نماز جنازہ کے فرائض، شرائط، واجبات سکھائے؟؟ اہلحدیث بتائیں یہ صحیح احادیث کے مطابق فتوی دینے کا فارمولہ کس مجتہد کا ہے، اس کا نام بتائیں اور مقلد بن جائیں۔ شکریہ
نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنے کے دلائل کا تجزیہ
1) نماز جنازہ میں قرآن مجید کی قرات پر علامہ شیرازی شافعی نے جو دلیل پیش کی ہے وہ یہ ہے کہ چونکہ باقی فرض نمازوں میں قرات فرض ہے اور نماز جنازہ بھی فرض نماز ہے اس لئے اس میں بھی قرات فرض ہے لیکن یہ دلیل صحیح نہیں ہے کیونکہ نماز جنازہ دیگر فرض نمازوں سے اپنے ارکان کے اعتبار سے مختلف ہے مثلا باقی نمازوں میں رکوع اور سجود بھی فرض ہے جبکہ نماز جنازہ میں رکوع اور سجود فرض نہیں ہیں۔
2) علامہ نووی اس مسئلہ پر استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ صحیح بخاری 1335 میں ہے کہ سیدنا ابن عباس نے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھی اور کہا میں نے یہ سورت اس لئے پڑھی ہے کہ یہ سنت ہے۔ علامہ نووی لکھتے ہیں کہ جب صحابی کسی مسئلہ میں کہے کہ یہ سنت ہے تو مذہب صحیح یہ ہے کہ وہ حدیث مرفوع ہوتی ہے اور حضرت ابن عباس کی یہ حدیث اس مسئلہ میں دیگر دلائل سے بے پرواہ کر دیتی ہے۔ (علامہ یحیی بن شرف نووی متوفی 676ھ۔ شرح المہذب ج 5، ص 432، مطبوعہ دارالفکر بیروت)
علامہ نووی کی یہ دلیل صحیح نہیں ہے کیونکہ جس خبر واحد میں کسی مسئلہ کے مسنون ہونے کی تصریح ہو اس خبر واحد سے اس مسئلہ کی فرضیت پر استدلال کس طرح درست ہو سکتا ہے جبکہ یہ امر بھی قطعی نہیں ہے کہ اس سے مراد سنت رسول اللہ ہے یا سنت صحابہ اور چونکہ دیگر دلائل سے نماز جنازہ میں قرآن مجید پڑھنے کی ممانعت ثابت ہے اس لئے یہ حدیث اس بات پر محمول ہے کہ سیدنا ابن عباس نے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کو تکبیر اولی کے بعد بطور دعا اور ثناء پڑھا تھا کیونکہ سورہ فاتحہ میں اللہ تعالی کی حمد و ثناء اور اس سے دعا کا مفہوم ہے اور پہلی تکبیر کے بعد نماز جنازہ میں اللہ تعالی کی حمد و ثناء کی جاتی ہے، اس لئے سیدنا ابن عباس نے اسی اعتبار سے سورہ فاتحہ پڑھی۔ اس حدیث کے علاوہ نماز جنازہ میں قرآن مجید پڑھنے کے سلسلے میں جتنی روایات پیش کی جاتی ہیں وہ سب ضعیف ہیں۔ علامہ نووی نے بھی شرح المہذب میں اس کا اعتراف کیا ہے اور صرف سیدنا ابن عباس کی مذکور الصدر روایت کو لائق استدلال قرار دیا ہے۔
ضعیف احادیث: طبرانی نے حضرت ام عفیف سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ نے ہم کو فاتحہ الکتاب پڑھنے کا حکم دیا اس کی سند میں عبدالمنعم سعید نام کا ضعیف راوی ہے۔
ابن ماجہ 1496 حضرت ام شریک سے روایت کیا کہ رسول اللہ نے ہمیں نماز جنازہ میں فاتحتہ الکتاب پڑھنے کا حکم دیا۔ حافظ ابن حجر نے تصریح کی ہے کہ اس کی سند میں ضعف ہے۔
طبرانی نے حضرت اسماء بنت یزید سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا جب تم نماز جنازہ پڑھو تو فاتحتہ الکتاب پڑھو۔ اس میں معلی بن حمران نام کا ضعیف راوی ہے۔
ترمذی اور ابن ماجہ نے حضرت ابن عباس سے رویات کیا کہ رسول اللہ نے نماز جنازہ میں فاتحتہ الکتاب پڑھی۔ اس کی سند میں ابراہیم بن عثمان ابو شیبہ سے جو انتہائی ضعیف راوی ہے۔
امام شافعی نے کتاب الام میں سیدنا جابر سے روایت کیا کہ رسول اللہ نے نماز جنازہ میں چار تکبیرات پڑھیں اور پہلی تکبیر کے بعد سورۃ فاتحہ پڑھی۔ اسی سند سے اسی حدیث کو حاکم نے بھی مستدرک میں روایت کیا ہے اور اس سند میں ابراہیم بن ابو یحیی ہے جو متروک ہے اور عبداللہ بن محمد عقیل ہے جو انتہائی ضعیف راوی ہے۔
طبرانی نے اوسط میں سیدنا ابوہریرہ سے روایت کیا کہ نبی کریم نے نماز جنازہ میں چار مرتبہ پڑھا الحمد للہ رب العالمین۔ اس کی سند میں ناہض بن قاسم مجہول ہے۔ طبرانی نے اوسط میں حضرت عباس سے روایت کیا کہ نبی کریم نے آگے بڑھ کر نماز جنازہ پر بلند آواز سے سورہ فاتحہ پڑھی پھر دوسری تکبیر کے بعد دعا کی الحدیث اس روایت کی سند میں یحیی بن یزید بن عبدالملک نوفل نام کا ضعیف راوی ہے۔
نماز جنازہ میں قرآن مجید پڑھنے کی ممانعت
امام ابو حنیفہ نے جو نماز میں قرآن مجید پڑھنے سے منع فرمایا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ کثیرصحابہ نے نماز جنازہ میں قرآن پڑھنے سے منع کیا ہے اس سبب سے نماز جنازہ میں قرآن مجید کی کسی آیت کو بطور تلاوت قرآن پڑھنا جائز نہیں ہے۔ البتہ نماز جنازہ میں قرآن مجید کی کسی آیت کو ثناء یا دعا کے طور پر پڑھا جا سکتا ہے۔ حسب ذیل احادیث اور آثار صحابہ سے نماز جنازہ میں قرآن مجید کا پڑھنا ممنوع ہے۔
عن جابر قال ما باح لنا رسو اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و لا ابوبکر و لا عمر فی الصلوۃ علی المیت بشیء۔ حضرت جابر کا بیان ہے کہ رسول اللہ اور حضرات ابوبکرو عمر نے نماز جنازہ میں کسی چیز کے پڑھنے کو معین نہیں فرمایا۔ (حافظ ابوبکر بن ابی شیبہ متوفی 235ھ، المصنف ج 3، ص 294، مطبوعہ ادارۃ القرآن کراچی ، الطبقہ الاولی 1406ھ)
عمرو بن شعیب اپنےباپ سے وہ اپنے دادا سے اور وہ رسول اللہ کے تیس صحابہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے نماز جنازہ میں کسی معین چیز کے ساتھ قیام نہیں کیا۔ (حافظ ابوبکر بن ابی شیبہ متوفی 235ھ، المصنف ج 3، ص 294، مطبوعہ ادارۃ القرآن کراچی ، الطبقہ الاولی 1406ھ)
موسی جھنی کہتے ہیں میں نے حکم، شعبی، عطاء اور مجاہد سے پوچھا کہ کیا نماز جنازہ میں کوئی چیز مقرر ہے؟ انہوں نے کہا نہیں تم صرف شفاعت کرنے والے ہو پس اچھی دعا کے ساتھ شفاعت کرو۔ (حافظ ابوبکر بن ابی شیبہ متوفی 235ھ، المصنف ج 3، ص 295، مطبوعہ ادارۃ القرآن کراچی ، الطبقہ الاولی 1406ھ)
شعبی کہتے ہیں کہ میں پہلی تکبیر میں اللہ تعالی کی حمد و ثناء کی جائے، دوسری تکبیر میں نبی کریم پر درود پڑھا جائے۔ تیسری تکبیر میں میت کے لئے دعا کی جائے اور چوتھی تکبیر میں سلام پھیر دیا جائے۔ (حافظ ابوبکر بن ابی شیبہ متوفی 235ھ، المصنف ج 3، ص 295، مطبوعہ ادارۃ القرآن کراچی ، الطبقہ الاولی 1406ھ)
حضرت علی جب نماز جنازہ پڑھتے تو پہلے اللہ تعالی کی حمد کرتے پھر نبی پر درود شریف پڑھتے پھر دعا کرتےاللھم اغفر لاحیاءنا و امواتنا۔ (حافظ ابوبکر بن ابی شیبہ متوفی 235ھ، المصنف ج 3، ص 295، مطبوعہ ادارۃ القرآن کراچی ، الطبقہ الاولی 1406ھ)
نافع بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمر نماز جنازہ میں قرآن مجید نہیں پڑھتے تھے۔ (حافظ ابوبکر بن ابی شیبہ متوفی 235ھ، المصنف ج 3، ص 298، مطبوعہ ادارۃ القرآن کراچی، الطبقہ الاولی 1406ھ)
ایوب کہتے ہیں کہ محمد بن سیرین نماز جنازہ میں قرآن مجید نہیں پڑھا کرتے تھے۔ (حافظ ابوبکر بن ابی شیبہ متوفی 235ھ، المصنف ج 3، ص 298، مطبوعہ ادارۃ القرآن کراچی، الطبقہ الاولی 1406ھ)
ابوالمنہال کہتے ہیں کہ میں نے ابو العالیہ سے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنے کے کے متعلق پوچھا انہوں نے کہا میرے گمان میں سورہ فاتحہ صرف اس نماز میں پڑھی جاتی ہے جس میں رکوع اور سجود ہو۔ (حافظ ابوبکر بن ابی شیبہ متوفی 235ھ، المصنف ج 3، ص 299، مطبوعہ ادارۃ القرآن کراچی ، الطبقہ الاولی 1406ھ)
علی کہتے ہیں کہ میں نے فضالہ بن عبیدہ سے پوچھا کہ کیا میت پر قرآن مجید پڑھا جائے گا؟ انہوں نے کہا نہیں۔ (حافظ ابوبکر بن ابی شیبہ متوفی 235ھ، المصنف ج 3، ص 299، مطبوعہ ادارۃ القرآن کراچی ، الطبقہ الاولی 1406ھ)
سعید بن ابی بردہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوبردہ سے ایک شخص نے پوچھا کیا میں نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھوں فرمایا مت پڑھو۔ (حافظ ابوبکر بن ابی شیبہ متوفی 235ھ، المصنف ج 3، ص 299، مطبوعہ ادارۃ القرآن کراچی ، الطبقہ الاولی 1406ھ)
حجاج کہتے ہیں کہ میں نے عطاء سے نماز جنازہ میں قرآن مجید پڑھنے کے بارے میں سوال کیا انہوں نے کہا ہم نے یہ نہیں سُنا۔(حافظ ابوبکر بن ابی شیبہ متوفی 235ھ، المصنف ج 3، ص 299، مطبوعہ ادارۃ القرآن کراچی ، الطبقہ الاولی 1406ھ)
ابراہیم اور شعبی بیان کرتے ہیں کہ نماز جنازہ میں قرات نہیں ہے۔ (حافظ ابوبکر بن ابی شیبہ متوفی 235ھ، المصنف ج 3، ص 299، مطبوعہ ادارۃ القرآن کراچی ، الطبقہ الاولی 1406ھ)
عبداللہ بن ابی سارہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سالم سے پوچھا: کیا نماز جنازہ میں قرات ہے۔ انہوں نے کہا نماز جنازہ میں قرات نہیں ہے۔ (حافظ ابوبکر بن ابی شیبہ متوفی 235ھ، المصنف ج 3، ص 299، مطبوعہ ادارۃ القرآن کراچی ، الطبقہ الاولی 1406ھ)
علامہ سرخسی نماز جنازہ میں قرآن مجید پڑھنے کے عدم جواز پر استدلال کرتے ہوئَ لکھتے ہیں:
ہماری دلیل حضرت ابن مسعود کی حدیث ہے کہ رسول اللہ نے نماز جنازہ میں کوئی دعا مقرر فرمائی ہے نہ قرات۔ امام کی تکبیر پر تکبیر کہو اور اچھی دعا کو اختیار کرو۔اسی طرح حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت ابن عمر سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ نماز جنازہ میں قرآن مجید کی قرات نہیں ہے اور حضرت جابر کی روایت کا جواب یہ ہے کہ انہوں نے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کو بطور ثناء پڑھا تھا نہ بطور قرات۔
نیز نماز جنازہ حقیقتا نماز نہیں ہے۔ یہ صرف میت کے لئے استغفار اور دعا ہے۔ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ نماز جنازہ میں نماز کے ارکان میں سے رکوع اور سجود نہیں ہیں اور اس کو نماز اس لئے کہتے ہیں کہ لغت میں صلوۃ نماز دعا کو کہتے ہیں اور طہارت اور قبلہ کی طرف منہ کرنے کی شرط اس بات پر دلالت نہیں کرتی کہ یہ حقیقتا نماز ہے اور اس میں قرات ہے، جس طرح سجدہ تلاوت میں یہ شرط اس کے حقیقتہ نماز ہونے کو مستلزم نہیں ہے اور تکبیر اولی کے سوا اس میں رفع یدین نہیں کیا جائے گا اور امام اور مقتدیوں کو ان مسائل میں ایک حکم ہے۔
نماز جنازہ کا طریقہ: نماز جنازہ میں چار تکبیریں ہیں۔ پہلی تکبیر کے بعداللہ تعالی کی حمد و ثناء، دوسری کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف، تیسری کے بعد میت کے لئے دعا اور چوتھی کے بعد سلام پھیرا جاتا ہے۔
1۔ صحیح بخاری 1333: رسول اللہ نے نجاشی کی وفات کی خبر دی جس دن وہ فوت ہوئے تھے۔آپ صحابہ کو لے کر عیدگاہ پہنچے ان کی صف بندی کی اور آپ نے چار تکبیریں کہیں۔
2۔ مشہور تابعی امام شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میت کے جنازہ پر پہلی تکبیر کے بعدثناء دوسری تکبیر کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود جبکہ تیسری تکبیر کے بعد میت کے لیے دعا اور چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھیرا جاتا ہے۔ (مصنف عبد الرزاق ج 3 ص 316 باب القرأۃ والدعاء فی الصلاۃ علی المیت، رقم 6462)
3۔ جلیل القدر تابعی حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: نماز جنازہ میں پہلی تکبیر کے بعد اللہ کی حمد وثنائ، دوسری کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود، تیسری کے بعد میت کے لیے دعا اور چوتھی کے بعد سلام پھیرا جاتا ہے۔ (کتاب الآثار لابی حنیفۃ بروایۃ الامام محمد ص 48 باب الصلوۃ علی الجنازۃ رقم 238)
ثناء: مختلف صیغوں میں ہے کوئی بھی پڑھ سکتے ہیں اور فاتحہ کو بھی بطور ثناء پڑھ سکتے ہیں۔
1۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع فرماتے توسُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمَدِکَ آخر تک پڑھتے تھے۔ ( سنن النسائی ج 1ص143 باب نوع آخر من الذکر )
2۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت میں ثناء میں’’ وَ جَلَّ ثَنَاؤُکَ‘‘ کے الفاظ بھی آئے ہیں: اِنَّ مِنْ اَحَبِّ الْکَلاَمِ اِلیَ اللّٰہِ عَزَّ وَ جَلَّ اَنْ یَقُوْلَ الْعَبْدُ سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمَدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ وَ جَلَّ ثَنَاؤُکَ وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ۔ (مسند الفردوس لابی شجاع الدیلمی ج 1ص214 رقم الحدیث 819)
درود شریف: افضل درود درود ابراہیمی ہے۔ اگر اس کے علاوہ کوئی اور پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے۔ احادیث مبارکہ میں نماز جنازہ کے لیے لفظ بہ لفظ کوئی درود مقرر نہیں ہے۔
میت کے لئے دعا: ترمذی 1024: اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَمَیِِّتِنَا وَشَاھِدِنَا وَ غَائِبِنَا وَصَغِیْرِنَا وَکَبِیْرِنَا و َذَکَرِنَا وَاُنْثَانَا،اَللّٰھُمَّ مَنْ اَحْیَیْتَہٗ مِنَّا فَاَحْیِہٖ عَلَی الْاِسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّیْتَہٗ مِنَّا فَتَوَفَّہٗ عَلَی الْاِیْمَانِ (مصنف عبدالرزاق ج3ص 313باب القرأۃ والدعاء فی الصلاۃ علی المیت رقم 6447)
سلام:حضرت ابراہیم ہجری رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی کا جنازہ پڑھایا اور چار تکبیریں کہیں پھر اپنے دائیں طرف اور بائیں طرف سلام پھیرا۔(السنن الکبریٰ للبیہقی ج 4 ص 43 باب من قال یسلم عن یمینہ وعن شمالہ) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جنازے کا سلام دوسری نمازوں کے سلام کی طرح ہے۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی ج 4 ص 43 باب من قال یسلم عن یمینہ وعن شمالہ،التلخیص الحبیر لابن حجر ج 2 ص 124 رقم 771)
تعلیمات اور شخصیات: عوام کو بے وقوف بنایا جاتا ہے یعنی یہ کہا جاتا ہے کہ دو مذاہب ہیں ایک یزیدی اور دوسرا حیسنی حالانکہ سوال یہ ہے کہ یزید اور سیدنا حسین کس دین پر تھے جو قرآن و سنت پر نہیں وہ یزید ہے اور جو قرآن و سنت پر ہے وہ سیدنا حسین ہیں۔ اہلتشیع کے پاس حضور، مولا علی، سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن و حسین کی کوئی احادیث کی کتابیں، احادیث اور تعلیم نہیں، اسلئے مسلمان نہیں۔
بریلوی اور دیوبندی کوئی دو مسالک نہیں، احمد رضا ہو یا اشرف علی تھانوی ان دونوں پر ایمان لانے کا حُکم نہیں مگر عوام کو دونوں کی تعلیمات نہیں سکھائی گئیں بلکہ دیوبندی اور بریلوی میں تقسیم کر دیا۔ اصولی اختلاف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کا ہو گا مگر پہلے جس تعلیم کی وجہ سے فتوی لگا اُس عقائد کا علم ہونا چاہئے۔ دیوبندی اور بریلوی کی تعلم اور عقائد ایک ہیں۔
اہلحدیث اور سعودی وہابی علماء کی تعلیم ایک ہے مگر تقیہ بازی یہ ہے کہ دونوں کے نزدیک بریلوی اور دیوبندی کی تعلم بدعت و شرک ہے۔ البتہ سعودی وہابی علماء دیوبندی کے ساتھ بھی بنا کر رکھتے ہیں اور اہلحدیث کو بھی چندہ ملتا رہتا ہے۔ اسلئے ساری دنیا جانتی ہے کہ اہلحدیث حضرات وہابی غیر مقلد ہیں اور سعودی حنبلی کہلاتے ہیں۔
نتیجہ: پہلے بریلوی اور دیوبندی کی تعلیم جو فتاوی رضویہ اور دیوبندی کی المہند کتاب میں ہے، اُس پر اہلسنت کو ایک ہونا چاہئے۔ دوسرا اہلحدیث اور سعودی وہابی علماء پہلے ایک ہو جائیں اور پھر بتائیں کہ بدعت و شرک کس نے سکھایا تو جھوٹ سمجھ میں آ جائے گا۔ بدعت و شرک کسی نے نہیں سکھایا، یہ سب اہلحدیث حضرات پلس سعودی وہابی علماء کا اہلسنت کے خلاف پراپیگنڈا ہے جس سے لبرلز، سیکولر، رافضیت کو فائدہ ہو رہا ہے۔ اصل اہلسنت وہی ہوں گے جو دیوبندی اور بریلوی کی تعلیم پر ہوں گے۔ جو دیوبندی سعودیہ کے ساتح ہیں وہ اپنے اکابر کو بدعتی و مشرک بنا رہے ہیں