طلاق طلاق طلاق
1۔ ترمذی 1184: "تین چیزیں ایسی ہیں کہ انہیں سنجیدگی سے کرنا بھی سنجیدگی ہے اور ہنسی مذاق میں کرنا بھی سنجیدگی ہے نکاح، طلاق اور رجعت“۔ مذاق، پیار، کھیل میں تین دفعہ طلاق کہہ دی تو طلاق واقع ہو جاتی ہے۔
بہترین طریقہ: اگر کسی مرد نے بیوی کو طلاق دینی ہے تو پہلے اس کی غلطی سدھارے ، اس سے بستر الگ کرے، اس کے ساتھ نہ سوئے، دونوں طرف کے بڑے شامل ہوں، اگر تب بھی کام نہ بنے تو بیوی جب حیض سے فارغ ہو تو اسے ایک طلاق دے، اس کے بعد دوسرے ماہ جب حیض سے فارغ ہو، دوسری طلاق دے، اس کے بعد جب تیسرے حیض سے فارغ ہو تو اس کو تیسری طلاق دے۔ اب تین طلاقیں مکمل ہو گئیں وہ عورت عدت گذار کر آزاد ہے جس سے چاہے نکاح کر لے۔
بدترین طریقہ: اکٹھی تین طلاقیں دینا بدعت اور بد ترین طریقہ ہے، اس کے بعد وہ عورت عدت گذار کر آزاد ہے جہاں چاہے نکاح کرے۔ البتہ اگر ایک طلاق دی مگر بیوی سے عدت کے اندر رجوع کر لیا، اس کو بلا لیا، کمپرومائز کر لیا، تو اب دو طلاق کا اختیار رہ گیا۔ پھر ایک طلاق دی تو عدت کے اندر رجوع کر لیا تو پھر ایک طلاق کا اختیار رہ گیا۔ ایسا نہیں ہے کہ ایک طلاق دینے کے بعد رجوع کر لیا تو اب پھر تین کا اختیار رہ گیا بلکہ صرف دو کا رہ گیا۔
طلاق: عورت حاملہ ہو یا حیض میں ہو، اگر ایک طلاق کہہ دی یا تین طلاقیں کہہ دیں تو ہو تین طلاق ہو جائیں گی۔ طلاق لکھ کر، اشارے سے، وکیل کے ذریعے، کسی بھی ذریعے سے ہو سکتی ہے۔ البتہ آجکل کے دور میں بہتر ہے کہ عام آدمی یونین کونسل کے دفتر جائے اور مشورہ کر کے دے۔
2۔ سیدنا عمر نے قرآن و سنت کے مطابق تین طلاق کو ایک وقت کہنے کو تین طلاق کا قانون نافذ فرمایا جس پر سب صحابہ کرام اور چاروں ائمہ کرام کا عمل رہا اور سیدنا عمر قرآن و سنت کے خلاف نہیں ہو سکتے۔
تین طلاق کے دلائل
حضورﷺ کےزمانہ مبارک میں تین طلاقوں کو ایک ساتھ دینے کے متعدد واقعات احادیث میں آۓ ہیں جس کو آپ نے نافذ فرمایا مثلا
1۔ حضرت حضرت عویمر عجلانی رضی اللہ عنہ کی لعان والی حدیث میں حضور ﷺ نے تین طلاق کے فعل پر کسی قسم کی تنقید نہ فرمائی۔ (ابوداٶد 2245)
2۔ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے صحیح سند سے روایت کیا ہے کہ ابو رکانہ رضی اللہ عنہ نے درحقیقت بتہ کے لفظ سے طلاق دی تھی اس بنا پر حضور ﷺ نے قسم دے کر ان کی نیت معلوم کی تھی اس کے جواب میں انھوں نے ایک طلاق کی نیت کااظہار کیا تھا اگر بتہ کے لفظ سے تین طلاق کی نیت اور وقوع کا احتمال نہ ہوتا تو پھر قسم دے کر معلوم کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ امر اس بات کی دلیل ہے کہ اگر وہ اس لفظ سے تین کی نیت کر لیتے تو تین طلاقیں واقع ہوجاتیں۔ (ابوداٶد 2208)
3۔ حضرت فاطمہ بن قیس رضی اللہ عنہا کو یمن جاتے ہوۓ اس کے شوہر نے دفعتا تین طلاقیں دیں نبی کریم ﷺ نےان تین طلاقوں کو نافذ فرمایا۔ (ابن ماجہ 2024)
4۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا فیصلہ "مصنف ابن أبي شيبة”میں مذکور ہے: "اگر سیدنا عمر کے پاس کسی ایسے شخص کولایا جاتا جس نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دی تھیں، تو وہ اسے مارتے اوربیوی کو اس سے الگ کر دیتے۔ (باب من كره ان يطلق الرجل إمرأته ثلاثا ٤/١١).
5۔ خلیفہ سوم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا فیصلہ "مصنف ابن ابي شيبة”میں مذکور ہے: "ایک آدمی سیدنا عثمان کے پاس آیا اور کہا: میں نے اپنی بیوی کو سو طلاق دے دی ہے۔آپ نے فرمایا: تین سے طلاق ہو گئی اور 97 طلاق کہنا ظلم ٹھرا۔ ( باب ماجاء يطلق إمرأته مائة و الف في قول واحد 6/13).
6۔ خلیفہ چہارم حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فیصلہ "مصنف عبد الرزاق”میں مذکور ہے: "عن شريك بن ابي نمر قال: جاء رجل الي علي رضي الله عنه فقال: إني طلقت إمرأتي عدد العرفج؛ قال: تأخذ من العرفج ثلاثا و تدع سائره”. (باب الطلق ثلاثا ٦/٣٠٦).
7۔ تفسیر "احکام القرآن” للقرطبی میں امت کا اجماع منقول ہے:”قال علمائنا: و اتفق ائمة الفتوي علي لزوم ايقاع الطلاق الثلاث في كلمة واحدة”. (١/٦٩٢)۔ تمام ائمہ کرام کا متفقہ فیصلہ ہے کہ تین طلاق ایک دم کہنے سے تین طلاق ہو جاتی ہیں۔
8۔ مسلم شریف کی شرح "الجامع الصحيح” للنووي میں ہے: "وقد اختلف العلماء فيمن قال لإمرأته: "انت طالق ثلاثا” فقال الشافعي و مالك و ابو حنيفة و احمد و جماهير العلماء من السلف و الخلف: يقع الثلاث”. (١/٤٧٨ ط: قديمي) اپنی بیوی کو کسی نے تین طلاقیں دیں؟” امام شافعی، مالک، ابو حنیفہ، احمد اور جمہور اہل علم نے کہا: تینوں طلاقیں واقع ہوتی ہیں۔
9۔ احناف کی فتوی کی مشہور کتاب "فتاوی شامی” میں ہے: "(قوله: ثلاثة متفرقة) و كذا بكلمة واحدة بالأولي… و ذهب جمهور الصحابة و التابعين و من بعدهم من ائمة المسلمين الي أنه يقع الثلاث”. ( كتاب الطلاق : مطلب طلاق الدور ٣/٣٣٣ ط:سعيد). تین طلاق الگ الگ وقت میں دیں یا ایک ہی دفعہ دیں ، جمہور صحابہ و تابعین کے نزدیک تین طلاق واقع ہو جاتی ہیں۔
10۔ فقہ مالکی کی مشہور کتاب "التمهيد” لابن عبد البرمیں ہے:”فإن طلقها في كل طهر تطليقة او طلقها ثلاثا مجتعات في طهر لم يمس فيه فقد لزمه”. (٦/٥٨) کسی نے تین طہر میں تین طلاق دیں یا ایک طہر میں تین طلاقیں دیں ، طلاق ہو جائے گی۔
11۔ امام شافعی کی مشہور کتاب ” كتاب الام”میں ہے:”و القران يدل-و الله اعلم- علي ان كن طلق زوجة له دخل بها او لم يدخل بها ثلاثا لم تحل له حتي تنكح زوج غيره”. (ج:٢)
12۔ فقہ حنبلی کی مشہور کتاب "مسائل احمد” برواية إبنهمیں ہے: ” قلت لأبي: رجل طلق ثلاثاً وهو ينوي واحدة؟ قال: هي ثلاث”. (ص:٣٧٣) فقط واللہ اعلم
غیر مقلد: حضورﷺ نے تین طلاقوں کو تین طلاقیں ہی فرمایا ہے، اسلئے صحابہ کرام کا اس پر اجماع ہے لیکن اہلحدیث کہیں گے کہ ہم صحابہ کو معصوم نہیں مانتے کیونکہ وہ غلطی کر سکتے ہیں تو پھر محدثین و مفسرین معصوم ہوئے جو اُن کی احادیث مانتے ہو۔ دوسرا کس مجتہد نے تین طلاق کو ائمہ کرام کے خلاف ایک طلاق کہا اُس کا نام نہیں بتاتے۔
3۔ تین طلاقیں دینے والے توبہ کریں، علماء اگر نہیں سمجھاتے تو جس کو علم آ جائے وہ بھی عالم ہے، اسلئے وہ اپنے اپنے گھر میں سمجھائے کیونکہ دین ہم سب کا ہے۔ عوام یہ نہ سمجھے کہ جس مرضی مسئلے پر عمل کر لے کیونکہ یہ مولویوں کی لڑائی ہے بلکہ سمجھنا اور حق تلاش کرنا ذمہ داری ہے۔
تعلیمات اور شخصیات: عوام کو بے وقوف بنایا جاتا ہے یعنی یہ کہا جاتا ہے کہ دو مذاہب ہیں ایک یزیدی اور دوسرا حیسنی حالانکہ سوال یہ ہے کہ یزید اور سیدنا حسین کس دین پر تھے جو قرآن و سنت پر نہیں وہ یزید ہے اور جو قرآن و سنت پر ہے وہ سیدنا حسین ہیں۔ اہلتشیع کے پاس حضور، مولا علی، سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن و حسین کی کوئی احادیث کی کتابیں، احادیث اور تعلیم نہیں، اسلئے مسلمان نہیں۔
بریلوی اور دیوبندی کوئی دو مسالک نہیں، احمد رضا ہو یا اشرف علی تھانوی ان دونوں پر ایمان لانے کا حُکم نہیں مگر عوام کو دونوں کی تعلیمات نہیں سکھائی گئیں بلکہ دیوبندی اور بریلوی میں تقسیم کر دیا۔ اصولی اختلاف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کا ہو گا مگر پہلے جس تعلیم کی وجہ سے فتوی لگا اُس عقائد کا علم ہونا چاہئے۔
اہلحدیث اور سعودی وہابی علماء کی تعلیم ایک ہے مگر تقیہ بازی یہ ہے کہ دونوں کے نزدیک بریلوی اور دیوبندی کی تعلم بدعت و شرک ہے۔ البتہ سعودی وہابی علماء دیوبندی کے ساتھ بھی بنا کر رکھتے ہیں اور اہلحدیث کو بھی چندہ ملتا رہتا ہے۔ اسلئے ساری دنیا جانتی ہے کہ اہلحدیث حضرات وہابی ہیں مگر سعودی حنبلی کہلاتے ہیں اور اہلحدیث غیر مقلد۔ اس فرق کو ختم کرکے وہابی اور اہلحدیث کو ایک ہونا چاہئے۔
نتیجہ: پہلے بریلوی اور دیوبندی کی تعلیم جو فتاوی رضویہ اور دیوبندی کی المہند کتاب میں ہے، اُس پر اہلسنت کو ایک ہونا چاہئے۔ دوسرا اہلحدیث اور سعودی وہابی علماء پہلے ایک ہو جائیں اور پھر بتائیں کہ بدعت و شرک کس نے سکھایا تو جھوٹ سمجھ میں آ جائے گا۔ بدعت و شرک کسی نے نہیں سکھایا، یہ سب اہلحدیث حضرات پلس سعودی وہابی علماء کا اہلسنت کے خلاف پراپیگنڈا ہے جس سے لبرلز، سیکولر، رافضیت کو فائدہ ہو رہا ہے۔